یاران! ہم آپ کے ساتھ ہیں

اگرآپ سوشل میڈیا پر فعال ہیں توآپ نے اپنے کسی نہ کسی دوست کے صفحہ پرکسی نہ کسی بولی میں اس نعرے کی گونج ضرورسنی ہوگی ’’یاران ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔ میرے گھرمیں جب ایک سماجی اجتماع میں ’’یاران‘‘ کے لئے دعائیں پڑھی گئیں تو میری نواسیوں نے پوچھا ’’یہ یاران کون ہیں؟ انہیں کیوں قید میں رکھاگیاہے؟‘‘۔ اس سے مجھے احساس ہواکہ  دنیا کو چیخ چیخ کے یہ بتا نا کتنا ضروری ہے کہ یہ ’’یاران‘‘ (لغوی معنی دوست) آخر ہیں کون؟ انہیں  ایران میں آخر کیوں قیدوبند میں رکھا گیا ہے ؟ دنیا  میں چاروں طرف دیہاتوں کی کچی جھونپڑیوں سے لیکرقانون ساز اداروں، سول سوسائٹی کے مباحث اور بلند و بالا ایوانوں تک یہ صدا کیوں گونج رہی ہے: ’’یاران! ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘؟

پس منظر

اقوام متحدہ میں بہائی سماج کی نمائندگی کرنے والی تنظیم بہائی انٹرنیشل کمیونٹی کے مطابق:

’’ایران میں۱۹۷۹ کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایک حکومتی پالیسی کے تحت بہائیوں کومنظم اندازمیں ستایا جارہاہے۔ اس ایزارسانی کی پہلی دہائی کے دوران ۲۰۰سے زیادہ بہائیوں کو قتل کیاگیا یاسزائے موت   دے دی گئی۔دیگر سیکڑوں کوٹارچرکیا گیا یاقید کردیاگیا۔ اورہزارہا بہائی ملازمت، تعلیم تک رسائی، اور دیگر حقوق سے محروم کردئے گئےاور یہ سب کچھ صرف اورصرف ان کے دینی عقائد کی وجہ سے کیا گیا۔

گزشتہ دہائی میں ملک کی اس سب سے بڑی غیر مسلم اقلیت پر حکومتی قیادت میں حملوں میں پھرسے شدت آگئی۔ سن ۲۰۰۵سے ۷۰۰سے زیادہ بہائی گرفتار کئے گئے اورقیدمیں موجود بہائیوں کی تعداد جوپہلے پانچ سے بھی کم تھی بڑھ کر ۱۱۵سے زیادہ تک پہنچ گئی۔۔۔۔‘(bic media)

اگرچہ بقول بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی: ’’چھاپوں، گرفتاریوں، حراست یا قیدوبند آج ایران کے بہائیوں کو درپیش مستقل خطرات میں شامل ہیں‘‘ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔

’’ دیگرایزارسانیوں میں معاشی اور تعلیمی امتیاز، اکٹھے ہونے اورعبادت کے حق پرسخت  پابندیاں، اورسرکاری اخباری میڈیا میں بہائی مخالف پراپیگنڈا کوپھیلانا(یہاں لنک)شامل ہیں۔ بہائیوں اور بہائیوں کی جائیدادوں پر حملہ بغیر کسی پوچھ کچھ اورسزا کے جاری ہیں جس سے حملہ آوروں کی بریت(impunity) کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔  مثال کے طورپر۲۰۱۵ سے بہائی جائیدادوں کوآگ لگانے کے کم ازکم ۴۹واقعات ہوئے ہیں  لیکن اس جرم کے لئے ایک فرد کو UN officialبھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ اسی دوران بہائی قبرستانوں پرغارتگری کے ۴۲واقعات رکارڈ کئے گئے۔ جیساکہ ایک چوٹی کے یواین(UN) انسانی حقوق کے افسرنے نوٹ کیا ہے حکومتی سرپرستی میں جاری ایزارسانیوں کا دائرہ ’’ریاستی سرگرمی کے تمام میدانوں میں، فیملی لازکے قواعد،اسکولنگ، تعلیم، اورتحفظ تک‘‘ (بیرونی لنک) پھیلاہواہے‘‘۔ باالفاظ دیگر: ’’ایرانی بہائیوں پر ظلم وستم ازمہد تا لحد(پالنے سے قبرتک) پھیلا ہواہے۔‘‘

یاد رہے کہ  ۱۹۸۰  میں ایران کے بہائیوں کی ملی گورننگ کونسل(جو’محفل روحانی ملی‘ کہلاتی ہے اور  ملک میں بہائی سماج کے مفادات کی نگرانی کرتی ہے) کے سب اراکین اغواکر لئے گئے تھے۔ اس کے بعدسے آج تک ان کی کوئی خبرنہیں۔ ان کے جانشینوں کو۱۹۸۱ میں گرفتار کرکے سزائےموت دے دی گئی تھی۔ اوراس  کے بعد ’’تیسری‘‘  محفل روحانی ملی کے نومیں سےچارارکان کوحکومت نے ۱۹۸۴ میں سزائے موت دی تھی۔اور پھر تمام منتخب بہائی اداروں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

’یاران‘ سات ارکان پر مشتمل ایران کے ایک سابقہ لیڈرشپ گروپ کا نام ہے جو ایران میں بہائی سماج کی خدمت میں مصروف تھا۔  وہ بھی اُن ۱۱۵ سے زیادہ افراد میں شامل ہیں جو اس وقت بھی ایران میں مختلف جھوٹے الزامات کے تحت قیدہیں۔ ان میں عوتیں اور مرد دونوں شامل ہیں۔ ان  یاران کی عمریں ۴۲سال سے ۸۱سال کے درمیان ہیں اوروہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں قدرمشترک یہ ہے کہ وہ بہائی ہیں اور ملک میں بہائیوں کی خبرگیری کیا کرتے تھے۔ جبکہ ان یاران میں سے چھ کو۱۸مئی ۲۰۰۸کوطہران میں ان کے گھروں سے گرفتارکیا گیا تھا ایک  مسزمہوش ثابت کو۵ مارچ ۲۰۰۸ کومشہد سے حراست میں لیا گیاتھا۔ اگرچہ آپ طہران میں رہائش پذیر تھیں لیکن آپ کووزارت سراغرسانی نے مشہد میں مذاکرات کا بہانہ بنا کرطلب کیاتھا جہاں مبینہ طورپر لوگوں نے ایک بہائی کو دفنانے  کی مخالفت کی تھی۔ گرفتاری کے بعد ایک سال تک ان بہائی لیڈروں کو ان کے جرم سے آگاہ تک نہیں کیا گیا اور ایک سال بعدایک معتصب عدالت نے بے بنیاد اور بغیرکسی ثبوت کے جھوٹے الزامات   پر  ان کی شنوائی شروع کی تواس کے آغازسے ہی بالکل واضح تھا کہ وہ انصاف کے کسی معیار کو بھی ملحوظ رکھنے کے موڈمیں نہیں ہیں اور بڑی ناانصافی سے یاران کو بیس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ یہ ایران میں اب تک سنائی جانے والی سب سے زیادہ طویل مدت قیدکی سزاہے۔ یاران کے سات میں سے ۵ ارکان کو گوہردشت جیل میں رکھا گیا ہے جبکہ ۲کوطہران کے ایون جیل میں۔ یاران کے وکلا کوطرح طرح سے ہراساں کیاگیا جن میں  نوبل  انعام یافتہ شیرین آبادی بھی شامل تھیں۔

ان سات بہائی لیڈروں کی گرفتاری کےساتویں سال کے موقع پر اس مہینے ان کی طویل اورغیر منصفانہ اسیری کی طرف توجہ مبذول کرانے کی خاطرچلائی گئی ایک عالمگیر مہم کے دوران دنیا بھرسے ایک فریاد کی بازگشت سنی گئی۔

۲۶ مئی ۲۰۱۵کونیویارک سے بہائی ورلڈ نیوزسروس نے خبر جاری کیا ہے کہ:

’’گاؤں کے سادہ اوطاقوں سے لیکرحکومتی ایوانوں تک افراد اور گروپس نے ان سات نفوس کی دیگر۱۱۰بہائیوں کے ساتھ جنہیں اپنے دینی عقائد کی وجہ سے قید کیا گیاہے اورایران میں دوسرے ضمیر کے قیدیوں کی غیر منصفانہ اسیری کی بھی مذمت میں اپنی آوازیں بلند کیں۔

بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی کےاقوام متحدہ دفتر نے اس مہم کی رابطہ کاری کی ۔اس کے نمائندۂ خصوصی بانی ڈوگل ( Bani Dugal)نے کہاہے: ’’دنیابھرمیں مختلف پس منظراورتجربات کے حامل لوگ جس فراست اورتہہ دل سے ایران میں ظالمانہ طورپراسیرسات بہائی لیڈروں کی حمایت میں اکٹھے ہوئے اسے دیکھ کرہم بہت متاثر ہوئے۔ ‘‘

’’ایرانی بہائی شہریوں کوحکومتی پالیسی کے نتیجے میں جس بڑے پیمانے پرناانصافیوں کا سامناکرناپڑرہا ہے اسےہرجگہ کے لوگ جس حد تک سمجھتے ہیں اس کا اظہاراس مہم کے ذریعے ہوا۔ اُن کی حمایت کوہم نہ صرف رسمی بیانات میں دیکھ سکتے ہیں جو اس مہم کے دوران دیئے گئے بلکہ ان گیتوں، نظموں، ذاتی کہانیوں اور یکجہتی کے دیگراظہارات میں بھی دیکھ سکتے ہیں جواس نے  پیدا کیا ہے ۔   بہائیوں کودرپیش مصائب کی جھلک ایران میں دوسری مذہبی اقلیتوں اور آزادخیال لوگوں کی مشکلات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ بہائی سماج کے حالات میں ایک بہتری تمام شہریوں کے لئے  انسانی  حقوق کے عظیم تراحترام کی علامت ہوگی۔‘‘ بانی ڈوگل نے کہا۔

اس مہم کاتصور تھا ’’سات بہائی لیڈروں کے سات سال قیدکی یادمیں سات دن۔‘‘

۱۴مئی ۲۰۱۵سے شروع ہونے والی سات روزہ مہم کے ہر دن کوان ساتوں میں سے ایک کے نام وقف کیا گیا تھا: مہوش ثابت، فریبا کمال آبادی، جمال الدین خانجانی، عفیف نعیمی، سعید رِضائی، بہروز توکلی، اور وحید تیزفہم۔

اس مہم کی وجہ سے نیوزمیڈیا میں متعدد مضامین کی اشاعت ہوئی، اعلیٰ سرکاری افسرون، پارلیمانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے حمایت میں بیانات جاری کئے گئے، اورافراد اور گروپوں نے دنیابھرمیں ان ساتوں کے احترام میں اگرہزاروں نہیں تو سینکڑوں تقریبات اوراجتماعات منعقدکئے۔

اسیربہائی لیڈروں کے ساتھ ہمدردی اوراتحاد کے متاثرکن مظاہروں میں ان ساتوں کے عزیزواقارب اوردوستوں نے متعدد ذاتی واقعات اوریادیں پوسٹ کئے۔ سعید رِضائی کی بھانجی، پونِہ حیدریِہ، نے اپنے ماموں کے احترام میں ایک دیڈیورکارڈ کروایا۔ فریبا کمال آبادی اور بہروز توکلی کے رشتہ داروں نے بھی ویڈیوانٹرویوز رکارڈ کرائے جو وسیع پیمانے پر تقسیم کئے گئے۔ ایران وائر(ٰIranwire) پرمفصل مضمون میں ان سات کے رشتہ داروں کا بہت زیادہ حوالہ دیاگیا۔

سوشل میڈیا پر یہ مہم سب سے زیادہ دیکھتی جاسکتی تھی جو #7Bahais#7yearکا ہیش ٹیگ استعمال کرتی تھیں۔ فیس بُک پردو ایونٹ پیجزنےاس مہم کے لئے ایک مرکزی نقطہ کا کردارادار کیا۔ یہ پیجزانگریزی اور فارسی زبانوں میں تھے۔

بانی ڈوگل کے مطابق: ’’اس عالمگیرمہم کے بارے میں جوچیزسب سے زیادہ حوصلہ افزا تھی وہ یہ ہے کہ اس نے ایک متحرک سوشل میڈیا کمیونٹی کے ذریعہ سات اسیربہائیوں کو جن ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے اسے نمایاں کیاگیا۔ ہم نے فیس بُک، انسٹاگرام اور ٹیوٹرپر تقریباً ہر براعظم سے شائع کردہ پیغامات، ویڈیوزاورتصاویر دیکھے ہیں جوتخلیقی اظہارکے ایک وسیع تنوع کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘

مثلاً جرمنی اورآسٹریا میں جوان لوگوں نے جو محلّوں میں پروسیسز اورپروجیکٹس کے ذریعے انسانیت کی خدمت کے بارے میں مشورت اورمنصوبہ سازی کے غرض سے پہلے سے طے شدہ کانفرسوں میں مجتمع تھے انہوں نے اپناکچھ وقت اورموسیقی کے ذریعے دعاؤں کوان سات کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔

اسپین کے مقام ذراگوزہ میں ایک گروپ نے قیدیوں والا دھاری دارکپڑےپہنا اور صوبائی کونسل کی عمارت کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے ایران میں تمام ضمیرکے قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ لکھے ہوئے پوسٹڑز اٹھا رکھا تھا۔

اور انڈیا میں آسام کے ایک گاؤں باراما میں بچوں کے ایک گروپ نے ۲۰ مئی کوایک یتیم خانے میں ایک خصوصی دعاؤں کا جلسہ منظم کیا۔ تصویر دکھاتی ہے کہ بچوں نے یہ پوسٹر اٹھا رکھاہے  ’’یاران:  ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘ یہ وہ بار بار لگایا جانے والا نعرہ تھا جوویتنام سے برازیل تک، جنوبی افریقہ سے آسٹریلیاتک، دنیابھرمیں پوسٹروں اور بینروں  پرلکھا گیا تھا جہاں جوان اور بوڑھے سب لوگ ایران کے مظلوم بہائی شہریوں کی حمایت میں اس کہانی کو سنانے کے لئے،دعاومناجات پڑھنے کی خاطر، اورگیت گانے کے واسطے اکٹھے ہوئے تھے۔

دنیا بھر سے  اعلیٰ سرکاری عہدیداربھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ان اسیروں کی حمایت میں آوازیں بلند کیں:

  • براسلزمیں یورپین پارلیمنٹ کے پانچ ارکان نے ایک ویڈیوپیغام جاری کیا جس میں ان ساتوں کی اسیری کو’’ظالمانہ‘‘ اور’’ناقابل قبول‘‘ قرار دیا۔
  • برازیل میں نیشنل انسانی حقوق کی کمیٹی کے سابق صدر،فیڈرل ڈیپیوٹی لوئز کیوٹو(Luiz Couto) اور کم از کم دو اور فیڈرل ڈیپیوٹیزنے اس مہم کے لئے اپنی حمایت پیش کی۔
  • کینیڈا میں خارجہ امور کے وزیرروب نکلسن نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ان ساتوں کی مسلسل اسیری: ’’دینی آزادی کے لئے ایرانی حکومت کی واضح بے احترامی کی پریشان کن یاددہانی ہے ۔ ‘‘
  • جرمنی میں انسانی حقوق کمشنرکرسٹوف اسٹراسر نے ایک بیان جاری کیا جس میں ان ساتوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ان ساتوں زیرحراست لوگوں کوایک ایسی ٹرائل میں ۲۰ برس قید کی سزا سنائی گئی ہے جس میں ہر طرح کی شفافیت کافقدان تھا اورجوبنیادی قانونی اصولوں سے لاپروا تھی۔‘‘

دوسرے انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں نے بھی اپنی آوازیں بلند کیں:

  • ایک ایرانی قانون دان نسرین سوتودِہ کچھ وقت کے لئے سات میں سے کئی ارکان کے ساتھ قید میں رہیں تھیں۔ انہوں نے ایک ویڈیوپیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے ۲۰۱۰ میں ہونے والی ٹرائل کو ’’بالکل ہی غیر منصفانہ‘‘ کہا ہے اور ایرانی اتھارٹیز سےکہا ہے کہ وہ ’’انہیں آج ہی رہا کردیں۔‘‘
  • ایک ایرانی قانون دان مہناز پارکند جنہوں نے ۲۰۱۰ کی ٹرائل میں ان ساتوں کا دفاع کیا تھا اور بعد میں جنہیں ایران سے بھاگنے پر مجبور کردیا گیا تھا اس نے واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران کئی بار تقریریں کیں جن میں اس بات کی تشریح کی کہ ایران نے کس طرح ان سات کو ایک منصفانہ ٹرائل سے محروم رکھا۔
  • کرسچن سولیڈریٹی ورلڈوائڈ کے سینی ماریا ہئی کیلا نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے: ’’ اگرایران انسانی حقوق کی تشویشوں کے ازالے میں سنجیدہ ہے تو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت ایک اہم ترین پہلا قدم ہے۔‘‘
  • کونسل فارفورین ریلیشنز پرمطالعاتِ مشرق وسطیٰ کے ایک سینئر فیلو، ایلیٹ ابرامس ،نے ایک بلاگ پوسٹ میں کہا ہے کہ ایران نے بہائیوں کے ساتھ جو سفاکانہ برتاؤ   روا رکھا ہے وہ اس کی حکومت کی ’’حقیقی  نوعیت ‘‘ کونمایاں کرتا ہے۔ بقول مسٹرابرامس : ’’اسلامک رپبلک میں زندگی کے بارے میں حقیقت ان خوش اخلاق سفیروں سے ظاہرنہیں ہوتی جو یہ ملک سے باہربین الاقوامی مذاکرات کے لئے بھیجتا ہے بلکہ یہ تو اِن پُرامن اورکمزورشہریوں کی مشکلات سے ظاہرہوتی ہے۔‘‘

اداکاروں اورموسیقاروں نے بھی اس مہم میں اپنی آوازیں شامل کیں۔ برطانوی اداکار(مزاحیہ کردار) امید جلالی نے اسیربہائیوں کے لئےایک دیڈیو پیغام رکارڈ کرایا۔ ’’ ہم کہتے ہیں سات سال، سات بہائی، یعنی سات سال تو بہت زیادہ ہے‘‘۔ برطانیہ میں ہی اداکارہ فایونا ویڈ نے ایک ویڈیوپیغام میں اپنی حمایت پیش کی۔ ۲۰ مئی کو آئرش بینڈ ’بوئے زون‘ کے شین لینچ نے بہروز توکلی کی سپاس گزاری میں اپنا پیغام جاری کیا۔

نیوزی لینڈ کےموسیقار گرینڈ ہینڈِن ملراورسنبل طائفی نے اس موقع کے لئے ایک خاص میوزک ویڈیو تیار کیا اور امریکہ میں گلوکار شادی طلوعی ویلیس نے ایک خاص گیت ان سات کے لئے لکھا۔

محترمہ ڈوگل نے کہا کہ، ’’ ان سات بہائی لیڈروں کے لئے بین الاقوامی اظہارحمایت سے ہم خوش ہیں۔ دنیابھر میں انتہائی نچلی سطح پر، میڈیا میں، اور حکومتی افسران کے درمیان کی جانے والی انہی طرح کی کوششوں سے ان کی حالت کے بارے میں آگاہی بڑھے گی۔‘‘  انہوں نے امید ظاہر کی کہ ’’۔۔۔ان کی رہائی کے لئے یہ پکاریں اس بات کی ضمانت  پیش کریں  گی کہ سال ۲۰۱۶ میں اسیری کے آٹھویں سال پراس قسم کی کسی مہم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘

∞∞∞∞∞

سورس: بہائی انٹرنیشنل نیوز سروس اسٹوری ۱۰۵۶(ٰؓBINS

تحریر وترجمہ: شمشیر علی

اس مضمون میں ظاہرکردہ خیالات لکھاری کے ذاتی خیالات ہیں۔ ان سے ’افکار تازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *