مخلوق بذات خود خالق کے بارے میں بہترین دلیل ہے

posted in: روحانیت | 0

سورج، سیاروں اوردُم دارستاروں کایہ انتہائی نفیس نظام  کسی ذہین اور قادر ہستی کی مرضی اوراختیار کے بغیرپیدا نہیں ہوسکتاتھا۔  سَر آئزک نیوٹن

نیچراپنی حقیقت میں میرے اسمِ صنعت گر ، خالق کا عملی اظہار ہے۔۔۔نیچر اس عارضی دنیا میں اور اس کے ذریعےمشیَّتِ الہٰی اوراس کا اظہار ہے۔

                  ( حضرت بہاء اللہ،ٹیبلٹس آف بہاء اللہ،صفحہ ۱۴۱)

دوسری صدی عیسوی کے ایک فلسفی نے ایک مشہور یہودی ربّی میئرسے کہا کہ اسے اس بات پر یقین نہیں کہ اس دنیا کو خدا نے بنائی ہے۔

ربّی نے اُس فلسفی کو ایک خوبصورت نظم دکھائی۔ جب وہ فلسفی نظم پڑھ رہا تھا ، ربّی نے کہا کہ ایک بلی اتفافاً سیاہی کی ایک دوات سے ٹکراگئی  اوراس نے ،’’پوری دستاویزپر سیاہی  پھیلا دی جس کا نتیجہ یہ نظم ہے۔‘‘

فلسفی نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ایسا ہونا ناممکن تھا: ’’کوئی شاعرضرور ہوگا ۔ کوئی لکھنے والا ضرور ہوگا ۔‘‘

’’توپھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ کائنات خودبخود وجود میں آگئی ہے؟‘‘ ربّی نے کہا۔ ’’ایک مصنِّف ضرورہوگا ۔ ایک خالق ضرور ہوگا۔‘‘

یہ فلسفیانہ روایت و دلیلِ غائی یا ’’ارادہ سے دلیل‘‘کہلاتی ہے (اسے ’’زہین ارادہ‘‘ نامی غیر سائنسی نظریہ سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیئے)۔ دلیل غائی ایک دانا،   سب کچھ جاننے والا، سب سے بڑھ کر قوی خالق کی توثیق کرتی ہے جو بذات خود تخلیق سے ثابت ہے۔

سقراط، افلاطون، ارسطو،فلاطینوس،سِسرو، ایکوئِنَس،اسلامی ماہرالہیات الغزالی اوراس کافلسفیانہ حریف ابنِ رُشدسب نے ایک اعلیٰ ترین ہستی کے وجود کی الہیاتی دلیل پیش کی ہیں۔یہ خیال بذاتِ خودہمارے علم سے زیادہ پُراناہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ اتنے بہت سارے لوگوں کے لئےاتنا وَجدانی ہے کہ یہ   ہزاروں سال سے قائم رہاہے۔یہ فطرتی الہیات کے اہم ترین ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس کی منطق سادی ہے اورخاص کرجب اسے جدیدسائنس کےحالیہ انکشافات سے جوڑاجائے تو اس کا رَد کیا جانا مشکل ہے:

  • اس کائنات کے خوبصورت تناست اوربناوٹ کے تین ذرائع ہوسکتے ہیں: جسمانی ضرورت، اتفاق یا منصوبہ۔
  • ہم سائنسی اورحتمی طورپرجانتے ہیں کہ کائنات کےیہ نفاست سے ہم آہنگ کئے گئے قوانین جسمانی ضرورت یا اتفاق کی وجہ سے نہیں۔
  • لہٰذہ کائنات کا موجودہونا ایک منصوبے کی وجہ سے ہے، جس کا مطلب ہے کوئی منصوبہ بنانے والا ہے۔

چلیں ہم اس دلیل پر کچھ زیادہ گہرائی سے نظرڈالتے ہیں۔ امکاناً صرف گزشتہ تین یا چار دہائیوں میں یعنی نسبتاً حال ہی میں سائنسدانوں نے  یہ انکشاف کیا ہے کہ نیچر کے قوانین کوریاضیاتی مساوات میں ظاہر کرنا بعض کانسٹنٹس(constants)پیدا کرتا ہے جیسا کہ کشش ثقل کی کانسٹنٹ (gravitational constant) ۔  سائنسدنوں نے سیکھا ہے کہ یہ صفات(values) اصل میں نیچرکے قوانین سے آزاد ہیں ۔ اور وہ خودکو زندگی کی اجازت دینے والے حالات کی ایک انتہائی تنگ حد میں خود کومرکوز رکھتے ہیں۔حتٰی کہ ان کےایک چھوٹے سے حصّے میں تبدیلی کرنا بھی نیچر کے توازن کو بگاڑ دیتااور زندگی باقی نہ رہ سکتی۔  تمام جسمانی کانسٹنٹس کےوہ فرق کیا ہیں جن کا چھوٹے چھوٹے درست حد میں رہنازندگی کی وجود کی اجازت دیتا ہے؟ سائنسدان کہتے ہیں کہ وہ اتنے چھوٹے ہیں کہ کسی حساب میں نہیں آتے۔

بہائی تعلیمات خدا کی ہستی کے بارے میں دلیلِ غائی(teleological argument)سے متفق ہیں اور اس میں شعور کے اضافی اور انتہا اہم عنصرکا اضافہ کرتی ہیں:

۔۔۔ فطرت ایک دانشمندانہ تنظیم، ناقابل خلاف ورزی قوانین،کامل ترتیب اورمکمل دستورکےماتحت ہے، جن سے یہ ہرگزنہیں ہٹتی۔

تاہم جب تم بذات خودفطرت پر غور کرتے ہو تو دیکھتے ہو کہ اس میں نہ آگاہی ہے اورنہ ہی ارادہ۔ مثلاً آگ کی فطرت جلاناہے؛ یہ بغیرارادہ یا شعورکے جلاتی ہے۔ پانی کی فطرت بہنا ہے؛ یہ بغیر شعور یا ارادہ کے بہتا ہے۔ سورج کی فطرت روشنی دینا ہے؛ یہ بغیر ارادہ یا شعور کے روشنی دیتا ہے۔ بھاپ کی فطرت  اوپرکی طرف اٹھنا ہے؛ یہ بغیر شعور یا ارادہ کے اوہراٹھتا ہے۔ پس یہ ظاپرہے کہ تمام مخلوقات کی فطری حرکات جبری ہیں اورحیوانات اورخاص کرانسان کے علاوہ کوئی چیزخوداپنی مرضی سے حرکت نہیں کرتی۔

اب کیا ایسی تنظیم، ترتیب اور قوانین کوجنہیں تم موجودات میں مشاہدہ کرتے ہوفطرت کے زیراثر کہا جاسکتا ہے، حالانکہ خودفطرت نہ تو شعوررکھتی ہے نہ سمجھ؟  پس یہ ظاہر ہے کہ یہ فطرت جو نہ توشعوررکھتی ہے نہ ہی سمجھ   اس قادر مطلق خدا کی مٹھی میں ہے جو عالم فطرت کا حکمران ہے اورجو اس سے وہی کچھ ظاہر کرواتاہے جو وہ چاہتا ہے۔

حضرت عبدالبہاء، مفواضات (نیا نظرثانی شدہ ایڈیشن)، انگریزی صفحات۳تا۴

اس موضوع پرہماری ابتدائی گفتگو جب شروع ہوئی تھی تب میری دوست  خود کو ایک مخلص متشکک(skeptic) سمجھتی تھی  جو مخلوق اور کسی ممکن خالق کے بارے میں  مضبوط لااِدری (agnostic) نظریہ  رکھتی تھی۔ایک اعلیٰ ترین ہستی کی موجودگی کی  ان کائناتی، اخلاقی ، وجودیاتی اورالہٰیاتی دلیلوں  کی  قوی منطق کے بارے میں وہ جس قدر زیادہ سوچتی گئی اسی قدر زیادہ وہ قائل ہوتی گئی۔   اس نے بعد میں مجھ سے کہا، ’’مجھے احساس ہوا کہ میرا ذہن  ایک خالق کی موجودگی کو ماننے لگا تھا لیکن  اب صرف جو چیز مجھے خداپرایمان لانے سے  روک رہی تھی وہ میرے والدین کے روائتی دین کے  بارے   میں میرے بچپن کے احساسات ہیں۔

یقیناً وہ روائتی عقائد اکثر خدا کو ایک خوفناک، غضبناک ہستی کے طور پر پیش کرتے ہیں  جس کی خواہشیں اور متشدّد غصّہ قدرتی آفات یا فوری طورپرابدی جہنم میں بھیجے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔   ایک اعلیٰ ترین ہستی کا یہ پرانا تصوربذاتِ خود  ادیان کی تعلیمات سے زیادہ دینی قائدین  کی طرف سے آیا جو خوف دلا کراپنے  لوگوں پر حکمرانی کیا کرتے تھے۔لیکن اس کے باوجود ایک اعلیٰ ترین ہستی    کا اُس سہل پسندانہ اور غلط تصورکی جڑ یں عوامی شعور میں پختہ ہوگئیں اور  اس کا نتیجہ بہت سوں کے  خدا کے وجود کے بارے میں  فکری اور عقلی انکارکے طورپر نکلا۔

آج  وہ کھلے ذہن کے لوگ جو قدرتی الہٰیات(natural theology) کے دلائل   کااحتیاط سے جائزہ لیتے ہیں اور قدرتی کائنات کی سائنس پر گہری نظر ڈالتے ہیں  ممکن ہے کہ وہ بھی میری دوست کی طرح  اسی بات کا انکشاف کریں گے کہ اب وہ ایک خالق کے بغیر مخلوق کا نہیں سوچ سکتے۔

∞∞∞∞∞

اس سلسے کا آئندہ مضمون: خدا کی ہستی کے بارے میں نئےسائنسی دلائل کی کھوج لگانا
تحریر: ڈیوڈلیگنس، ترجمہ: شمشیرعلی
سورس: بہائی ٹیچنگز
اس مضمون میں شامل خیالات ونظریات لکھاری کے ذاتی خیالات ونظریات ہیں۔ ان سے ’افکارتازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *