کیاانسان روحانی طورپربھی ارتقاءکرتاہے؟

posted in: سائنس | 0

ارتقاء کا قانون یہ ہے کہ جو سب سے قوی ہے وہ باقی رہتا ہے ! جی ہاں ، اور سماجی نسلوں کے وجود میں سب سے قوی وہ ہیں جوسب سے زیادہ سماجی ہیں۔ انسانی اصطلاح میں سب سے بڑھ کراخلاقی۔ ایک دوسرے کو دُکھ پہنچاکر سے کوئی طاقت حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ صرف کمزوری ملتی ہے .

(اُرسلا لی گوئین)

darwin
چارلس ڈارون

 ڈارون کا نظریہ ارتقاءاوردنیا پراس کے بے پناہ اثر کی کہانی سے اکثرلوگ واقف ہیں۔ ہم جانتےہیں کہ انیسویں صدی کے سائنس نے کسی قدرطاقت سے لوگوں کے دینی ادراک کو بدل دیا تھا ، گذشتہ عقائد پرسوالات اٹھائے تھے اور حتیٰ کے خدا کے بارے میں غالب حکمت کو بھی للکارا تھا ۔

لیکن خودسائنسدانوں کے علاوہ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ جنسوں کی تبدیلی اور بقائے اصلح کے بارے میں اس عظیم سائنسدان کے اخذ کردہ نتائج کو بعد کے آنے والے محققین نے ایک بہت زیادہ تفصیلی، مطالع اور علمی نظر سے دیکھا تو کیا ہوا ۔

سائنسدان 1930 اور 40 کی دہائیوں میں ڈارون کے اصل ماڈل میں کئی نمایاں تبدیلیوں پر عام طور پر راضی ہو گئے اور اس نئے نظرئے کا نام ”The Modern Evolutionary Synthesis“ (نئی ارتقائی ترکیب)[یا محض ترکیب] رکھا۔ ان کے سب پرغالب تصور نے تحقیق کے اُن اضافی اطلاعات کوبھی شامل کیا جن تک ڈارون کو رسائی نہیں تھی مثلا ً نسلیات (Genetics) ، بشریات (Anthropology) ، قدیم حیاتیات (Paleontology) ، نباتیات (Botany) اورماحولیات کانسبتاًنیا سائنس۔ اور ان انکشافات کوارتقاءاوربقائے اصلح کے تصور کے ایک Multi-disciplinary تصور (کثیر شعبہ جاتی تصور ) میں جوڑ دیا جسے سائنس آج کل استعمال کرتا ہے ۔

یہ نئی ترکیب (Synthesis) ڈارون کے خیالات میں سے چند کو شامل کرتی ہے لیکن انفرادی جہد بقا پر اس کی اصل اصرار سے ہٹ جاتی ہے اور اس کی بجائے باہمی مفاد کے لئے زندہ وجودوں کے آپس میں تعاون کے سائنس کی پُر زور تائید کرتی ہے۔ زندگی کی انفرادی صورت مثلاً ایک واحد خلیہ پر توجہ دینے کی بجائے سائنسدان اب کُل فطرتی آبادی کے پیرائے میں سوچتے ہیں۔ خواہ عالم نباتات میں ہوں، عالم حیوانات میں ہوں یاعالم انسانی میں وہ آبادیاں ایک بڑی وسیع جینیاتی تنوع رکھتی ہیں۔ یہ تنوع محض فرد کی بقا سے بڑھ کرفوائدکی حامل ہےاورایک بہت وسیع طریقے سے نسلوں کی بقا کے مفاد میں کام کرتی ہے۔ جہاں ڈارون کا نظریہ مائیکرو (چھوٹا) پر توجہ مرکوز کرتا تھا مثلاً ایک خلیہ، ایک پرندہ یا ایک کچھوا۔ یہ نئی ترکیب (Synthesis) میکرو (بڑے) پر توجہ مرکوز کرتی ہے جوکُل کو بیان کرتی ہے یعنی کسی زندہ وجود کی ماقوف سماجی زندگی کے باہم منحصرخطہ ء حیات (Ecosphere) پر۔

ان ارتقائی انکشافات میں سے بہت ساری بیسویں صدی کے اوائل میں شیکاگواسکول پر ہوئیں جہاں فریڈرک کلے منٹس (Fredric Clements) جیسے سائنسدانوں نے سب سے پہلے یہ انکشاف کیا کہ پودوں کا ایک گروہ آپس میں سے مل کر ایک ”اعلی تر زندہ وجود“ کے طور پر کام کر سکتا ہے جس میں شامل ہرایک درخت دوسرے سے استفادہ کرتااوراس کی مدد کرتاہے۔ کلے منٹس کی تحقیق نے دیکھا یا کہ زندہ چیزوں میں سب یکے بعد دیگرمرحلوں پرایک خاص انداز میں سماجیں بناتی ہے؛ آغاز سے لیکر قوت نمایانہ بڑھوتری (Exponential Growth) کے مرحلے میں اورپھر خود منضبط حالت توازن تک۔ حتیٰ کہ انفرادی خلیوں تک اسی طرح بڑھتی ہیں یعنی اپنی بڑھوتری کواس وقت زیادہ سے زیادہ بڑھاتے رہنا جب تک وہ اپنے ماحول کی حدوں تک نہ پہنچ جائیں ۔ اس سماج میں انفرادی زندہ وجود پیدا ہوتے ہیں ، بڑھتے ہیں ، بالغ ہوتے ہیں ، اور مر جاتے ہیں لیکن بذات خود سماج باقی رہتا ہے ۔ اگر سماج صحت مند ہو تو پھلتا پھولتا اور ترقی کرتا رہتا ہے اورمحض اپنے حصوں کے مجموعہ سے زیادہ کچھ ہوتا رہتا ہے ۔

سائنسی طور پر اب ہم یہ جانتے ہیں کہ ہر زندہ چیز کی ترقی میں بقائے اصلح کا ایک محدود کر دار ہے اور یہ کہ پھلنے پھولنے کے لئے ہر زندہ چیز کوایک سماج کی بھی حاجت ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ کسی زندہ خطہ ئ حیات میںاکژ وہی سب سے بہتر فرد ہوتا ہے جو بہترین انداز میں سماج سے مطابقت رکھتا ہے۔

یہ جدید ارتقائی ترکیب ،جو انفرادی زندہ وجود کی بجائے زندہ چیزوں کے سماج کے کردار پر زور دیتی ہے ، حیرت انگیز طور پر بہائی تعلیمات کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہیں۔ بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ انسان اگراپنی زندگی کو ذہنی ، اور روحانی حقائق پر مر کوز کرے تو وہ طبعی دنیا پر لاگو شدہ فطری حدوں اور بقا کے لئے اس کی کشمکش سے آگے بڑھ سکتا ہے!

”روح اگر خود کو مادی دنیا کے مطابق کرتی ہے تو تاریک رہ جاتی ہے کیونکہ عالم فطرت میں بد عنوانی ، ظلم ، جہد ہائے بقا ، لالچ ، تاریکی ، تجاوز اور بدی ہے۔ رو ح اگر اس مقام  پر رہ جاتی ہے اور ان راہوں پر آگے بڑھتی ہے تو یہ ان تاریکیوں کی حاصل کنندہ ہوگی ؛ لیکن اگر یہ دین کی دنیا کے فضائل کی وصول کنندہ بنتی ہے تواس کی تاریکی روشنی میں تبدیل ہوجائے گی ، اس کا ظلم انصاف میں ، اس کی جاہلیت حکمت میں اور اس کی جارحیت پُرمحبت مہربانی میں بدل جائے گی حتیٰ کہ یہ اپنی چوٹی تک جا پہنچے۔ تب کوئی جہد بقا باقی نہیں رہے گی۔ آدمی خود پسندی سے آزاد ہوجائےگا ؛ وہ مادی دنیا سے آزاد کر دیا جائے گا ؛ وہ انصاف اور اچھائی کا پیکربن جائے گا ؛ کیونکہ ایک مقدس روح ابنائے آدم کو زندگی بخشتی ہوئی اور سب قوموں کو کامل اتحاد کے مقام تک پہنچنے میں مدد دیتی ہوئی انسانیت کو منور کردیتی ہے اور یہ نوع بشر کے لئےایک افتخارہے۔

(حضرت عبدالبہاء، ڈیوائن فلاسفی ، صفحہ 120)

یہ ثابت کرنے کی خا طر کہ وہ عالم حیوانی سے ممتاز ہے آدمی کو لازماً رفاقت و محبت سے کام لینا چاہئے۔ اگر وہ لڑائی اور جنگ و جدل میں مصروف ہو تو وہ جانور سے بہتر نہیں۔ لڑائی ایک حیوانی رجحان ہے ، فطرت کی ایک خصوصیت ہے ، کیونکہ فطرت بقائے اصلح کے طابع ہے ، جو ہمیشہ دشمنی ، نفرت اور جنگ و جدل کی وجہ بنتا ہے ۔۔۔

انسان کو خدا کی تعلیمات کے مطابق تعلیم دی جانی لازم ہے تاکہ اسے روحانی خوبیاں ، شعور کی کشش ، رفاقت اور محبت کے حصول کے قابل بنایا جا سکے۔ فطرت جارحیت پسند ہے۔ فطرت جبرکی طرف مائل ہوتی ہے۔ فطرت ظلم کی طرف مائل ہوتی ہے۔ فطرت اجارہ داری کی جانب مائل ہوتی ہے۔ یہ سب فطری میلانات ہیں جن کی تربیت لازم ہے۔ انسان کواتحاد ، ہم آہنگی اور محبت کے ساتھ زندگی بسرکرنی چاہئے کیونکہ انسان کا افتخارکا انحصارذہنی امکانات کے فطری احساسات پر قابو پانے پر ہے۔

ذہن عد ل کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ، فطرت قوت کے مطابق ؛ عقل یک جہتی ، رحم اور محبت کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔ اس کے برعکس فطرت پر جہد بقا کی حکمرانی ہے جبکہ انسان کا امتیاز اس قسم کے قانون سے پاک رہنا ہے۔ پس عالم انسانیت کوایک واحد کی طرح ، محبت کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہئے کیونکہ انسان کا افتخار ان خوبیوں کی حصول میں ہے جو خدا کے تصور اور مشابہت کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ انسان کا ابدی افتخار ہے۔ یہ انسان کی رفعت ہے۔ یہ انسان کی ابدی زندگی ہے۔

(حضرت عبدالبہا، ایلا کو پر نے سانفرانسسکو میں دی گئی2 اکتوبر 1912)

آئندہ پوسٹ: انفرادی ، موروثئ اورگروہی ارتقا۔

(یہ مضمون BAHAITEACHINGS.ORG کے لئے ڈیوڈ لینگنس نے تحریر کیا۔ شمشیر علی نے اسے ترجمہ کیا۔ اس میں پیش کئے گئے خیالات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں۔ یہ لازما افکار تازہ یا امر بہائی کے کسی ادارے کی رائے ظاہر نہیں کرتے۔)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *