مشرق الاذکار۔ ایک بے مثل عبادت خانہ جہاں ہر کوئی عبادت کرسکتاہے

posted in: قوانین | 0

ہر شہر اور گاؤں میں مشرق الاذکار (خدا کے ذکر کے ابھرنے کی جگہ) کی تعمیر کا حکم حضرت بہاء اللہ کی ’’کتاب اقدس‘‘ میں دیا گیا ہے۔ اسے عام طور پر بہائی معبد یا عبادت خانہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے لئے وقت آنے پرنہ صرف سماج کی روحانی زندگی کا محور ہونا مقدر ہے بلکہ اُس کے انسان دوستی کے کاموں کا مظہر بھی۔ بیت العدل اعظم فرماتے ہیں:

’’بہائی تحریروں میں اصطلاح’’ مشرق الاذکار‘‘  کا استعمال کئی چیزوں کے لئے کیا گیا ہے جیسے صبح سویرے دعاؤں کی تلاوت کے لئے مومنین کااجتماع؛ ایک ایسی عمارت جہاں کلام الہیٰ تلاوت کی جاتی ہے؛ مشرق الاذکار کا پورا ادارہ معہ ملحقات کے؛ اور بذاتِ خود وہ مرکزی عمارت جس کا حوالہ ”معبد“ یا ”عبادت خانہ“ کے طور پر دیا جاتاہے۔ ان سب کوکتاب اقدس میں نوع بشر کے لئے حضرت بہاءاللہ کے مقررکردہ قانون پر بتدریج عملدرآمد کامختلف پہلو خیال کیاجاتاہے۔‘‘

اگرچہ ہر معبد کا اپنا الگ ڈیزائن ہو تا ہے لیکن اسے چند تعمیراتی تفاصیل کے مطابق ہو نا ہوتا ہے جوایک متحد تصور دیتا ہے۔ مثلاً تمام بہائی معبد ایک نو پہلو والی عمارت ہوتی ہے اور اس کا ایک مرکزی گنبد ہوتا ہے۔  مشرق الاذکار کا پورا ادارہ اس معبد اور اس کےملحقات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ملحقات مختلف انسان دوستی کے کاموں کے مراکز ہوتے ہیں ۔ بیت العدل اعظم فرماتے ہیں:

’’دین کی تاریخ میں مشرق الاذکار ایک انوکھاتصور ہے اور اس جدید یوم اللہ کی علامت ہے۔مشرق الاذکارجو معاشرے کے اندردلوں میں الفت کی ترویج کے لئے ایک اجتماعی مرکزہے ،عبادت کے لئے ایک عمومی مقام بھی ہے جس کے دروازے کسی مرکز کے تمام باشندوں کے لئے ، بلا تفریق دین، پس منظر، قوم و ملت اور جنس کے ، کھلے ہوئے ہیں اور یہ زندگی کی روحانی حقیقت اور بنیادی سوالات پر،بشمول معاشرے کی سدھارکے لئے انفرادی و اجتماعی ذمہ داری کے، خوب گہرائی سے غورو فکر کرنے کے لئے ایک پناہ گاہ ہے۔ مرد اور عورتیں، بچے اور جوان سب اس کے آغوش میں یکجا ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ اور یہ بھی کہ:

’’مشرق الاذکار ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے روحانی قوتیں پھوٹتی ہیں اور یہ اپنے اُن ملحقات کا مرکز ہے جو نوع بشر کی فلاح و بہبود کے لئے تعمیرکی جاتی  ہیں اور خدمت کے ایک مشترکہ ارادے اور خواہش کا اظہار ہیں۔یہ ملحقات، جو تعلیم و سائنس کی سکھلائی کے ساتھ ساتھ ثقافتی اورانسانی فلاحی کوششوں کے مراکز ہوتی ہیں، اُس سماجی اور روحانی ترقی کے تصورات کو عملی شکل دیتی ہیں جو علم کے اطلاق سے حاصل کی جائیں گی اور یہ دکھاتی ہیں کہ جب دین اور سائنس ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے ہیں تو وہ کس طرح انسان کے مقام کوبلند کرتے ہیں اورایک خوشحال تہذیب و تمدن کی طرف لے جاتے میں۔ ۔۔ عبادت انسان کی باطنی زندگی کے لئے لازم اور روحانی ترقی کے لئے اہم ترین عمل ہے ا سے لازماً ایسے کاموں کی طرف رہنمائی کرنی ہی ہوگی جو اُس باطنی کایاپلٹ کے بیرونی اظہارہوں۔ مشرق الاذکار کے ذریعے عبادت کے اس تصور کا اعلان ہوتاہے کہ اسے خدمت سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔‘‘

امر بہائی کی ترقی کے موجودہ مرحلہ پر بہائیوں نے اپنی توجہ سماجی زندگی کے سماجی اور روحانی اداروں کی ترقی اور ایک  نئی ملکو تی تہذیب و تمدن کی تعمیر نیز اپنے اور اپنے سماج  کی روحانی اور مادی ترقی کے لئے شہروں، دیہاتوں اور بستیوں کی آباد یوں میں صلاحیت سازی پر لگا رکھی ہے۔ تو بھی دنیا بھرمیں اس  وقت تک سات مشرق الاذکار تعمیر کئے جا چکے ہے۔  اس سلسلہ کا آخری مشرق الاذکار اس وقت چلی کے شہر سان تیاگو میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ مشارق الاذکارمینارۂ نور کی طرح دنیا کو خدا کی عبادت اور زندگی بسر کرنے کے نئے انداز کی طرف پکار رہے ہیں۔

عالمی بہائی ویب سائیٹ www.bahai.org کے مطابق،’’ پہلا مشرق الاذکارروس میں  وسطی ایشیا کے شہر عشق آباد میں تعمیر کیا گیا۔ یہ معبد ۱۹۰۸ ء میں مکمل ہوا اور۱۹۳۸ء تک اس علاقے کے بہائی سماج کی خدمت کرتا رہا جب اس پر سوویت حکومت نے قبضہ کر لیا۔ ۱۹۶۲ء میں جب یہ عمارت زلزلہ سے متاثر ہوئی تو اسے مسمار کر دیا گیا۔Baha'i House of Worship_Ashkabad

عشق آباد کا مشرق الاذکار کئی لحاظ سے اپنے وقت سے بہت آگے تھا۔ اس علاقے میں ایک ترقی کرتے  ہوئے  بہائی سماج  کے لئے ایک روحانی مرکز کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ  اس نے اس سماج کے انسان دوستی کے تصورات کو بھی ایک اظہار بخشا۔ اس مشرق الاذکار کے ساتھ ملحق کئی ذیلی ادارے  بھی تھے  ۔ ان ملحقات میں ایک ہسپتال، ایک اسکول، اور ایک مسافر خانہ شامل تھا۔

مغرب کا پہلا مشرق الاذکار ۱۹۵۳ء میں، ایلی نوئیس، ریاست ہائے متحدہ میں میچی گن جھیل کے کنارے  مکمل کیا گیا۔۔۔ان برسوں کے دوران اس نے میلینوں زائرین کو متوجہ کیا ہے۔ اس کے بعد دوسرے مشارق الاذکار کمپالا (یوگنڈا)؛سڈنی  کے قریب(آسٹریلیا)؛  فرینک فورٹ کے باہر(جرمنی)؛ پنا ما شہر کے نزدیک(پنا ما) اور اپیا  (مغربی سموآ)میں تعمیرکئے گئے۔

سب سے نیا مشرق الاذکار نئی دہلی (انڈیا) میں ۱۹۸۶ء میں مکمل کیا گیا۔ اس وقت سے یہ عمارت کئی تعمیراتی ایوارڈ Baha'i House of Worship_ New Delhiحاصل کر چکا ہے اور ہزاروں اخباری اور میگزین کے مضامین کا موضوع بن چکا ہے۔ ۔۔ چند ہی برسوں میں نئی دہلی کا معبد دنیا کے اہم ترین مقامات میں سے ایک بن چکا ہے جہاں ہر سال ڈھائی ملین سے زائد زائرین آتے ہیں۔ بہائی معبد انڈیا کے لوگوں میں اس قدر محترم ہے کہ ہندو تہواروں کے دن یہاں ایک لاکھ تک زائرین آتے ہیں۔‘‘

براعظمی سطح کا آخری مشرق الاذکار اس وقت چلی کے شہر سان تیاگو میں تیزی سے زیر تعمیر ہے۔

جیسے کہ پہلے کہا گیا ہے بہائی معبد کے دروازے  ہر قوم، مذہب و ملت اور پس منظر کے لوگوں کے  لئے کھلے ہیں  اور وہاں کسی قسم کے خطابات، رسومات یا دینی پیشوا نہیں ہوتے۔

بہائی ویب سائیٹ www.bahai.org  کے مطابق اس وقت دنیا میں ۱۲۰مقامات پر مشرق الاذکار کی زمین موجود ہے۔ Chilli Templeآخرکارہر مقامی بہائی سماج میں اپنا معبد ہوگا۔ پہلے مشرق الاذکار کی طرح ہی ہر ایک ہی سماجی زندگی  کا محورہونےکے ساتھ ساتھ سماجی، سائنسی، تعلیمی اور انسانی خدمات کا ایک مرکزبھی ہو گا۔

 اس مضمون میں بیت العدل اعظم کے سب حوالے ایران کے بہائیوں کے نام اُن کے خط مورخہ ۱۸ دسمبر،۲۰۱۴ ء سے ہیں

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *