ارتقاء اور معاشیات : امارت اور غربت کی انتہاؤں کو مٹانا

posted in: ثقافت | 0

دوسرےادیان کے برعکس امربہائی دنیاکومعاشی اصولوں کا ایک سیٹ پیش کرتا ہے۔ انصاف ، ایمانداری اوراتحاد کو ترویج دینے کی خاطر پیش کئے گئے وہ اصول سرمایہ داری، سوشلزم یا کمیونزم کے موجودہ  معاشی ماڈلوں میں سے کسی کی وکالت نہیں کرتے۔ اس کے بجائے بہائی معاشی  آئیڈیلس ان نظاموں کے بہترین اور قابل عمل عناصر کو ایک متوازن اور روحانی طریقہ کار میں یکجا کرتے ہیں جو انسانی جہد بقاء کے اثرکو انتہائی کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

جدید دنیا میں ہماری زندگیاں اتحاد اور تعاون کی بجائے جد وجہد اور مسابقہ پرانحصار کرنے لگی ہیں۔ بھوک اور غربت کے خوف سے مغلوب ہوکر بہت سے نفوس مصائب میں مبتلا ہیں جبکہ اُن کی روحیں ایک ہم آہنگ اور پُر محبت انسانی اکائی کی بجائے ڈارونیت کی جہد بقاء کودنیا کا غالب قانون سمجھتی ہیں۔

بہائی تعلیمات کہتی ہیں کہ نوع بشر اپنےمعاشی نظاموں کو بہتر طورپر منظم کر سکتی ہے تاکہ ہماری جدوجہدکوکم اور ہمارے اتحاد کوحاصل کر سکے۔ جہد بقاء کے نظریہ پرسختی سے اور مکمل انحصارکرنے کی بجائے ہم اپنی فطرت کی روحانی پہلوؤں کی طرف دیکھ سکتے ہیں نیز اُس دُکھ کو گھٹانے اورمٹانے کے طریقےبھی معلوم کر سکتے ہیں جو بھیانک ضرورت سے پیداہوتی ہے:

’’حضرت بہاءاللہ کا چوتھااصول ۔۔۔ نوع بشر کے معاشی معیارات کی تشکیل نو اور(ان میں)تفاوت کم کرنا(equalizationہے۔ اس کا تعلق انسانی ذریعہ معاش کے سوال سے ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ نظام اورحکومت کے حالات کے تحت غریب انتہائی  ضرورت اور تکلیف میں مبتلا ہیں جبکہ دوسرے جوزیادہ خوش نصیب ہیں وہ تعیش اوراپنی حقیقی ضرورت سےبہت بڑھ کر فراوانی میں۔ حصہ اور استحقاق میں عدم مساوات انسانی معاشرے کے گہرے اور اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس طرح سے تفاوت گھٹانے اور بٹوارے (apportionment)کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے سب (لوگ) زندگی کی آسودیاں اور سہولیات کے مالک ہو سکیں۔ یقیناً اس کا علاج لازمی طورپریہ ہے کہ حالت میں برابری پیدا کرنے کی خاطرقانون سازی کی جائے۔ امیروں پر بھی لازم ہے کہ کسی زور و جبر یا ایسا کرنے کے لئے مجبورکئے گئے بغیردل سے راضی ہو کراُن کی ضرورتوں کے لئے مدد کرتے ہوئے غریب ہروربنیں۔ نوع بشر کی دینی زندگی میں اس اصول کو قائم کرکے سکون کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء، پروملگیشن آف یونیورسل پیس، صفحہ ۱۰۷)

ارتقاء اور معاشیات

بنیادی بہائی معاشی تعلیمات ،جنہیں حضرت بہاءاللہ اورحضرت عبدلبہاء نےجگہ جگہ اورمختلف حوالوں سے دہرایاہے،نوع بشرسےغربت اورامارت کی انتہاؤں کومٹانےکاتقاضاکرتی ہیں۔ تاہم وسائل کی اس طرح کی ایک رضاکارانہ تقسیم نوقانون سازی کے ذریعہ علاج یا زبردستی اجباری معاشی ترتیبات کامحض ایک سادہ ساحل تصورنہیں کرتی۔ بلکہ یہ امیروں اورغریبوں کے درمیان تعلقات کی ایک روحانی اصلاح،اتحادورفاقت اوربین العمل کے نئے احساس کا تصورکرتی ہے یعنی یہ احساس کہ ہم سب ایک ہی انسانی گھرانے کے افرادہیں۔

حضرت عبدالبہاء اکثر کہا کرتے تھے کہ معاشروں کوایک بنیادی کم ازکم معیارزندگی قائم کرنی چاہئےجس سے نیچے کوئی نہ جا سکے؛ اورزیادہ سے زیادہ انفرادی ثروت کی حدبھی مقررکرنے کے طرقے معلوم کرنے چاہئیں۔ بہائی تناظرسے کسی بھی شخص کواپنی اور اپنے وابستگان کے لئےناکافی روزگارکمانے کے لئے دیرتک سخت محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ اسی طرح معاشرے کو چاہئے کہ وہ کسی شخص کواکیلےبہت زیادہ دولت کے انتظام اورفکرمندی کابوجھ نہ اٹھانے  دے۔ آج کل دنیاکی انتہائی ترقی یافتہ قوموں میں نوع بشرنےان مستحسن اہداف کے حصول کی راہیں معلوم کرنا شروع کردیاہے۔اُن معاشروں نے محسوس کیا ہے کہ انتہائی غربت صرف خودغریبوں پرہی نہیں بلکہ پوری ثقافت پردردناک بوجھ ڈالتی ہے۔دردناک غربت احتمالاً بے اندازہ مصیبت، بھوک  اورانسانی صلاحیت کانقصان لاتی ہے۔ یہ مجموعی معاشی   ترقی اور نمو میں رکاوٹ بنتی ہے، عوامی بحران صحت پیداکرتی ہے، جرم اور تشدد میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے اور بالآخراس کا ازروئے علامت اور مسلسل علاج  اس کو مٹانے کے مقابلے میں زیادہ مہنگا پڑ سکتاہے۔

دنیابھرمیں بہت زیادہ امیراوراستحقاق یافتہ لوگوں میں انسان دوستی اوررضاکارانہ طورپر دینےکابہائیانہ جذبہ بھی بڑھتا جارہاہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں خاص طورپرسب سے زیادہ ضرورت مندوں کی ضرورتوں کوپوری کرنے والےمقاصدکےلئےرفاہی امدادمیں ڈرامائی اضافہ ہواہے۔

غربت مٹانےاورجہدبقاء کومٹانے میں ہرایک کے لئے بڑے فوائدہیں اور وہ فوائد سادہ معاشی خوشحالی سے بہت بڑھ کر ہیں۔ غربت مٹانے کے عمل سےامیروغریب اوران کے درمیان کے سب لوگوں کے لئے جو روحانی ترقی آتی ہےوہ خوشی واطمینان اوراتحاد پیداکرتی ہے۔ جب آپ خوداپنےخاندان کےکسی رُکن کی مدد کرتے ہیں،جب آپ ایک بچے کو تعلیم دیتے،کھلاتے پلاتے یاکپڑے پہناتےہیں تویہ عمل آپ کی روح کی گہرائی میں کسی چیزکوتسکین پہنچاتاہے۔ جب آپ انسانی خاندان کے کسی رُکن کی مدد کرتے ہیں توبھی ایساہی ہوتاہے۔

بہائی تعلیمات مستقبل میں معاشرےکی ایک ایسی حالت کاتصورکرتی ہیں جس میں یہ نئے روحانی اصول دردمندی،محبت اوررحمدلی کاایک بڑھتاہواجذبہ پیداکریں گے اور اسے قائم رکھیں گے:

’’انسانی دنیا خودکوایک نئے سماجی وضَح کے مطابق کرلےگی، تمام انسانی امورمیں عدل الہٰی آشکارہوجائےگا،اورمساوات بشرآفاقی طور پر قائم ہوجائےگی۔ غریب ایک عظیم نوازش حاصل کریں گے،اورامیرابدی خوشی پائیں گے۔ اگرچہ موجودہ دور میں امیر بہت زیادہ عیش وعشرت اور آرام کے مزے لوٹ رہے ہیں، تاہم وہ ابدی خوشی سے محروم ہیں؛ کیونکہ حقیقی خوشی تودینے سے مشروط ہے، اورہرجگہ غریب انتہائی حاجتمندی کی حالت میں ہیں۔

خداکے مظہرظہورکےعظیم انصاف کےذریعےدنیاکےغریبوں کوصلہ اوربھرپورمدد ملےگی، اورنوع بشر کےمعاشی حالات کی تشکیل نوہوگی تاکہ مستقبل میں کوئی بھی غیر معمولی طورپرامیرنہ ہو  اورنہ ہی انتہائی غریب۔ اس نئے معاشی نظام کی سہولت سے امیرلطف اٹھائیں گے اور ساتھ ہی غریب بھی۔ کیونکہ بعض شرائط اورپابندیوں کی وجہ سے وہ(امیر)اس قدرجمع نہیں کرپائیں گےکہ اس کے انتظام کے بوجھ تلے دب جائیں اورغریبوں کو حاجت اوربدحالی سےنجات ملےگی۔ امیراپنے محل سے لطف اٹھائے گا جبکہ غریب کا اپناآرامدہ جھونپڑاہوگا۔

(حضرت عبدالبہاء، پروملگیشن آف یونیورسل پیس، صفحہ ۱۳۱)

 

نوٹ:یہ جہد بقاء کے سلسلے کا چھٹااورآخری مضمون ہے

تحریر: ڈیوڈ لیگنس، .BAHAITEACHINGS.ORG. ؛ ترجمہ:شمشیرعلی

(مضمون میں ظاہر کردہ خیالات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں۔ ان سے افکار تازہ یاکسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *