کیا صرف طاقتور باقی بچتے ہیں؟

posted in: سائنس | 0

کیا آپ جہد بقاء ( struggle for existence ) پر یقین رکھتے ہیں؟ مقابلہ(competition)؟ بقائے اصلح (survival of the fittest)؟

آج کل بیشتر لوگ ایسا ہی مانتے ہیں۔ ڈارون، ہوبس، مالتھوس اور بنجامن فرنکلن تو یقیناً اس پر یقین رکھتے  تھے۔  یہ انہی چاروں افراد اور چند اور افراد کی مرہون منت ہے کہ اب جہد بقاء کا نظریہ بیشتر جدید سوچ پر چھایا ہوا ہے۔  کم از کم مغربی دنیا میں تو ایسا ہی ہے اور اب مشرقی دنیا میں بھی یہی سوچ سرایت کرتی جا رہی ہے۔  یہ ہمارے شعور کا حصہ بن چکا ہے۔ لہذا بہت سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ’ بقائے اصلح‘ فطرت کا ایک ناقابل شکست قانون ہے۔ ڈارون نے اپنی کتاب Origin of Species(جنسوں کا آغاز) کے تیسرے باب میں جو نظریہ ارتقاء پیش کیا ہے یہ  عبارت اس کے قلب کے طور پر مشہور ہے۔

’’زندہ مخلوقات خود کو بے تہاشا بڑھانے کی جانب مائل ہوتی ہیں۔ اس طرح ہندسی اضافہ کے اصول پر اس کی تعداد میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوجائے کہ کوئی ملک اس پیداوار کو نہ سنبھال سکے۔ لہذا ایک جہد بقا کا ہونا  ناگزیر ہے۔ چونکہ جتنے افراد باقی رہ سکیں اس سے زیادہ پیدا ہوتے ہیں ہر معاملہ میں ایک جہد بقا کا ہونا لازم ہے۔ یہ جدوجہد یا کشمکش یا توایک ہی جنس کے ایک فرد کا دوسرے کے ساتھ ہو یا ایک نوع کی جنس کا دوسری نوع کے ساتھ یا پھر زندگی کے طبعی حالات کے ساتھ۔ ‘‘

(Darwin, Origin of Species, pp. 60-61)

ممکن ہے کہ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ ڈارون اس خیال کا موجد نہیں تھا۔ یہ تو نشاط ثانیہ اور روشن خیالی کے دور کے مفکرین تھے مثلاً تھامس ہوبس جس نے اپنے مضمون لیویاتھن ( Leviathan) میں ’’ہرایک کے خلاف ہر ایک کی جنگ‘‘ کا نظریہ پیش کیا تھا۔ ایک اور اتنے ہی مؤثر کام An Essay on the Principle of Population (آبادی کے اصول پر ایک مضمون) میں رابرٹ مالتھوس نے ’Malthusian Curve‘ (مالتھوسین خم) کھینچا تھا جس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ اگر قابو میں نہ رکھی جائیں تو زندہ آباد یاں ہندسی اضافے (geometrical increase) کی طرف مائل ہوتی ہیں اور جلد ہی دستیاب وسائل سے بڑھ جاتی ہیں۔ مالتھوس نے بنیادی طور پر یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ اس سیارے کے محدود وسائل ہمارے لئے یہ لازم کر دیتے ہیں کہ زندہ اور باقی رہنے کی خاطر ہمیشہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے رہیں۔

یہ خیالات ناقابل یقین حد تک قوی ہو چکے ہیں اور اس قدر وسیع پیمانے پر انہیں مانا جانے لگا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ جہد بقا اور مقابلہ کو ہماری فطری انسانی حالت کے حصے کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ پوری کی پوری ثقافتیں اور نظام جو آج دنیا بھر میں اس طرح نفوذ حاصل کر چکے ہیں مثلاً سرمایہ دارا نہ اقتصادیات جہد بقا اور مقابلہ کے انہی فلسفیانہ بنیادوں پر ٹکا ہوا ہے۔ اپنی جارحانہ ثقافت میں جو بقائے اصلح پر اصرار کرتا ہے ہم اپنے بچوں تک کو بہت ہی چھوٹی عمر سے ہی مقابلہ کرنا سکھاتے ہیں:

’’کسی بھی معاشرے کا طرزِعمل اس میں عام طورپرمقبول اورسرایت کردہ خیالات کے مطابق ہوتا ہے۔ کسی ثقافت میں جو اندازہائے فکرعام ہوں مثلاً اس کی فرسودہ ذہنی عادتیں اس معاشرے کے کاموں اور لوگوں کے طرزِ عمل پرکافی اثراندازہوتی ہیں۔

مثال کے طور پراگرکوئی معاشرہ اس یقین پر قائم ہو کہ زندگی زندہ رہنے کے لئے ایک تقابلی کشمکش ناگزیرہے وہ اپنی اقتصادیات، اپنا تعلیمی نظام، اپنی سماجی خدمات، اپنے تحفظ کے وسائل ایسے کسی معاشرے سے بالکل مختلف اندازمیں منظم کرے گا جواس یقین پر قائم ہو کہ خدمتِ باہمی اور رعائت باہمی زندہ مخلوقات کے لازمی خصائل ہیں۔ یہ ماننا کہ انسان محض تصنع والے( sophisticated) جانورہیں تجارت، حکومت اور قانون کے ایسے اصولوں کی طرف لے جاتا ہے جو اُن سے بہت مختلف ہیں جن کا ماننا یہ ہے کہ انسان خدائی صفات منعکس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہ صفات صرف  شعوری ارادے کےعمل کے ذریعہ آشکارہوسکتی ہیں۔ خیالات، خواہ وہ برے ہوں یا اچھے، معاشرے کے ڈھانچے اور نمونے سے ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘

(Hooper Dunbar, Forces of Our Time, p. 27)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بڑے پیمانے پر مانے جانے والے نظریات ضرورت سے زیادہ سہل پسندانہ یا واضح طور پر غلط ہو تو کیا ہو؟ اگر بقائے اصلح کا نظریہ مزید ٹھیک نہ آرہا ہو تو کیا ہو؟ ان حالیہ انکشافات کے بارے میں کیا جنہوں نے بقائے اصلح  کے پورے خیال کوہی بدل کر رکھ دیا ہے۔  اور اگر ہماری سوچ ٹھیک طور پران انکشاف تک نہ پہنچی ہو تو کیا ہو؟

مضامین کے اس سلسلے میں ہم بقا کے لئے جہدِ انسانی کے اس بنیادی تصور کا ایک محتاط جائزہ لینے گے۔ انفرادی سطح پر فطرت (nature)سے شروع کریں گے۔ اس کے بعد حیوانی اور انسانی معاشروں کو جانچیں گے تاکہ دیکھیں  کہ کیا ایک ہی مفروضہ نظریہ  وہاں بھی لاگو ہو تا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ جدید علمائے سائنس نے بقائے اصلح کے تصوراتی ڈھانچے کی جگہ ایک اور تصوراتی ڈھانچے کو کیوں دے دی ہے یا  زندگی کے پیچیدہ عمل کو سمجھنے کا اس سے زیادہ مسحور کن طریقہ  سے کیوں بدل دیا ہے؟  ہم اس ابھرتے ہوئے علم کا تجزیہ بھی کریں گے جو اس بارے میں ہے کہ ماحول اور ما حولی نظام کس طرح کام کرتے ہیں اور دیکھیں گے کہ کیا ان شعبوں پر جہدِ بقا  کیسے لاگو ہوتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ہم معلوم کریں گے کہ ان سب کا ہماری روحانی زندگی سے کیا سروکار ہے اور کمی، بقا اور مقابلہ کے تقریباً عمومی تصور کے بارے میں بہائی نقطہ نظر کا جائزہ لیں گے۔

مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ  بہائی بقائے اصلح کے خیال کو ایک مضبوط سائنسی نظریہ کے طور پر دیکھتے ہیں جو مادی دنیا کے بیشتر ارکان کے لئے درست ہے لیکن یہ عالمِ انسانی پر ہمیشہ لاگو نہیں ہوتا۔ بہائی یہ مانتے ہیں کہ انسان بقائے اصلح کے فطرتی قانون  کے ماورا جا سکتے ہیں اور حقیقت میں ایک تعاون کرنے والا، متحد اور ہم کاری والا معاشرہ قائم کر سکتے ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔  بہائی تعلیمات کہتے ہیں:

’’عوام الناس اپنی ذات اور دنیاوی خواہشات میں مصروف ہیں۔ عالمِ اسفل کے سمندرمیں غرق ہیں بجزاُن نفوس کےجن کو مادی دنیا کی زنجیروں اوربیڑیوں سےآزاد کرا لیا گیا ہے۔ وہ تیزاُڑنے والے پرندوں کی طرح لامحدود فضا میں محوِ پرواز ہیں۔ وہ بیداراورچوکس ہیں۔ وہ عالمِ فطرت کی تاریکی سے بچتے ہیں۔ ان کی اعلٰی ترین خواہش لوگوں میں سے جہدِ بقا کو مٹانے پر، ملکوتِ اعلٰی کی روحانیت اورمحبت ظاہرکرنے پر، لوگوں میں انتہائی مہربانی سے پیش آنے پر، ادیان کے درمیان بے تکلفانہ اورقریبی تعلق کے حصول پراورایثارکے آدرش پرعمل کرنے پرمرکوزہے۔ تب جا کرعالمِ انسانیت کی کایا پلٹے گی اوریہ ملکوتِ الٰہی میں تبدیل ہو جائے گی۔‘‘

(عبدالبہاء، سیلکشن فرام دی رائیٹنگزآف عبدالبہاء،صفحہ ۲۸۱)

’’عالمِ فطرت میں ہم زندہ نامیاتی اجسام میں ایک مسلسل جہد بقا دیکھتے ہیں۔ ہمیں ہرجگہ اصلح کی جسمانی بقا کے شواہد کا سامنا ہوتا ہے۔ انسانوں کی فہم  اورنظریات میں غلطی اورغلط فہمی کا اصل سبب یہ سمجھنے میں ناکامی ہے کہ عالمِ فطرت ذاتی طور پرعلت اورنتیجہ میں ناقص ہے اور یہ کہ اس میں موجود نقص کوتربیت کے ذریعے دور کیا جا نا لازم ہے۔‘‘

(عبدالبہاء، پراملگیشن آف یونیورسل پیس، صفحہ ۳۹۷)

ہم مضامین کے اس سلسلے میں ارتقاء کے بارے میں موجودہ سائنس اور ہماری زندگیوں سے ان کی براہ راست تعلق کو سمجھنے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے جائیں گے کہ ہماری روح کے لئے اس کی کیا اہمیت ہے۔ گزارش ہے کہ جوں جوں اس بارے میں ہم آگے بڑھتے جائیں آپ مضامین کے اس سلسلے پر نظر رکھیں۔

اس سلسلے کا آئندہ مضمون: شاہین کوّا اورفطرت کی سفاکی

 
مترجم شمشیرعلی۔

اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات لکھاری کے ذاتی خیالات ہیں۔ یہ ضروری طور پر افکار تازہ یا امر بہائی کے کسی ادارے کی رائے ظاہر نہیں کرتے۔ اسے ڈیوڈ لگنس [David Lagness] نے تحریر کیا اور<BAHAITEACHINGS.ORG> پر شائع کیا۔
 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *