بہائی رضوان مناتے ہیں:جنت کے باغ میں خوش آمدید

posted in: تاریخ | 0

’’پھولوں،جھاڑیوں اوردرختوں سے بھرے ہوئےایک خوبصورت باغ کو دیکھو۔ ہرپھول ایک الگ دلکشی،ایک خاص حُسن،خوداپنی خوشگوارخوشبواورخوبصورت رنگ رکھتاہے۔ درخت بھی اپنی جسامت،بڑھوتری اورپتوں کے لحاذکتنے الگ الگ ہیں اوروہ کتنے مختلف پھل دیتے ہیں!لیکن یہ سب پھول،جھاڑیاں اوردرخت ایک ہی زمین سے پھوٹتےہیں، ان پروہی سورج چمکتاہےاوروہی بادل برستے ہیں۔انسانیت کے ساتھ بھی ایساہی ہے۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء،خطابات پیرس،صفحہ۷۸نطرثانی)

امربہائی کاآغازبڑی حد تک ایک خوبصورت باغ میں ہواتھاجسے باغ رضوان(یعنی جنت)کہاجاتاہے۔ ۲۱۔ اپریل،۱۸۶۳کو گلاب کے پھولوں کی خوشبومیں بسے ہوئے،پرندوں کی چہچہاہٹ سے بھرے ہوئے اس باغ نے دنیا کے سب سے نئے دین کی پیدائش کا مشاہدہ کیاتھا۔

باغ رضوان
باغِ رضوان کا داخلی دروازہ

بغدادکے نزدیک دریائے دجلہ میں ایک جزیرے پر قائم باغ رضوان ہی وہ مقام ہے جہاں حضرت بہاء اللہ نے پہلی باراپنے مشن کا اعلان فرمایااورامربہائی کا افتتاح کیا۔ حضرت بہاء اللہ کا یہ انتہائی اہم اعلان ترکی کےشہرقسطنطنیہ(موجودہ استنبول)کی طرف آپ کی جلاوطنی سے بالکل پہلے ہوا۔اس سے دس سال قبل،۱۸۵۳میں،حکومتِ ایران نے آپ کی تعلیمات کےتیزی سے پھیلنے اورمعاشرےپراُن کی ترقی پسندانہ اثرات سےخوفزدہ ہوکر حضرت بہاء اللہ کو بغدادجلاوطن کردیاتھا۔چونکہ آپ کی تعلیمات تیزی سے پھیلتی جا رہی تھیں اورمذہبی پیشواؤں کوخوفزدہ کرہی تھیں ۱۸۶۳میں آپ کو ایک بارپھرجلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا:

’’آخرکاردشمنان امرنے حکومتی عہدہ داروں سے حضرت بہاءاللہ کے بغداد سے جلاوطنی کا حکم حاصل کرلیا۔ پہلے اس میں لکھا تھاکہ آپ کواکیلے ہی جاناہوگا۔ لیکن بعد میں اسے تبدیل کردیا گیااورآپ کے گھرانے اورچندپیروکاروں کو ساتھ جانے کی اجازت دے دی گئی ۔ جلاوطنوں کا گروہ بغدادسے نکل گیا اورپہلے شہر سے باہرایک خوبصورت باغ میں پڑواؤکیا۔ یہاں انہوں نے بارہ دنوں تک عارضی قیام کیا۔ حضرت بہاء اللہ کے لئے ایک خیمہ لگایا گیا تھااوراس کےاردگرددوسروں کے خیمے تھے۔ اس باغ میں گزارےگئےان دنوں کو’’ایام رضوان‘‘کہاجاتاہے۔ ایام رضوان انتہائی اہمیت والے دن ہیں کیونکہ تب ہی حضرت بہاء اللہ نے اپنے چند پیروکاروں کےسامنے اپنے عظیم مشن کا اعلان کیا تھااوردنیاکے لئے امن واتحاد کے محل کی تعمیرشروع کیا تھا۔ آپ نے بہت ساری شاندارآیات ظاہرکئے تھے جویوم اللہ جدیدکے گیت سناتی ہیں۔

جب وہ بارہ دن گزرگئے تووہ لوگ گھوڑوں اورگدھوں پر سوارہوکرترک سپاہیوں کے پہرے میں دوبارہ سفرپرروانہ ہوگئے۔جومؤمنین حضرت بہاء اللہ کے ہمراہ نہیں جا پا رہے تھےوہ بالکل ہی دل شکستہ تھے۔ ایسا لگتا تھا گویا حضرت بہاء اللہ ایک بادشاہ تھے جوایک شاندار سفر پر روانہ ہورہے تھے۔ ظاہراً آپ ایک جلاوطن تھےلیکن آپ کی روح سے ایک عظیم روشنی چمک رہی تھی۔

(جناب فاضل، اسٹارآف دی ویسٹ،جلد۸، صفحات۳۲۵تا۳۲۶)

سخت موسمِ گرما میں ایشائےکوچک کےتپتے ہوئےسحراؤں اورپہاڑوں پر سے گزرنے والے اس جلاوطنی کےصبرآزمااوردشوارسفرنےچار مہینے لئے۔ اس عرصے کےدوران حضرت بہاء اللہ نے مؤمنین کے بڑھتے ہوئے حلقے میں اپنےمشن کا اعلان کیا۔اس دوررَس اعلان سے حضرت بہاءاللہ نےاپنی جلاوطنی کے واقعہ کوبحران سے فتح میں بدل دیا۔

رضوان کے یہ بارہ ایام جنہیں بہائی ہرسال۲۱۔اپریل سے۲مئی تک مناتے ہیں اس باغ میں عارضی قیام کےاُن بارہ دنوں کی یادگارہیں اورحضرت بہاءاللہ کے نئے دین کی سالگرہ منانے کے دن ہیں۔ دنیابھرمیں بہائی سماجیں اور ان کے دوست استنبول کوحضرت بہاءاللہ کی جلاوطنی کے واقعہ کوایک غم یاافسوس کے موقع کے طورپرنہیں بلکہ تجدیدعہد کی ایک پُرمسرت جشن کےطورپرمناتے ہیں۔ رضوان کے مقدس ایام خداکےپیغمبرکی اس قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ وہ برائی میں سے بھلائی پیداکرسکتاہے،تاریکی میں سے روشنی ظاہرکر سکتاہے اوربظاہرشکست کوفتح میں تبدیل کرسکتاہے:

’’ایرانی حکومت کویہ یقین تھا کہ ایران سے(حضرت بہاءاللہ کی) جلاوطنی اُس ملک سے آپ کے امرکومٹا دے گی۔ یہ حکمران اب سمجھ گئے کہ اس سے یہ اورتیزی سے پھیل گیا۔ آپ کی شہرت بڑھ گئی، آپ کا پیغام زیادہ دوردرازتک پھیل گیا۔ تب ایران کے حاکموں نے بغدادسےحضرت بہاءاللہ کوجلاوطن کروانے کےلئے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا۔ ترکی کے صاحبان اختیارکے ذریعے آپ کو قسطنطنیہ طلب کیا گیا۔جب قسطنطنیہ میں تھے تو آپ نے ہر رکاوٹ خاص کر ریاستی وزیروں اورعلماء کی مخالفت کو نظراندازکردیا۔ ایران کے سرکاری نمائندوں نے ایک بار پھرترک صاحبان اختیارپراپنااثرورسوخ ڈالا اوروہ حضرت بہاءاللہ کوقسطنطنیہ سےادرنہ جلاوطن کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے ان کامقصد یہ تھاکہ جہاں تک ممکن ہوحضرت بہاءاللہ کوایران سے رکھا جائے اوراُس ملک سے آپ کے رابطے کودشوارترکردیا جائے۔ اس کے باوجودامراللہ پھیلا اور(اس نے)قوت حاصل کی۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء، دی بہائی ورلڈفیتھ، جلد۹،صفحہ۱۶۹)

باغ رضوان میں حضرت بہاءاللہ کے اعلان نے آپ کے نزدیک کے سب لوگوں کوایک نئے جذبےسےبھردیااوراُس باغ میں موجود پورے  اجتماع میں خوشی اورزندگی کی روح پھونک دی۔ہرسال جشنِ رضوان کےدوران بہائی اُن خوشی کے جذبات کی تقریب مناتے ہیں اوردنیابھرکی بہائی سماجیں تقریبات اوراجتماعات کی میزبانی کرتے ہیں جہاں ہرایک کوخوش آمدید کہا جاتاہے۔

آج رضوان کاعرصہ وہ وقت بھی ہوتاہے جب دنیابھر کے بہائی اُن جمہوری اداروں کو منتخب کرتے ہیں جواُن کے دین کا انتظام وانصرام چلاتے اوررہنمائی کرتے ہیں۔ بہائیوں میں کوئی مولوی،پادری،پروہیت یا اسی طرح کاکوئی فرد نہیں ہوتا۔اس لئے بہائی سماجیں خود کو نو ارکان پرمشتمل جمہوری طورپرمنتخب اداروں کے ذریعے چلاتے ہیں۔ مقامی اورملی سطح پریہ ادارےمحفل روحانی کہلاتےہیں جن کاہرسال رضوان کے بارہ ایام کے دوران انتخاب کیا جاتاہے۔ اسی دوران ہی بہائی ہرپانچ سال میں ایک باربیت العدل اعظم کا انتخاب کرتے ہیں جواعلٰی ترین عالمی بہائی ادارہ ہے۔

 جب بہائی دعاکرنےاوران بے مثل جمہوری اداروں کے لئے اپنےووٹ کی پرچیاں ڈالنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں تووہ حضرت بہاءاللہ کے عطاکردہ عالمی اتحادکی تعلیمات کی توثیق کرتے ہیں،علامتی طورپراس کی تمام ترتنوع اورخوبصورتی کے ساتھ نوع بشرکے باغ کاجشن مناتے ہیں،اورباغِ رضوان میں کئے گئے اُس قوی اعلان کو یادکرتےہیں جس نے دینِ وحدت وامن کوقائم کیاتھا۔

تحریر: ایڈیٹر،بہائی ٹیچنگز؛ ترجمہ: افکار تازہ ،بشکریہ: بہائی ٹیچنگز

   اس مضمون میں ظاہرکردہ خیالات اورتصورات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں اورافکارتازہ یا کسی بہائی ادارےکاان سے متفق   ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *