اخلاقی قیادت سماج سازی

لورنس ایم میلرس گزشتہ چالیس برسوں سے کارپوریٹ کلچر اور لیڈرشپ پر مشاورت کرتے رہے ہیں اوراعلیٰ کارکردگی والی ٹیمیں اورتنظیمیں پیدا کرتے رہے ہیں۔اخلاقی قیادت کے موضوع پرآپ کے مضمونوں کا ایک سلسلہ بلاگ بہائی ٹیچنگز BahaiTeachings.org میں شائع ہوا ہے۔ ہم  بہائی ٹیچنگز کے شکریہ کے ساتھ ان صفحات پراس سلسلے کےپہلے مضمون کا ترجمہ نیچے شائع کررہے ہیں۔

اخلاقی قیادت: مقام کار پربہائی اصول

امربہائی انسانیت سے تہذیب وتمدن کی تخلیق نوکا وعدہ کرتا ہے، یعنی اس سیارے پر زندگی کا ایک نیا نظام جس میں ہماری زندگیوں کے ہر پہلو میں روحانی اصول سرایت کر جائے گی اور گھرانا سے لے کرعالمی گورننس کے تمام اداروں تک کی احیا  کو پرزور کرے گی۔

بہائیوں کا ماننا  ہے کہ کاروبار کے اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت اورتعلیم کی تنظیمیں سب کی اس نئی تہذیب کے زور انگیز جذبے کے ذریعہ   بتدریج رہنمائی کی جائے گی۔ مضامین کے اس سلسلے میں میں اس پربعض خیالات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہم ان روحانی مہمات کی تعمیر کیسے شروع کرسکتے ہیں۔

اس سیارے پرانسانیت کی بیشتر زندگی کو ہم نے عمودی اتھارٹی کے مفروضے کے مطابق حکومت کے اداروں کومنظم کیا ہے۔ رعایہ بادشاہ کی اطاعت کرتی تھی، اوردینی پیشواؤں سے رہنمائی طلب کرتی تھی۔ تہذیب کے پچپن میں اتھارٹی اوپر سے نیچے کی طرف جاتی تھی اور ہم اطاعت کرتے تھے۔ اس کے بعد نوجوانوں کی طرح ہم نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور آمرانہ طرز حکمرانی کو ترک کر دیا۔ آزادی کے اس مرحلہ میں  ،جو ’’میرے اپنے کاموں کو کرنے‘‘ کا مرحلہ تھا،  ہم تاریخی طور پر ایک  بے مثال دور میں داخل ہوئے  جو انفرادی خوشی، خودارادیت اور خود مختاری  کی تلاش کا دور تھا۔

تاہم، حقیقی بلوغ کا مطلب کچھ الگ ہے۔ بلوغ ہم سے انحصار باہمی کے دور میں داخل ہونے کا تقاضا کرتی ہے جس میں مشترکہ مفاد اور تعاون باہمی انفرادی تسلط سے زیادہ اہم  ہو جاتا ہے۔ بہائی نقطۂ نظر سے نوع بشر اس وقت بلوغ کے مرحلہ میں داخل ہو رہی ہے ،اور اگر ہم  مشترکہ اصولوں اور مستقبل کے ایک  مشترکہ تصور پر متفق ہوں تو ہی اس تک پہنچ پائیں گے۔

پہلا اصول: ایمانداری، تمام نیکیوں کی بنیاد
ایمانداری اور معتبری تمام نیکیوں کو سہارا دیتے ہیں، اور تمام معاشی سرگرمیوں کو بھی۔  اس سے زیادہ عیاں با لذات تاہم مشکل طور پر پیچیدہ کوئی اصول موجود نہیں۔ کاروباری ماحول انفرادی نفس کے لئے صلاحیت کی ایک بڑی آزمائش کا کام دے سکتا ہے۔ تاجر حضرات قدرو قیمت کا ایک مسلسل تاثر دیتے رہتے ہیں مثلاً اپنے مال تجارت کی اہمیت، کار کی تاریخ، کسی گھر کے حالت اور تاریخ، زمین کے کسی ٹکڑے کی ممکنہ ترقی، یا کسی ذخیرے کی قدردانی کا امکان۔ یہ رابطہ اکثر ایک ماہر اور ایک غیر پیشہ ور کے درمیان ہوتا ہے یعنی  دو ایسے افراد کے درمیان جن میں سے فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسرا نقصان۔ بددیانتی کرنا اکثر آسان دکھائی دیتا ہے اور بیشتر بظاہر آدمی کے اپنے مفاد میں۔ اس لالچ پر قابو پا نے کے لئے لازم ہے کہ تاجر قلیل المدت ذاتی مفاد سے منقطع ہو، اور طویل المدت تعلقات  کی  دیر پا اہمیت پر توجہ مرکوز کرے۔  بہائی تعلیمات واضح طور پر اس اصول کو درست قرار دیتی ہیں:

’’لوگو! اپنی زبانوں کو صداقت سے آراستہ کرو، اور اپنے نفوس کودیانتداری کے زیور سے۔ لوگو! خبردار کہ تم کسی کے ساتھ دغابازی سے معاملہ مت کرنا۔ تم خدا کی مخلوق کے دمیان اس کے امین بنواور اس کے لوگوں کے درمیان اس کی سخاوت کی علامات۔ جولوگ جو اپنی خواہشات اور فاسد رغبتوں کی پیروی کرتے ہیں،انہوں نے غلطی کی ہے اوراپنی کوششوں کوبرباد کیاہے۔ درحقیقت وہ گمراہوں میں سے ہیں۔‘‘

(حضرت بہاءاللہ، گلیننگز فرام دی رائیٹنگز آف بہاءاللہ،صفحہ ۲۸۷)

آج کل کے تجارتی ماحول میں بنیادی طور پر خریدار اور فراہم کنندہ کے درمیان طویل مدت تعلقات اعتماد کی بنیاد پر قائم ہوتے اور قائم رہتے ہیں۔ ماضی میں مشرق وسطیٰ کے بازاروں میں تجارت کرنے والے فراہم کنندہ جو خریدار سے جتنا زیادہ ہو سکے اتنا ادا کروانے کے ماہر تھے وہاں  خریدار اور فراہم کنندہ کے در میا ن سودے بازی ایک ایسے کھیل کی نمائندگی کرتی تھی جو ایسے ثقافتی قواعد کے ساتھ کھیلا جاتا تھا جو دونوں فریقوں کو ایک حد تک بے ایمانی کی گنجائش دیتے تھے۔

Walmart

لیکن آجکل کے ماحول میں والمارٹ، ایل ایل بین، ہوم ڈپوٹ اور ان جیسے دوسرے ہزاروں کاروباری ادارےخریدار کے اطمینان کی ضمانت دیتے ہیں۔ خریدا ہوا مال آپ انہیں بغیر کسی سوال کے واپس کرسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایک سادہ سی تلاش آپ کوہسپتالوں ، دوائیوں،حیاتینوں،کی کامیابی کی شرح سے،کاروں کی کارکردگی سے،ہوٹلوں اور ایئر لائنوں سے گاہکوں کے اطمینان کی شرح  سےآگاہ کردے گی۔ مشرق وسطیٰ کی بازاروں کے بالکل برعکس جہاں فوری ’’سمجھوتہ‘‘ کسی طویل مدتی  اعتماد یا ساکھ کے بارے میں فکرمندی پر فتح پاتا تھا، اب اس کے برعکس زیادہ سے زیادہ  درست ہوجاتا ہے۔  کم ہی تجار ایسے ہونگے جو اس اعتماد سے بچ سکتے ہیں جو وہ پیدا کرتےیا  بگاڑتے ہیں۔ یہ برانڈ اکوئٹی(brand equity) جودرحقیقت یہ اندازہ لگاتا ہے کہ کس خاص برانڈ کوکتنا عوامی اعتمادحاصل ہے اب کسی بھی کمپنی کا اہم ترین سرمایا فراہم کرتا ہے۔

اس قسم کی مثال ٹویوٹا پیداواری سسٹم کی ہے، یا جو اب ’’لین مینوفیکچرنگ‘‘(lean manufacturing)کے طور پر جانا جاتا ہے اور پورے سپلائی چین میں طویل مد تی اور پیچیدہ طور پر قریبی تعلقات کے قیام پر تعمیر کرتا ہے۔   اس عالمی معیار کی مینوفیکچرنگ ماڈل میں فراہم کندہ آنے والے سامان اور پرزہ جات کی ایک مسلسل اور بر وقت بہاؤ کو فراہم کرنے کی خاطر اپنے مینوفیکچرنگ پلانٹوں کو اپنے خریداروں کے پلانٹ کے بالکل قریب تعمیر کروانے پر بہت بڑی رقم لگا تے ہیں۔  وہ آپس میں انجینرنگ  وسائل (engineering resources)بھی آپس میں مل جل کر استعمال کرتے ہیں، مل جل کر پرزہ جات کی ترقی میں وقت لگاتے ہیں اور  ایک ہی خاندان کی طرح کام کرتے ہیں۔ تنہا کوئی قانونی معاہدہ اس عمل کو کارگر بنانے کے لئے درکار قریبی رابطوں اور تعلقات کی ضمانت نہیں دے سکتا  اس کی بجائے سپلائی چین ،خریدار اور فراہم کنندہ  بتدریج ایک طویل مد تی شادی میں ڈھل چکا ہے جو صرف اعتماد پر قائم رہتی ہے۔

فرانسس فوکو یا ما کی ایک حالیہ کتاب، “Trust: The Social Virtue and The Creation of Prosperity” اعتماد: سماجی خوبی اور خوشحالی کی پیدائش‘‘، ایک خوب سوچی سمجھی بحث پیش کرتی ہے کہ:

۔۔۔اہم ترین اسباق میں سے ایک جو ہم اقتصادی زندگی کے ایک جائزے سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک قوم کی بہبود اور مقابلہ کرنے کی اہلیت ایک واحد ، ہمہ گیر ثقافت سے مشروط ہے: یعنی معاشرے میں موجود اعتماد کی سطح۔ [صفحہ 7]

فوکو یاما  انفرادی خوبیوں کے بارے میں ایک تفصیلی بحث کرتا ہے یا یوں کہیے کہ شائستہ اشتراک کی جانب رغبت جسے وہ طبعی ملنساری کہتا ہے:

طبعی ملنساری اقتصادی زندگی کے لئے انتہائی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ در حقیقت اقتصادی سرگرمیاں افراد کی بجائے گروپوں  کے ذریعہ کی جاتی ہیں۔ اس سے قبل کہ دولت پیدا کی جا سکے،   انسانوں کو ساتھ مل کر کام کرنا سیکھنا ہوتا ہے، اور اگر اس کے نتیجے میں پیشرفت ہونا ہے تو نئی اقسام کی تنظیمیں سامنے لانی ہی ہوں گی۔[ ایضاً، صفحہ 47]

ترجمہ: شمشیر علی

اس مضمون میں جو آرا اور نظریات ظاہر کئے گئے ہیں وہ صرف مصنف کے اپنے ہیں اور لازماً افکار تازہ یا کسی دوسرے بہائی ادارے کی رائے کو منعکس نہیں کرتے۔
تحریر:لورنس ایم میلرس جو گزشتہ چالیس برسوں سے کارپوریٹ کلچر اور لیڈرشپ پر مشاورت کرتے رہے ہیں اوراعلیٰ کاردگی والی ٹیمیں اور تنظیمیں پیدا کرتے رہے ہیں۔ آپ دس کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ’’اسپریچوئل انٹپرائز:بلڈنگ یور بزنس ان دی اسپرٹ آف سروس‘‘ شامل ہے۔ ان کا ویب سائیٹ بلاگ www.managementmeditations.com ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *