امر بہائی اور انسانی حقوق

بہائی تحریریں واضح کرتی ہیں کہ انسانی حقوق صرف کوئی سیاسی یا سماجی تصور نہیں جو حکومتوں کے تسلیم کئے جانے کی محتاج ہو۔ بلکہ بہائی نقطہ نظر یہ ہے کہ حکومت ہو یا نہ ہو انسانی حقوق موجود ہیں؛ در حقیقت وہ ایک دائی عطیہ ہے جو سب انسانوں کی اس پیدائشی صلاحیت سے پھوٹتا ہے کہ وہ خدا ئی صفات کو منعکس کر سکے۔ اسی وجہ سے سب انسان ایک مساوی روحانی وقار کے مالک ہیں۔

ایک بہائی کا شہر ساری کے گورنرکے نام کھلاخط

چالیس سال تک میں نے خود کو اپنے کاموں کے لئے وقف رکھا ہے اور میں نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کے مطابق اپنے قیمتی گاہکوں کی خدمت کی ہے۔اب ۷۳سال کی عمر میں، جب میں امراض قلب کی وجہ سے معزور ہوکر ایک کام کرتا تھا جہاں مجھے دن کے صرف چند گھنٹے کام کرنا ہوتا تھا تاکہ میں اپنی زندگی کی چند انتہائی معلمولی ضروریات پوری کر سکوں۔کیا میرےاتنے سارے برسوں کی کوشش اور ایمانداری کا یہی صلہ ہے؟

ایران میں ایک بچے کی درخواست

جب اُن کے دین یانسل یاجھوٹے الزامات یا زبردستی کی وجہ سے کسی فرد کو قید کیا جائے یا اس پر کوئی دباؤ ڈالا جائے توانصاف چکناچورہوجاتا ہے اورایک ردی کے کاغذ کی طرح پھاڑکرپھینک دیا جاتا ہے۔

یاران! ہم آپ کے ساتھ ہیں

’’گاؤں کے سادہ اوطاقوں سے لیکرحکومتی ایوانوں تک افراد اور گروپس نے ان سات نفوس کی دیگر۱۱۰بہائیوں کے ساتھ جنہیں اپنے دینی عقائد کی وجہ سے قید کیا گیاہے اورایران میں دوسرے ضمیر کے قیدیوں کی غیر منصفانہ اسیری کی بھی مذمت میں اپنی آوازیں بلند کیں۔

BIHE پروفیسرفرہاد صِدقی کاجیل سے ایک خط

حالانکہ حصولِ علم کسی ملک میں رہنے والے ہر ایک فردکا حق ہے اور بعض افراد کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم کرنا غیر قانونی ہے تاہم اب 35سال سے زیادہ ہو چکا ہے کہ بہت سے خواہشمند بہائی جوانوں کو اس ملک (ایران) کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے ۔