خداخندہ زن باب ۶: چلے آؤ سب لٹیرو!

posted in: خود نوشت | 0

چند سال  بعد ہم مینی سوٹا کے شہرکروسبی منتقل ہوگئے۔نانا نہیں چاہتے تھے کہ ہم جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کروسبی اتنی چھوٹی جگہ ہے کہ وہاں گنے کو حدودِ شہرمیں رکھنے کے لئے کھڑا رکھنا پڑتا ہے۔

کرسمس میں ہم نے خود کو بڑا تنہا محسوس کیا۔ والد صاحب کا خیال تھا کہ چھ افراد پرمشتمل خاندان کونانا کے یہاں لے جانا بڑا مہنگا سوداہوگا۔ اماں اُن کی ہربات پر متفق ہوتی جاتیں لیکن انہوں نے سوٹ کیس پیک کرنے کا عمل بھی جاری رکھا۔لیکن آخری فیصلہ ابا کی خواہش کے مطابق ہی ہوا۔ اب اُن کی خواہش تھی کہ ہم سب نانا کے یہاں جائیں۔

وہاں پہنچتے ہی نانا مجھے خریداری کرنے لے گئے۔ پچھلے دوسال سے برفباری ہورہی تھی اور مجھے یقین تھا کہ اس بارروایتی ’سفید کرسمس‘ ہوگی۔ہم ایک گھوڑے کی سیلج گاڑی میں شہر گئے۔ ملکہ کے نتھنوں سےچمنی کی طرح دھواں نکل رہا تھا۔ناناکے گول مٹول گال سیب کی طرح سُرخ ہورہےتھے۔ ان کاچہرہ مسکراتی  جھریوں سے بھراہواتھا۔جب وہ ہنستے تو ایسا لگتا جیسے یہ جھریاں چاروں طرف لہرا رہی ہوں۔ماموں کلف کہاکرتے تھے کہ نانادراصل ہوائی جہاز کاانجن تھے جسے بائیسکل میں لگادیا گیاتھا۔ خود میراخیال تھا کہ نانا مُنہ اندھیرے سورج نکلنے سے پہلے اٹھتے اور پھر اپنے بیلچے سے دھکیل دھکیل کرسورج کو نکالتے ہیں ۔ انہیں پھیپھڑوں کے زورپرگانے کا بڑاشوق تھا۔ خصوصاً جس روز ہمارے گھر انجمنِ خواتین کی مٹنگ ہوتی۔ انہیں ان خواتین کو پریشان کرنے میں بڑا مزہ آتاتھا۔ نانا سیلج کو باورچی خانے کی کھڑکی کے پاس روکتے تاکہ مجھے گاڑی سے اترے بغیرسامان اتارنے کا موقع ملے۔

نانا کی عمر سترکے آس پاس ہوگی لیکن  اگرکوئی  ان سے پوچھتاکہ سترکے کس طرف ہو تو وہ جواب دیتے ، ’’جائیے اپنا کام کیجئے‘‘۔ لیکن مجھ سے وہ رازدارانہ لہجے میں کہتے، ’’بات دراصل یہ ہے کہ طلوع آفتاب سے پہلے اٹھ کردن کے ہر لمحے کا لطف اٹھا کرغروب آفتاب تک مشقَّت کرکے اُس وقت میں سونے جاتاہوں جب سب لوگ تھک ہار کے سوچکے ہوتے ہیں۔ اس طرح میں نے ستربرس نہیں بلکہ ایک سوچالیس سال گزارے ہیں۔ سمجھو یہی میری عمر ہے‘‘۔

ناناکو بیس برس کی عمرسے ہی عارضۂ قلب لاحق تھا۔ اس لئے جب بھی وہ چمچہ بھر کے روغنی شوربہ اپنی پلیٹ میں ڈالتے تونانی ٹوکتیں، ’’ڈاکٹر نے کیا کہاتھا تمہیں ؟ کچھ یاد بھی ہے تمہیں میل؟‘‘

’’اونہہ! ڈاکٹر! تین کوتومیں دفن کر چکا ہوں اور یہ جو نیا چھوکرا آیا ہے اسے بھی دیکھ لوں گا‘‘۔ نانا ایک اور چمچہ ڈالتے ہوئے کہتے۔

اگر ان کو اسی طرح کباب پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے دیکھ کرکسی کی بھنویں تنتیں تو وہ ہنستے ہوئے کہتے، ’’منہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھے جو پسند ہے وہ میں کھاؤں گا، اگر جاناہی ہوا تو چلا جاؤں گاپر خالی پیٹ نہیں ٹلنے کا‘‘۔

پھر مجھے مخاطب کرکے کہتے، ’’بیٹے ڈاکٹر سے کبھی کوئی تعلق نہ رکھنا، ہاں بے ہوش پڑے ہوئے ہو تو اوربات ہے۔ ان ڈاکٹروں کو سوائے کانٹ چھانٹ کے کچھ سوجھتی ہی نہیں۔‘‘

’’جی ناناجی۔‘‘

’’میرے معبود نے مجھے جو کچھ دیا تھا وہ اب تک میرے پاس محفوظ ہے لیکن انہوں نے کوشش بڑی کی تھی کہ اپنی چھریوں سے ان میں سے کچھ نہ کچھ کاٹ ہی لیں۔‘‘

’’کھاناکھاؤ میل!‘‘ نانی نے ان کی توجہ کھانے کی طرف مبذول کرائی۔نانی کا چارمرتبہ آپریشن ہوچکا تھا اوراس پر انہیں بڑانازتھا۔

’’بیس موضوع مت بدلو! تم پر اتنی بار چھریاں چل چکی ہیں جتنی تمہارے باورچی خانے میں ہیں۔اور قسم سے جتنی چیزیں وہ کاٹ کر لے گئے وہ سب کی سب بالکل نئی کی نئی تھیں۔‘‘

’’بہت ہولی۔‘‘

’’ڈاکٹر‘‘ نانا زیر لب بڑبڑائے ’’آپ کی پیدائش کو ابھی ہفتہ نہیں گزرا  اور آگئے وہ چھریا لے کر آپ کا۔۔۔۔‘‘

’’میل!‘‘

’’ارے یہ حقیقت ہے اور مجھ میں اگر اس وقت باتیں کرنے کی صلاحیت ہوتی تو میں ہرگز ان کو کاٹنے نہ دیتا۔‘‘

کبھی کبھی نانا میرے ساتھ سات گوٹیاں کھیلتے۔اس میں وہ بے ایمانی کیاکرتےتھے۔ ان کا بہانہ یہ تھا کہ میں اتنا اچھا کھلاڑی ہوں کہ انہیں پلڑہ برابر کرنا ہی پڑتا ہے۔ کبھی کبھی وہ  تصویروں کا البم نکالتے اور ریس کے گھوڑوں کی تصویریں مجھے دکھاتے۔یہ مجھے بہت پسند تھا۔ انہی دنوں نانا نے دو ریس کے گھوڑے خریدے تھے۔ ایک سیاہ سبک رفتارجس کا نام  ’ٹراپیکل‘  تھا اور دوسرا فربہ سوربل گھوڑا ’ڈاکر‘۔

اس ڈاکر سے نانا کو بہت سی امیدیں تھیں۔ہرسال مینی سوٹا کے میلے میں نانااپنے گھوڑے دوڑایا کرتے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ جایاکرتا۔ ان میلوں کا سب سے سنسنی خیزسال وہ تھا جب ڈاکر نے سونے کا تمغہ جیتا۔انعام کی رقم تو علیٰحدہ۔ ریس کورس کے منتظمین ہر سال نانا کو تنبیہ کرتے کہ اب ان کی عمرمُنہ زور گھوڑوں پر چڑھنے کی نہیں رہی۔ وہ مشورہ دیتے کہ اب اُن کے بیٹے کلیفورڈ کو سواری کرنی چاہیئے۔ ماموں کلف کی عمر۳۵سال تھی۔ نانا جواب دیتے ،’’میں اپنے گھوڑے کسی کل کے لونڈے کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔ انہیں تجربہ کارہاتھوں کی ضرورت ہے‘‘۔

منتظمین تھک ہار کر انہیں اجازت دے دیتے اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دیتے کہ یہ ان کی آخری بار شرکت ہے اور ان کی عمرکے پیش نظرخود ان کا بھلا بھی اسی میں ہے۔نانا جب ڈاکر کو لئے  لوگوں کے سامنے سے  ہوتے ہوئےاسٹارٹنگ پوئنٹ  پر جارہے تھے تو لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔کچھ قہقہہ لگا رہے تھے ،’’ ارے دیکھوتو یہ انکل پھر آیاہے‘‘۔

نانا اپنے سبز و سفید ریشمی لباس میں جچ رہے تھے۔ کو ئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ انہیں لوگوں  نے سہارا دے کر گھوڑے کی پیٹھ پر چڑھایا ہے اور ان کی بیساکھیاں وہیں باڑھ کے ساتھ لگی رکھی ہیں۔  ان کا  ڈاکر اپنی بہترین صحت میں تھالیکن نانا نے ریس سے کچھ دن پہلے اس کی چمپی اور بالوں کی دیکھ بھال  بند کردی تھی لہٰذہ وہ  بالکل جنگلی گھوڑا نظرآرہا تھا۔نا نا اُس کی اِس حالت پربلند آہنگ قہقہہ لگا رہے تھے۔

’’بیچارہ سام کلارک!‘ ‘نانا جھوٹ موٹ تاسف کرتے ہوئے بولے ’’یہ مریل گھوڑا آج شام سام کلارک کی مُنہ پر اپنی دُم پھیرے گا‘‘۔

جب نانا ڈاکر کو لے کرجارہے تھے تب ہجوم میں سے کسی نے چلا کر کہا، ’’یہ اناج ٹھکانے لگانے کی مشین تمہیں کہاں سے ملی میل؟ یہ تو ایسالگتا ہے دوڑ ختم کرکے آرہا ہے!‘‘ نانا نے خوشدلی سے اس کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔

پہلی ہیٹ ڈاکر نے سام کلارک کے ’طوفان‘ کےمقابلے میں بال برابر فرق سے جیتی۔

نانا نے مجھے مطلع کیا ، ’’ میں نے اسے روکے رکھاتھا۔ مجھے پتہ ہے سام ڈاکر کی طاقت معلوم کرنا چاہتا ہے۔سام جانتا ہے کہ اگر وہ جیتنا چاہتا تو جیت سکتا تھا۔ مگر سام یہ نہیں جانتا کہ میں کوشش ہی نہیں کر رہا تھا جیتنے کی! دوسری ہیٹ کے شروع ہوتے ہوتے وہ بڑی رقم جیتنے کے خواب دیکھ رہا ہوگا‘‘۔ اتنا کہہ کر نانا اپنی مخصوص دمّہ زدہ قہقہوں میں بہہ گئے۔ انہوں نے ڈاکر کی ناک پر بوسہ دیا۔

نانا نے مجھ سے کہا کہ اگر میں ایک ستر سالہ گرگٹ کو دیکھنا چاہوں تو مجھے دوسری ہیٹ کے دوران اُن پر نظر رکھنی چاہیئے۔ میں نے   ایسا ہی کیا۔نانا شروع میں سب سے آگے تھے۔ پھر جوکیسی کا ’شہابِ ثاقب‘ ان کے برابر آیا۔ میئر فلیچر کا گھوڑا ’لٹل لیڈی‘ تیسرے نمبر پر تھا۔اس وقت سام کلارک کے طوفان نے اسے آلیا۔ ایسا لگتا تھا کہ نانا ڈاکر کی توانائی کا آخری قطرہ بھی نکال لینا چاہتے ہیں لیکن سام کلارک نے اختتامی لکیر بڑے فاصلے سے پار کر لی۔

سام کلارک واپسی پرنانا کی طرف دیکھ کر بڑے مربیانہ انداز میں مسکرایا ، ’’ویگنر، میرے دل میں تمہارے سفید بالوں کے لئے جو احترام ہے صرف اس کی وجہ سے میں نے  تمہیں پہلا مقابلہ جیتنے دیا تھا لیکن اب مناسب ہوگا کہ تم اپنے باڑے میں  واپس چلے جاؤ اور وہیں مصروف رہو۔ اس بڑھیا کو توتم ایلمرقصائی کے ہاتھوں جو دام ملے اسی پرفروخت کردو‘‘۔

اس بات پر نانا اتنےہی غصہ ہوئے جتنا سام کوغلط فیصلے کی جانب لے جانے کے لئے کافی تھا۔  ’’سام‘‘ انہوں نے کہا، ’’ کیا تم اپنے سیاہ گھوڑوں کی جوڑی اگلے ریس پر لگا نے کو تیار ہو؟‘‘

’’راضی!‘‘ سام نے کہا، ’’کچھ اور چیزیں اگر تم بازی لگانا چاہتے ہو تو وہ بھی۔‘‘

’’ اچھا تمہاری وہ بگھی جس پر سنہری نقش ونگار بنے ہوئے ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘

’’ اور وہ پچاس گٹھےگھاس کے جو اُدھر کھیتوں میں پڑے ہیں۔‘‘

’’ کوئی اعتراض نہیں مجھے۔‘‘ اس کے بدلہ میں تمہاری طرف سے انہی چیزوں کی قیمت نقد۔ یہ قیمت کوئی ایسا شخص متعین کرے جس پر ہم دونوں کو اعتماد ہو۔‘‘

نانا نے سر ہلایا، ’’ سام ایسا کو ئی شخص ہے ہی نہیں جس پر ہم دونوں یکساں اعتماد کر سکیں۔میں تمہاری بات پر ہی رضامند ہوں۔‘‘

میلہ کے ایک منتظم نے ان کی یہ گفتگو سُن کر ناناسے کہا، ’’میل تم سٹھیا گئے ہو!‘‘

 نانا نے تیسری اور آخری  فیصلہ کن دوڑ کے لئے آغازکی طرف جاتے ہوئے انتہائی بھونڈے پن سے مجھے آنکھ ماری۔ اب میدان میں صرف دو گھوڑے تھے۔ ڈاکر اورطوفان۔ طوفان شروع ہی میں آگے نکل گیا اور فاصلہ  و پریشانی بڑھنے لگی۔میں دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھاکہ نانا شیخی میں آکرفاصلوں کا اندازہ کہیں غلط نہ لگا بیٹھیں۔جب فاصلہ اور بڑھا تو سام کلارک نے پیچھے مڑ کر نہایت حقارت سے مسکراتے ہوئے  نانا کی طرف ہاتھ ہلایا۔

دوڑ جب آخری مرحلے میں داخل ہوا چاہتی تھی  اس وقت نانا نے اپنا شاندار نعرہ لگایا، ’’چلو!‘‘

اور ڈاکر چلا! اس نے اپنے کان بالکل چہرے سے لگالئے  اور پھر جیسے کوئی معجزہ ظہور میں آیا۔ ایسا لگا جیسے طوفان کسی رائفل  کی نال ہو اورڈاکر اس میں سے نکلی ہوئی گولی! ڈاکر نے یہ  مقابلہ باآسانی جیت لیا۔ جب وہ منصفین کی میزکے پاس سے گزرا اس وقت اس میں اور طوفان میں تین گھوڑوں کا فاصلہ تھا۔ گھوڑے سے اترنے کے بعد نانا نے منتظمین کی طرف دیکھ کرفاتحانہ انداز میں گھونسا  فضا میں لہرایا۔

’’کیا خیال ہے آپ ادھیڑ عمر ماہرین کا اس بارے میں؟‘‘

ڈاکر کو ایک سفید مالا پہنائی گئی۔ اور نانا جان کو سونے کا تمغہ اورمنتظمین کی بک بک جھک جھک ملی۔ اور وہی حکم کہ آئندہ سال سے  وہ اس مقابلے میں شریک نہیں ہوسکیں گے۔

نانا نے مجھے اپنا تمغہ دکھایا،’’شائد یہ میرا آخری تمغہ ہے پر مجھے اس پر سب سے زیادہ فخر ہے۔ میں کبھی بھی اس سے جدا نہیں ہوں گا‘‘۔

نانا جب میدان سے جانے لگے تو ہجوم نے والہانہ انداز میں ان کو الوداع کہا۔ہم نے گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا اور خود آئس کریم کی دکان پر گئے جہاں ہم دونوں نے سام کلارک کے کھاتے میں خوب اسٹرابیری آئس کریم اڑائی۔

غرض نانا کے ساتھ گزاری ساری زندگی ہی دلچسپ یادوں سے پُر ہے۔ کچھ یادیں خوشگوارلمحات کی اور بیشتر غمناک ساعتوں کی۔اگر کوئی نانا کے ساتھ ایک ہفتہ بھی گزارتا تو اسے پتہ چلتا کہ ان کے ساتھ وقت انتہائی خوشگوار کٹتا تھا۔ ایک یا دو ہڈیاں ٹوٹتیں، پیٹ میں مسلسل درد رہتا اور آپ حیران ہوتے کہ ان کی عمر کیا وہی ہے جو لوگ سمجھتے ہیں؟جس دن ہم کرسمس کی خریداری کرنے  شہر جانے لگے اس دن تو ایسا لگتا تھاکہ میرے ساتھ بازار جانا ان کی زندگی کاسب سے سنسنی خیز واقعہ ہے۔

’’برخوردار! ان برف کے گولوں کو دیکھو، سرما کی ہوا کا لطف اٹھاؤ،جتنی ہوا پھیپھڑوں میں سما سکتی ہے لے لو‘‘۔

پھر اس کے بعد انہوں نے اتنی زور سےیہ سرد ہوا اپنے پھیپھڑوں  میں داخل کی کہ ان کی سفید مونچھوں کے کنارے ناک سے آلگے۔ جب وہ خود جی بھر کے سرما کی ہوا  جمع کر چکے توانہوں نے اچانک میری پیٹھ پر ایسی دھول جمائی کہ میں نے جتنی سرما کی ہوا زخیرہ کی تھی  سب باہر نکل گئی۔

’’تمہارے نانا تمہیں کرسمس کے موقع پرپاکریقیناً بہت خوش ہیں، چلو اس موقع کا فائدہ اٹھائیں‘‘۔

پھر انہوں نے ملکہ کو اچانک گدگدایا جس پر وہ مینڈک کی طرح پھدک کر روانہ ہو گئی۔نتیجتاً میں بگھی کے پچھلے حصے  پر گر گیا۔ پھر ہم دونوں نے ’بعد از مرگ ملیں۔۔۔‘ کو بطور دوگانا گانا شروع کیا۔ تاوقتیکہ نانا کا مزاج بگڑ گیا۔ ان کا مزاج بگڑنے کی وجہ دکانوں پر لکھی وہ تحریریں تھیں جن پر کرسمس (Christmas) کی جگہ ایکس مس(Xmas) لکھا تھا۔

’’ ’X‘ وہ جگہ ہے جہاں سے انہوں نے حضرت مسیحؑ  (Christ)کو کرسمس  (Christmas سےنکال باہر کیا ہے‘‘ ، انہوں نے شاکی لہجے میں کہا۔انہیں اشیأ کی قیمتوں پر بھی اعتراض تھا۔ان کا دعویٰ تھا کہ جیسے جیسے لوگ مہذب اور نرم رو ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔انہیں گرامافوں پر حضرت مسیحؑ کی دلادت سے متعلق بجائے جانے والے نغموں پربھی اعتراض تھا۔ ’’انہیں ان ثنایات کے الفاظ میں تبدیلی کردینی چاہیئے، ’چلے آؤ سب لٹیرو‘ زیادہ مناسب رہے گا۔میں کسی بھی دوسرے شریف آدمی کی طرح ہی دیندار ہوں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ مجھ سے اس وجہ سے پچھلے مہینے کے مقابلے میں دُگنی قیمت وصول کی جائے!‘‘

’’دنیا کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے کرسمس کے جذبہ سے سرشار ۵۰ہفتے اور دوسرے عام دو ہفتے۔وہ دیکھو، مسٹر فلیچر کے چہرے پر منحوس ہنسی۔جنوری کی دو تاریخ آتے آتے اس کا دل سرکاری وکیل استغاثہ کی آنکھوں کی طرح سرد ہو جائے گا‘‘۔

’’ایساکیوں ہے،نانا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’لوگ صرف اتنی مختصر مدت کے لئے اچھے کیوں رہتے ہیں! کیا وہ سارا سال اچھے نہیں رہ سکتے؟‘‘

کرسمس کے گیت پیچھے چھوڑ کر ہم میپل اسٹریٹ  کی نرم و شفاف برف پر آگئے تھے۔ نانا نے مجھے اپنی باہوں میں جکڑ لیا۔

’’لوگ ایسے ہی ہیں بیٹے‘‘  ، انہوں نے سمجھایا ۔’’ان کے دل جب مادّی اشیأ کی طرف متوجہ رہتے ہیں تب وہ اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور ان کے چہروں پر کوئی روشنی نہیں رہتی لیکن جب وہ خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دنیا کی چیزوں کو بھول جاتے ہیں  تب وہ اندر سے اُجلے اور روشن ہوجاتے ہیں۔کرسمس کے وقت وہ دنیا کی نسبت خداوند اور اس کے پیغمبرحضرت مسیحؑ کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اسی لئے دنیا میں ایک نئی روح پھونک دی جاتی ہے اور یہ دنیا کچھ عرصے کے لئے رہنے کے لائق جگہ بن جاتی ہے‘‘۔

میں نے نانا کی طرف معترضانہ انداز میں دیکھا، ’’آپ کو تو پادری ہونا چاہیئے تھا!‘‘

نانانے ہنستے ہوئے اپنی انگلی میرے ہونٹوں پر رکھ دی۔’’خبردارہم صرف خدا کے بارے میں باتیں کر سکتے ہیں۔ کلیسا کو ان باتوں سے الگ ہی رکھو‘‘۔

∞∞∞∞∞

آئندہ: خداخندہ زن،باب۷: باورچی خانے میں آئس اسکیٹنگ کا مظاہرہ
تحریر: ولیم سیئرس؛ ترجمہ: محمودالحق، ڈھاکہ، بنگلادیش
اس مضمون میں ظاہر کردہ خیالات ونظریات مصنف کے ذاتی خیالات  ونظریات ہیں۔ ان سے ’افکارِ تازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *