امر بہائی ایک عالمگیر دین ہے۔ اس کا مقصد تمام قوموں کو ایک مشترکہ دین میں متحد کرناہے۔ اس صفحہ پرنیچے ہم دین بہائی کی تحریروں سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جو اس دین کا ایک جامع تعارف پیش کرتا ہے:

’’امر بہائی خدا کی وحدانیت کا عَلَم بردار ہے، اُس کے مظاہر ظہور(پیغمبروں) کی وحدت کو تسلیم کرتا ہے اور نسل انسانی کی وحدت و جامعیت کے اصولوں کو ذہن نشیں کرواتا ہے۔ یہ نوع بشر کی وحدت کی ضرورت اور اس کے ضرور قائم ہو کر رہنے کا اعلان کرتا ہے۔ یہ وثوق کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ یہ مرحلہ بتدریج قریب آ رہا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اِس ’’دن‘‘ کے لئے خدا کے منتخب فرستادہ کے ذریعے روبہ کار تبدیلی لانے والی روح الہٰی سے کمتر کوئی چیز بھی بالآخر اسے قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ یہ اپنے ماننے والوں پر آزادی کے ساتھ تلاش حقیقت کا فرض عائد کرتا ہے۔ ہر قسم کے تعصب اور اوہام پرستی کی تردید کرتا ہے۔ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ دین کا مقصد دوستی و محبت کو فروغ دینا ہے اور یہ کہ (دین) لازمی طور پر سائنس کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور اس (دین) کو انسانی سماج میں قیامِ امن اور اس کے باقاعدہ فروغ کا اولین ذریعہ تسلیم کرتا ہے۔ یہ غیر مبہم اندازمیں حقوق، مواقع اور مراعات کے سلسلے میں عورت اور مرد کی مساوات کے اصولوں پر قائم ہے۔ جبری تعلیم پر اِصرار کرتا ہے۔ امارت و غربت کے انتہائی فرق کو مٹاتا ہے۔ دینی پیشوائیت کے ادارے کو ختم کرتا ہے۔ بردہ فروشی، رہبانیت، گداگری اور خانقاہیت کو حرام قرار دیتا ہے۔ ایک شادی کی اجازت دیتا ہے، طلاق کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، اپنی حکومت سے مکمل وفا داری کی لازمیت پر زور دیتا ہے۔ خدمت کے جذبے سے کئے گئے ہر کام کو عبادت کا درجہ عطا کرتا ہے۔ ایک بین الاقو امی معاون زبان کی ایجاد یا انتخاب پر زور دیتا ہے۔ اور ان اداروں کا خاکہ پیش کرتا ہے جن کو نوع بشر کے لئے صلح عمومی قائم کرنا ہے۔

امر بہائی تین مرکزی شخصیتوں کے گرد گھومتا ہے۔ ان میں سے پہلے شہر شیراز کے رہنے والے ایک نوجوان ہیں جن کا نام سید علی محمد ہے۔ آپ ’’باب‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں۔ انہوں نے ۱۸۴۴میں ۲۵ سال کی عمر میں یہ دعوی فرمایا کہ آپ ہی وہ ہستی ہیں جنہیں ادیان سابقہ کے صحائف مقدسہ کے مطابق اپنے سے عظیم تر ایک ظہور کی آمد کا اعلان کرنا اور ان کے لئے راستہ ہموار کرنا تھا۔جن کا مشن انہی کتب مقدسہ کے مطابق سچائی اور امن کا ایک دور شروع کرنا تھا۔ ایک ایسا دور جس کا تمام سابق ادوار کے مقصد و مرام کی صورت میں استقبال کیا جائے گا اور جو بنی نوع انسان کی دینی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔

تند و تیز ایزارسانی، جسے حضرت باب کے اپنے وطن کے مذہبی و ریاستی اداروں کی منظم قوت نے شروع کیا تھا، پہلے آپ کی گرفتاری ، پھر آزربائیجان کی پہاڑوں میں آپ کی جلاوطنی ،ماہ کو اور چہریق کے قلعوں میں آپ کی قید اور آخر کار تبریز کے چوک میں ایک فوجی دستے کے ذریعے ۹ جولائی ۱۸۵۰ء کو آپ کی شہادت پر منتج ہوئی۔ آپ کے  بیس ہزار سے زائد پیروکار ایسی بے رحمی اور شقاوت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارے گئے کہ اس نے کئی مغربی مصنفین ، شعرا، سیاحوں اور عالموں کے دل میں ترحم اور قدردانی کے پُرتپاک جذبات پیدا کر دئیے۔ ان میں سے کئی حضرات ، جو ان نفرت انگیز اور شرمناک مظالم کے چشم دید گواہ تھے، انہیں اپنی کتابوں اور روزنامچوں میں لکھے بغیر نہ رہ سکے۔

میرزا حسین علی ملقب بہ   حضرت بہاء اللہ بھی  ، جو مازندران کے رہنے والے تھے اور جن کے ظہور کی پیش گوئی حضرت باب نے کی تھی، جہالت اور تنگ نظری کی انہی  قوتوں کے حملوں کی زد میں آئے۔ آپ طہران میں قید کئے گئے ، ۱۸۵۳ ء میں اپنے وطن عزیز سے بغداد اور پھر وہاں سے استنبول، پھر ادر نہ پھر آخر کار عکا کے قیدخانے میں جلا وطن کئے گئے جہاں آپ چوبیس سال تک قید میں رہے اور جس کے نواح ہی میں ۱۸۹۲ء میں آپ نے وصال فرمایا۔ اپنی جلاوطنی کے دوران   اور خاص کر ادر نہ اور عکا میں، آپ نے اپنے دور کے لئے احکام و قوانین جاری فر مائے۔ ایک سو سے زیادہ جلدوں میں آپ نے اپنے امر کے اصولوں کو واضح فرمایا۔ آپ نے مشرق و مغرب کےعیسائی  اور اسلام ہر دو مذاہب سے تعلق رکھنے والے بادشاہوں اور حکمرانوں تک اپنے پیغام کا ابلاغ فرمایا اور پا پائے روم، خلیفۃمسلمین ، براعظم امریکہ کی جمہو ریتوں کےمنتظمین اعلیٰ، مسیحیوں کے تمام رسمی اداروں، شیعہ و سنی اسلام کے قائدین اور دین زرتشست کے اعلی مذہبی رہنماؤں کو خطاب فرمایا۔  ان الواح مبارکہ میں آپ نے اپنے مشن کا اعلان فرمایا ہے، اپنے مخاطبین کو اس دعوت پر دھیان دینے اور اپنے امر کی تائید کرنے کا حکم دیا ہے اور  اس سے انکار کے عواقب سے خبردار کیا نیز ان میں سے بعض کی ان کے نخوت و ظلم کی وجہ سے مذمت فرمائی ہے۔

آپ کے فرزند ارشد ،عباس آ فندی، حضرت عبدالبہاء کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہیں آپ نے اپنا قانونی وارث اور اپنی تعلیمات مبارکہ کا با اختیار مفسر کیا تھا۔ آپ اپنے بچپن سے ہی اپنے والد کے قریبی مصاحب اور ان کی جلاوطنی اور تکالیف کے ساتھی تھے۔ آپ ۱۹۰۸ءمیں اس وقت تک قید میں رہے جب تک کہ ترک جوانوں کے انقلاب کے نتیجے میں آپ کو آزاد نہ کر دیا گیا۔ آپ نے آزادی کے بعد حیفاکو اپنا مستقل قیام گاہ بنایا۔ پھر جلد ہی آپ مصر، یورپ اور شمالی امریکہ کے تین سالہ سفر پر روانہ ہو گئے۔  اس سفر کے دوران آپ نے بڑے بڑے  اجتماعات میں  اپنے والد بزرگوار کی تعلیمات مبارکہ کی تشریح فرمائی اور اس بلائے ناگہانی کی پیش گوئی فرمائی جو جلد ہی نوع بشر پر نازل ہونے والی تھی۔ پھر پہلی عالمی جنگ کے شروع ہونے سے کچھ  ہی پہلے آپ گھر واپس آگئے۔  اس جنگ کے دوران آپ کو مسلسل خطرے کا سامنا رہا۔ ۱۹۲۱ء میں آپ نے صعود فرمایا اور کوہ کرمل پر اسی مقبرے کے ایک کمرے میں سپرد خاک کئے گئے جو حضرت باب کے جسد اطہر کے لئےحضرت بہا اللہ   کی ہدایت پر تعمیر کیا گیا تھا (اس جسد مبارک کو ساٹھ سال تک محفوظ اور پوشیدہ رکھنے کے بعد تبریز سے ارض اقدس لا یا گیا تھا)۔

حضرت عبدالبہاء کا صعود (وصال) امر بہائی کے پہلے عصر یعنی عصر رسولی کا خاتمہ اور عصر تکوین کا افتتاح تھا۔ عصر تکوین کو اس نظم اداری کے ظہور کا مشاہدہ کرنا تھا جس کے قیام کی پیش گوئی حضرت باب نے کی تھی۔ اس عصر کے قوانین حضرت بہاء اللہ نے وضع کئے تھے۔ اس کا خاکہ حضرت عبدالبہاء نے اپنی الواح وصایا  میں کھینچا تھا اور اس کی بنیادیں اب ملی اور محلی محافل رکھ رہی ہیں جو اس امر کے پیروکاروں کے منتخب ادارے ہیں ۔

مختلف ادیان کے بانیوں کے صعود کے بعد منظر پر آنے والے نظاموں کے برعکس یہ نظم اداری  اپنے آغاز کے لحاظ سے خدائی ہے۔ یہ ان قوانین، اصولوں، احکامات اور اداروں پر مضبوطی سے قائم ہے جو خود اس امر مبارک کے بانی نے خصوصی طور پر وضع فر مائے اور واضح طور پر قائم کئے ہیں۔ اور یہ اس کے آثار مقدسہ کے با اختیار  مفسرین کی تفسیروں کے عین مطابق کام کرتی ہے۔ اگرچہ اس نظم کے قیام کے اولین مراحل سے ہی اس پر تابڑتوڑ حملے کئے گئے  تاہم یہ اپنی اس نوعیت کی وجہ سے ، جو دنیا کی تاریخ میں بے مثال ہے،  اپنے تنوع اور دور دراز علاقوں میں پھیلے ہوئے حامیوں کی جماعت میں اتحاد قائم رکھنے میں کامیاب رہا ہے اور ان کو دونوں نصف کروں میں متحد طور پر اور نظم و نسق کے ساتھ ایسی مہموں کے اجرا کے قابل بناتا ہے جن کا مقصد اس نظم کی حدود کو وسیع تر کرنا اور اس کے انتظامی اداروں کو مستحکم کرنا ہے۔

اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ وہ امر مبارک جس کی یہ خدمت ، حفاظت اور تبلیغ کرتا ہے بنیادی طور پر مافوق الفطرت، برتر از قومیت  ، مکمل طور پر غیر سیاسی اور ہر فرقے سے بالاتر ہے نیز کسی بھی خاص نسل ، طبقہ یا قوم کی برتری ثابت کرنے والی ہر پالیسی یا تصور کے بالکل مخالف ہے۔ یہ ہر قسم کی دینی پیشوائیت سے پاک ہے۔  یہاں نہ تو رہبانیت ہے اور نہ ہی مخصوص رسوم عبادت۔ یہ نظم صرف اپنے معتقدین کی رضاکارانہ مالی معاونت پر انحصار کرتا ہے۔ امر بہائی کے پیرو کار اگرچہ اپنی متعلقہ حکومتوں کے وفا دارہیں ، اگرچہ وہ اپنے وطن کی محبت سے سرشار ہیں اور اس کے بہترین مفادات کی ترویج کے لئے ہر لحظہ کوشاں ہیں لیکن پھر بھی وہ نوع بشر کو ایک وحدت تصور کرتے ہوئے  دل و جان سے اس کے اہم ترین مفادات سے منسلک ہیں اور ہر مخصوص مفاد کو خواہ یہ ذاتی ہو، علاقائی ہو یا قومی، نوع بشر کے عظیم تر اور عمومی مفادات کے تابع کرنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ کیونکہ وہ خوب آگاہ ہیں کہ ایک دوسرے پر انحصار کرنے والے لوگوں اور قو موں کی اس دھرتی پر ایک حصے کی بھلائی   ’’کُل‘‘ (سب)  کی بھلائی سے ہی بہتر طور پر حاصل ہو سکتی ہے اور یہ کہ جب تک ’’کُل‘‘ کے مفادات سے چشم پوشی کی جائے گی اسے تشکیل دینے والے کسی بھی حصے کے لئے کوئی دیر پا  بھلائی حاصل نہیں کی جاسکتی۔‘‘

حضرت شوقی آفندی، اقوام کو دعوت فکر