سب قبیلے اورسارے دائرے مٹ جائیں گے
ایک ہی نوع بشر کا خانداں رہ جائے گا
قافلے شہروں میں اتریں گے دھنک کے ہر طرف
کھڑکیوں میں نور و نکہت کا سماں رہ جائے گا
جو جدائی کا کرے گا بات مٹ جائے گا وہ
جو ملائے گا دلوں کو وہ یہاں رہ جائے گا
میری آنکھیں دیکتی ہیں وہ زمانہ جب یہاں
بعد جسمانی مٹے گا قرب جاں رہ جائے گا
جنگ کیسی جنگ کی باتوں سے بھی بھاگیں گے لوگ
امن ہی انسانیت کا پاسباں رہ جائے گا
دست نام مرئی نے دھرتی کی طنابیں کھینچ لیں
فاصلہ قلبِ بشر میں اب کہاں رہ جائے گا
Leave a Reply