رستم ابن رستم پیدا ہوا

posted in: خود نوشت | 0

میں ایک جھلّی میں لپٹا پیدا ہوا تھا۔  اس واقعہ کے سلسلہ میں میرے آئیرش نژاد والد صاحب کافی بڑہانکا کرتے تھے۔ ویسے میرے چچا ڈفّی اس بارے میں زیادہ فصاحت سے فرمایا کرتے تھے کہ ’’یسوع، مریم اورجہنم کے تمام فرشتوں کی قسم! لمڈا پُڑیا میں لپٹا آیا ہے۔‘‘  دائی نے سب سے پہلے والد صاحب کو خبر دی کہ ان کے یہاں ایک لپٹا لپٹایا جینیس پیداہوا ہے۔  والد صاحب نے پہلی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ کوئی بات نہیں۔ یہ کہوکہ ہمارے یہاں لڑکا جینیس پیدا ہواہے یا لڑکی جینیس؟‘‘  دائی نے جواب دیا ،’’صحتمند و توانا لڑکا جس پر خداوند کی نظرہے۔‘‘  خدا کی نظر مجھ پرہو یا نہ ہو لیکن میرے والد نے مجھے سینٹ پطرس کی تہوار کے دن پیدا ہونے کی بجائے اس متبرک یوم کے چند دن ادھر ادھر ہونے پر کبھی معاف نہیں کیا۔  میری پیدائش 28 مارچ 1911 میں مینی سوٹا کے شہر ڈولتھ میں ہوئی تھی۔  ویسے بطور خبر میری پیدائش ایسا کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں تھاخصوصاًاس طوفان کے مقابلہ میں جو میری یوم پیدائش پر آیا تھا جس میں گالف کی گیندوں کے برابر اولے پڑے تھے۔

میرے والد کارک کاؤنٹی، آئرلینڈ کے تارک واطن تھے، سنیچر کی رات وہ اور ان کے دو دوسرے آئرش دوست یعنی  ہمارے علاقہ کی کل آئرش آبادی ایک مقامی شراب خانہ میں مل بیٹھتی اور ایک مختصر سا گانا بار بار دہراتی:

مک گنٹی گزر گیا اور میکارتھی کو خبر نہیں

میکارتھی چل بسا، میک گنٹی کو خبر نہیں

دونوں ایک ہی کھٹیا میں مرے پڑےہیں

اور کسی کو کسی کی کوئی خبر نہیں

اس کے بعد وہ بے تحا شہ ہنسنے لگتے اور یہی چار مصرعے دہرانے لگتے،لیکن اس دفعہ ایک دوسرے مے خانہ میں۔

 میری فرنچ،ہسپانوی، جرمن، ویلش، انگریز اور سکاچ نژاد ماں کو جب بھی والد پر غصّہ آتا ،جو کہ روزہی آتا تھا، تو وہ فرماتیں ‘سینٹ پطرس سے بڑی غلطی ہوگئی۔ انھیں چاہئے تھا کہ سانپوں کو معاف کردیتے اور آئرشوں کو باغ عدن سے نکال باہر کرتے۔‘

 میری پیدائش کے ایک ہفتہ میں ہی والد صاحب نے تمام محلّہ میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ بس اب ہماری تقدیربدلا ہی چاہتی ہے، یہ سب میرے بیٹے کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپ کوپتہ ہے میرا بیٹا مٹر کی طرح چھلکے میں لپٹا پیدا ہوا ہے جو کہ  ایک آسمانی نشانی ہے۔ بس اب یہ وقت کی بات ہے کہ ہم امیر ہوئے۔

ماں جھلّا کر کہہ تیں، ’’چھوڑو یہ سب لن ترانیاں، میں تمہارے پورے خاندان کو جانتی ہوں، تم لوگوں کی تمام دولت بھی اگر اکھٹی کی جائے تو بھی وہ میری جوتی کی ایڑھی میں سما جائے گی۔‘‘

والد انتہائی متانت سے جواب دیتے،’’صبر کرو،ایمان کیوں گنواتی ہو، ننھے کو بس بولنا سیکھ لینے دو پھر دیکھنا یہ بچہ خودہی تمہیں سب کچھ سمجھا دے گا۔‘‘

میں نے دس ماہ کی عمر میں چلنا اور فقط چھ ماہ کی عمر میں بولنا شروع کر دیا تھا۔  اس بولنے نے ہی والد صاحب کی سٹّی گم کردی تھی کیونکہ پھلا لفظ جو میری زبان سے ادا ہوا وہ متوقعہ ‘ابّا’ نھیں بلکہ ُاللہ ’ تھا۔

’’یہ لڑکا آسیب زدہ ہے، اس نے یہ لفظ آخر سیکھا کہاں سے؟‘‘  انہوں نے پریشان ہو کر پوچھاتھا۔

’’ایسا مہذب لفظ وہ تم سے تو نہیں سیکھ سکتا‘‘، یہ تھا ماں کا سیدھا جواب۔

’’خدا جانے یہ کوئی قسم کھا رہاہے یا پھرپیشن گوئی کر رہا ہے؟خیر جو بھی ہو، مجھے تو یہ جنّاتی لگتاہے۔‘‘

جس وقت میری عمر ڈیڑھ برس ہوئی ہوگی اس وقت میں نے کئی ایسے الفاظ سیکھ لئے تھے جو میرےوالد کے ذخیرہ الفاظ  میں موجود نہیں تھے۔ اس صورتحال نے انہیں خوفزدہ کر دیاتھا۔  یہی وہ وقت تھا جب میں نے وہ خواب پہلی مرتبہ دیکھاتھا۔  میں نے ماں سے اس کا ذکر کیا تھااور انہوں نے والد سے۔

  والد صاحب منجھےفوراً ڈاکٹر کے پاس لے جانے پر مصر تھے، پر ماں نے سمجھایا کہ ایسی کوئی بات نہیں بس بچہ ذرا حساس ہے۔

’’حساس؟ یہ بچہ مافوق الفطرت ہے، اسے قبول کرنا ہی ایک غلطی تھی ،خیر اب تو دیر ہو چکی ہے۔‘‘

 ماں نے یہ ساری تفصیلات مجھے برسوں بعد بتلائیں،  اس خواب کے بارے میں خود مجھے جو کچھ یاد ہے وہ اس طرح ہے کہ کمرہ ایک تیز دل لبھانے والی روشنی سے بھر گیا تھا اور میں بہت خوش تھا اور اسی جگہ رہنا چاہتاتھا۔

ماں کہتی ہیں کہ انہیں میرے اسں خواب کا دن اچھی طرح یاد ہے ۔اسی دن والد کئی دنوں کی انتہائی نازک علالت کے بعد اپنے کمرے سے نکلے تھے ۔وہ باسی کھانا کھانے کے باعث زہر خوردنی کا شکار ہو گئے تھے۔ اس علالت کے دوران تین دن تک ان کی حالت ایسی تھی کہ انھیں اپنی موت کا یقین ہو گیا تھا۔  اس حالت میں انہوں نے ماں کے سامنے اعتراف کیا کہ دس سال قبل ان کی شادی کے فوراًبعدہی وہ ایک دوسری لڑکی کے ساتھ رقص گاہ گئے تھے۔  وہ یہ احساس گناہ لے کر مرنا نہیں چاہتے تھے۔  لیکن بدقسمتی ان کی وہ صحتیاب ہوگئے۔  ویسے جب وہ اپنے کمرے سے باہر نکلے تو بالکل ہشاش بشاش تھے ۔ انہوں نے ماں کو گلے لگایا اور شرارتاًان کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا منجھے یقین ہے کہ میں نے بخار کی حالت میں جوہذیان بکا ہے اس پر تم نے کوئی توجہ نہیں دی ہوگی۔  ماں نے بھی جواباًانتہائی رُکھائی سے ایک قہقہہ لگاتےہوئے کہاتھا،’’ ارے نہیں فرینک، یہ بھی کوئی یاد رکھنے جیسی بات ہے، یہ تو میں چند برسوں میں ہی بھول جاؤں گی۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ میری والدہ کو میرے خواب کا سن و تاریخ انتہائی یقینی طور پر یاد رہا۔  یہ عورتیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔  تو یہ ستمبر کی 20 تاریخ تھی اور سال تھا 1912 جب میں نےپہلی بار وہ خواب دیکھاتھا۔

میری عمر پانچ برس ہوتے ہوتے میرے والد اپنی جان سے بیزار ہوچکے تھے۔  ایسا لگتا تھا کہ مجھے خدا سے ایک بیجا لگاؤہے، اور والد صاحب اس مسئلہ پر مجھ سے گفتگو کرنے سے کتراتے تھے۔  ایک دن وہ مجھے سرکس دکھانے لے گئے۔  جب گھڑ سواروں کا گھوڑوں کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر آگ کے گولوں سےگزرنے کا کھیل آیا تو میں نے والد صاحب کی طرف پلٹ کر اچانک دریافت کیا:’’ابو کیا جہنم میں ایساہی ہوگا؟ ‘‘

وہ اچھل پڑے اور گھبراہٹ میں اپنا سیگارہی آدھا نگل گئے۔  حواس ٹھکانے لگے تو گرج کر بولے:’’مجھ سےکیا پوچھتے ہو،میں نے تو اپنی ساری زندگی مینی سوٹا میں گزاری ہے۔‘‘

 اب چونکہ زمان و مکان کا موضوع انہوں نے ہی چھیڑا تھا لہٰذا میں نے پوچھنا مناسب سمجھا،’’ ابو! خدا کہاں رہتا ہے؟ وہ کتنا بڑا ہے؟ اس کی آنکھیں بھوری ہیں کیا؟‘‘

اس کے بعدہم سرکس سے فوراً  ہی باہر آگئے تھے۔  والد صاحب نے باہر ایک دکان سے مجھے ربر کی ایک گیند خرید کر دیتےہوئے کہاتھا،’’لو، یہ گیند کھیلو، دوسرے بچوں کی طرح بنو! گیند زمین پر پٹخو!‘‘

میں نے انتہائی فرمانبرداری سے حکم کی تعمیل کی پھر اتنے ہی فخریہ انداز میں مُنہ اٹھاکر ان کی طرف دیکھااورانھیں مطلع کیا:

’’یہ زمین خدا نے بنائی ہے!‘‘

انہوں نے شکست خوردگی کے عالم میں اپنے ہاتھ اوپر کی جانب اٹھا دئے اور مجھے لے کر سیدھے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔

ماں کے بیان کے مطابق ایک ماہ بعد میں نے وہ خواب دوسری بار دیکھا۔ والد کے کام سے گھر آنے تک میں نے اپنا مُنہ بندہی رکھا، شام کو وہ اور میں مل کر کھیل رہے تھے۔ وہ گھوڑا تھے اور میں سوار۔

 میں نے کہا،’’ وہ شخص پھر آیاتھا۔‘‘

’’کون!؟‘‘

’’وہی شخص۔‘‘

’’وہی کون؟‘‘

’’وہی روشنی والا۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’دو بارہ میرے خواب میں۔‘‘

انہوں نے منزل سے کہیں پہلے ہی مجھے سواری سے اتار دیا اور ہانک لگائی،’’ایتھل! اس نے پھر وہی کھیل شروع کردیا ہے!!‘‘

ماں دوڑتی ہوئی آئیں اور پوچھنے لگیں:’’کیاہوا؟ کیا ہوا‘‘

والد اس دوران باہر جانے کے لئے کوٹ چڑھا رہے تھے۔

’’اس نے وہ نورانی آدمی پھر دیکھا ہے خواب میں!‘‘

ماں نے بہت پیار سے مجھے گود میں لے لیا اور مجھے پیار کرتے ہوئے کہنے لگیں،  ’’دیکھا ہے تو کیا ہوا؟ ہم سبھی تو ڈراؤنے خواب دیکھتے ہیں۔‘‘

’’مگر میرا خواب تو بہت پیارا تھا ماں!‘‘

’’وہ شخص کیساتھا؟‘‘  انہوں نے پوچھا۔

پتہ نہیں۔

اس نے تم سے کیا کہا؟

ان کے نقش قدم پر مت چلنا۔

گھبراہٹ کے مارے ماں نے مجھے گود سے گراہی دیا تھا۔ابّا دروازے سے پلٹ کر بولے:’’خدا کا شکر ہے کہ میں زمین دوز کان میں کام کرتاہوں اور غروب آفتاب سے پہلے میری واپسی نہیں ہوتی۔‘‘

دوسری صبح جب وہ شیو بنارہے تھے اس وقت میں غسل خانے میں داخل ہوا اور ان سے دریافت کیا:

’’میرا نام کیا ہے؟‘‘

اس طرح کا کھیل ہم پہلے بھی کھیل چکے تھے چنانچہ انہوں نے اطمینان سے جواب دیا:’’تمہارا نام ولیم ہے۔‘‘

’’تب اس نے مجھے پطرس کیوں کہا؟‘‘

’’کس نے؟‘‘

’’رات کو خواب میں اس شخص نے۔‘‘

ابا کا ہاتھ پھسل گیا اور تھوڑی لہو لہان ہوگئی۔ ساتھ ہی سارا گھر اُن کی پکار سے گونج اٹھا:   ’’ایتھل!‘‘

ماں اسی وقت وہاں حاضر ہوگئیں، مگر ان معاملات میں وہ زیادہ ٹھنڈے دماغ کی مالکہ تھیں۔ انہوں نے چمکارتےہوئے پوچھا:’’اس نے تمہیں پطرس کہہ کر بلایا تھا؟‘‘

میں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا:’’ہاں اس نے کہا پطرس کی طرح مچھلیاں پکڑو۔‘‘

ابا اس دن ایک گال شیو کئے بغیرہی کام پرچلے گئے اور جاتے جاتے یہ حکم سناتے گئے کہ ان کی واپسی سے پہلےہی ماں مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔

’’یہ بچہ بوڑھوں کی طرح باتیں کرتاہے‘‘ وہ بولے’’یہ صورتحال تو غیرمعمولی ہے! اس بچہ کی موجودگی میں میں ایک بے چینی سی محسوس کرتا ہوں، میں کہے دیتا ہوں یہ لڑکا چھ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مرجائے گا۔‘‘

ماں روہانسی ہو گئیں، ان کے منہ سے صرف ایک لفظ نکلا۔۔’’فرینک!‘‘

لیکن ابا قطعاً مطمئن نہیں تھے اور پریشانی کے عالم میں حسب عادت شاعری فرمانے لگے:’’اگر مجھے ہوا بھی لگی ہوتی کہ مارچ کی اس طوفانی رات میں کیا آرہا ہے تو میں اسے دوبارہ پڑیا میں لپیٹ کر واپس بھیج دیتا۔‘‘

اس رات جب ابا گھر لوٹے تو انھوں نے ماں سےمل کر یہ فیصلہ کیا کہ بہتری اسی میں ہے کہ مجھے اتوارکے اتوار چرچ کے اسکول بھیجا جائے۔ لہٰذہ اسی ہفتہ سے میں نے اپنی بہن ایلا کے ساتھ چرچ کے ہفتہ وار اسکول جانا شروع کر دیا۔

’’چلو چھٹی ہوئی، اب یہ لڑکا فادر ہوگن کی نیندیں حرام کرے گا۔ بھئی میں بھی باقاعدگی سے چرچ کا چندہ ادا کرتاہوں لیکن اس کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتا۔ خیر اب فادر ہوگن کو اپنی روزی حلال کرنے کا موقعہ ملے گا۔‘‘یہ تھا میرے اسکول جانے پر ابا کا تبصرہ۔

اس سکول نے میرے لئے موضوعات کی ایک دنیا فراہم کردی اور ابا سے پوچھنے کے لئے وافر مقدار میں سوالات مہیا کردئے۔  میرا خیال ہے کہ میں لاشعوری طور پر اس بات سے آگاہ تھا کہ میں نے ابا کو بہت ہی خوفزدہ کردیا ہے۔ خاص طور پر اس دن جب وہ گیراج سے گاڑی نکال رہے تھے اور میں نے پکار کر کہاتھا:’’میرا خیال ہے کہ آپ کے ساتھ سامنے سیٹ پر خدا بیٹھا ہے۔‘‘  ابا نے گھبراہٹ کے مارے گاڑی صحن میں اُگےدرخت سے ٹکرادی۔  اس دن انھوں نے مجھے سزا کے طور پر جلد بستر پر بھیج دیا اور خود انھوں نے ماں کےپاس جا کر پناہ لی:’’ہمیں کچھ کرناہی پڑے گا، اس لڑکے کا ان معاملات میں دلچسپی لینا پریشان کن ہے۔‘‘

یہ سن کر بہن ایلا نےلقمہ دیا:’’اگر یہ پریشان کن ہے تو اگلےہفتہ کا انتظار کیجئے جب فادر ہوگن ہمیں خداوند باپ، خداوند یسوع مسیح اور روح القدس کے بارے میں بتائیں گے۔ تب تو وہ آپ کو چھٹی کا دودھ یاد دلادے گا۔‘‘

والد صاحب کے لئےاتنا ہی بہت تھا۔  انہوں نے اسی رات مجھے چرچ  اسکول سے چھٹی دلادی۔  یہ بھی بہتر ہی ہوا کیونکہ میرا اورکلیسا کا ٹکراؤ جلد ہی ہونے والا تھا۔   یہ وہی ہفتہ تھا جس میں میں نے مارگی کیلی سے وعدہ کیا تھا کہ میں چرچ پکنک میں سارس لاؤں گا۔

∞∞∞

(ویلیم سیئرز کی کتاب  ’’گاڈلوس لافٹر‘‘ کا پہلا باب۔ ترجمہ: محمود الحق، ڈھاکہ ، بنگلادیش)

اس سلسلے کااگلامضمون: سارس کہانی

مضمون میں ظاہر کردہ خیالات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں۔ ان سے افکار تازہ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *