حقیقی جدیدیت

تمام مخلوق چیزیں اپنے بلوغ کا ایک درجہ یا مرحلہ رکھتی ہیں۔ کسی درخت کی زندگی میں بلوغ کا دور اس کے پھل دینے کا وقت ہے۔ ایک پودا کا بلوغ اس پر کلیاں نکلنے اور پھول دینے کا وقت ہے۔ حیوان ایک پوری بالیدگی اورتکمیل کے درجہ پر پہنچتے ہیں اورعالم انسانی میں آدمی اس وقت بلوغ کوپہنچتا ہے جب ذہانت کی روشنیاں اپنی  سب سے بڑی قوت اورترقی  کا مالک ہوتی  ہیں۔

اپنی زندگی کے آغازسے انجام تک آدمی کئی ادواریا مراحل سے گزرتا ہے جن میں سے ہرایک کی پہچان اس کے اپنے بعض مخصوص حالات سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر  بچپن کے زمانے میں اس کے حالات اورضروریات اسی درجہ کی ذہانت اورصلاحیت کی خاصیت ہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ نوجوانی کے دورمیں داخل ہوتا ہے جس میں اس کے سابقہ حالات اورضروریات نئی ضروریات سے دبا دی جاتی ہیں جو اس کے اس درجہ میں ترقی کے لئے موزوں ہیں۔ اس کے مشاہدہ کی قابلیتیں وسیع وعمیق کی جاتی ہیں، اس کی ذہانت کی صلاحیتیں تربیت یافتہ اور بیدار کی جاتی ہیں، بچپن کے حدود اور ماحول اب مزید اس کی توانائیوں اورکامیابیوں کو محدود نہیں کرسکتے۔ آخرمیں وہ نوجوانی کے دورسے باہر نکل جاتا ہے اور بلو غ کے مرحلہ یا مقام میں داخل ہوتا ہے جو اُس کے کاروبار حیات کے دائرے میں ایک اور کایا پلٹ اوراسی کےمطابق پیشرفت کولازم کر دیتا ہے۔ نئی قوتیں اورادراکات اُسے ڈھانپ لیتی ہیں، اس کی بالیدگی کے مطابق تعلیم وتربیت اس کے ذہن رہتی ہیں، اس کی بڑھی ہوئی صلاحیتوں کی مناسبت سے خاص نعمتیں اور عطائیں نازل ہوتی ہیں اوراس کی نوجوانی کا سابقہ دوراوراس کے حالات اب اس کے بالغ نظریہ اورتصورکو مزید مطمئن نہیں کریں گے۔

اسی طرح اجتماعی طور پرعالم انسانی کی زندگی میں ادواراورمراحل ہوتے ہیں جو ایک وقت میں اپنے بچپن کے درجہ سے گزررہی تھی، ایک اوروقت میں اپنی نوجوانی کے زمانہ سے لیکن اب یہ اپنے دیرینہ موعود دورِبلوغ میں داخل ہو چکی ہے، جس کے شواہد ہر جگہ ظاہروآشکارہیں۔ لہذا سابقہ ادوارکی ضروریات اورحالات تبدیل ہوچکے ہیں اوراُن اہم ضروریات میں ضم ہو گئے ہیں جو واضح طورپرعالم نوع بشرکے موجودہ دورکی خصوصیات ہیں۔ نسل انسانی کی ابتدائی تاریخ کی انسانی ضرورتوں پرجو کچھ قابل اطلاق تھا اب اِس دن اورجدت وتکمیل کے اس دور کے تقاضوں کو وہ نہ تو پورا کرسکتے ہیں اور نہ ہی مطمئن۔ انسانیت اپنے سابقہ محدود درجہ اورابتدائی تربیت سے باہر نکل چکی ہے۔ لازم ہے کہ آدمی  کو اَب نئے فضائل اور قوتوں، نئے اخلاقیات  اور نئی صلاحیتوں سے پُر کیا جائے۔ نئی عنایات ، بخشش ، اورتکمیل اس کا انتظار کر رہی ہیں اوراس پر پہلے سے نازل ہورہی ہیں۔ نوجوانی کے دور کے عطیات اور نعمتیں اگرچہ عالم نوع بشر کے دور شباب کے دوران بر وقت اور کافی تھے لیکن اب بلوغ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ شیر خوارگی اور بچپن کے کھلو نے اب بالغ ذہن کو مزید مطمئن یا متوجہ نہیں کرسکتے۔

(حضرت عبدالبہاء، کتاب ’’فاؤنڈیشن آف ور لڈ یونٹی‘‘، صفحہ ۹۔۱۰)

∞∞∞∞∞∞

اس مضمون میں ظاہر کردہ خیالات و نظریات اس کے مصنف کے ذاتی خیالات و نظریات ہیں اور ان سے افکار تازہ یا کسی بہا ئی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
تحریر: بہائی تحریریں

امربہائی کے مقدس صحیفوں سے حضرت بہاء اللہ، حضرت باب، حضرت عبدالبہاء کی تحریریں۔ مقرر شدہ ولی امراللہ اور مفسر کی حیثیت سے حضرت شوقی آفندی نے صحائف کی جو تفسیریں کیں۔ ۱۹۶۳ء کے بعد سے ایک ایسے ادارے کے طور پر، جسے حضرت بہاء اللہ نے اپنے قوانین اور اصولوں کے اطلاق کےلئےقانون سازی کرنے کے لئےقائم کیا تھا، بیت العدل اعظم اُن سوالوں کے بارے میں جو توضیحات فراہم کرتےہیں جنہیں حضرت بہاء اللہ نے ان کی توجہ کے لئے چھوڑ دئیے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *