خود کو فطرت کی قید سے رہائی دلوانا

اور حضرت بہاءاللہ کی تعلیمات میں ایک آدمی کی آزادی ہے ، کہ مثالی قوت(خدائی قوت) کے ذریعہ وہ عالم فطرت کی قید سےآزاداور نجات یافتہ ہو؛ کیونکہ جب تک آدمی فطرت کا قیدی ہے وہ ایک سفاک جانور ہے ، کیونکہ جہد بقاءعالم فطرت کی ایک ضرورت ہے۔ جہد بقاءکا یہ معاملہ تمام آفتوں کا سر چشمہ اور بزرگ ترین مصیبت کا سبب ہے۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء، سیلیکشن فرام دی رائٹنگز آف عبدالبہاء، صفحہ۳۰۲)

بہائی تحریریں انسانی جہد بقاءکو’’بزرگ ترین مصیبت‘‘ کہتی ہیں اور جو کوئی اس کٹھوردنیا میں ایسا کرتا ہے وہ اس کا مطلب خوب جانتا ہے ۔جب لوگوں کو فقط زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے تو زندگی ایک بھاری بوجھ بن جاتی ہے ۔اپنی ضرورتوں اور اپنے گھرانے کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان کی ضرورتوں سے مجبور ہو کر ہم یہ یقین کرنا شروع کر سکتے ہیں کہ زندگی جدوجہد کے علاوہ اورکچھ نہیں ۔یہاں تک کہ جہد بقاءانسان کو اپنی اخلاقی اور ذہنی معیارات کو کھو دینے پر مجبور کر سکتی ہے اور وہ ایسے مایوسانہ کام کر سکتا ہے جو وہ دوسری صورت میں کبھی نہ کرتا ۔انسانی کوشش اور صلاحیت کا بہت بڑا حصہ اس جدوجہد پر قابو پانے میں لگتا ہے ۔ پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس پر کیسے قابو پا سکتے ہیں ؟

بہائی تحریریں کہتی ہیں کہ ایک زمینی زندگی تنازعہ اور تصادم سے پُر ہے :

”یہ فانی مسگن ایسا ہی ہے: دکھوں اور مصائب کا ذخیرہ ۔ یہ جہالت ہے جو آدمی کو اس سے با ندھ کر رکھتی ہے ، کیونکہ اس دنیا میں بادشاہ سے لے کرانتہائی عام شخص تک کسی بھی نفس کے لئے تسکین کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اگر یہ زندگی ایک بار جام شیریں پیش کرتی ہے تو اس کے بعد سو تلخیاں ملتی ہیں؛ دنیا کی حالت ایسی ہی ہے۔ پس دانا آدمی اس فانی زندگی سے خود کو نہیں باندھتا اور اسی پر انحصار نہیں کرتا ہے۔۔۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء، سلیکشن فرام دی رائٹنگزآف عبدالبہاء، صفحہ ۲۰۰)

اس سے یہ مراد نہیں کہ بہائی تعلیمات یہ کہتی ہیں کہ ہم سب دوسروں کی جدوجہد اور دکھوں سے منہ موڑ لیں ۔  در حقیقت یہ ہم پر یہ ذمہ داری عائد کرتی  اور یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ ہم خود نوع بشر کے لئے اپنی بے لوث خدمت کے ذریعے ان دکھوں کو دور کریں:

”قرون وسطی کی تاریکی گزر چکی ہے اور یہ قرن نورانی شروع ہو چکا ہے ، یہ صدی جس میں چیزوں کی حقیقت ہم پرآشکار ہو رہی ہیں ، جس میں سائنس کا ئنات کے اسرار میں داخل ہو رہی ہے ، عالم انسانی کی وحدت قائم کی جارہی ہے ، اور نوع بشر کی خدمت تمام وجود کا سب سے بڑا جذبہ ہے۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء، پروملگیشن آف یونیورسل پیس، صفحہ ۳۶۹)

گذشتہ دو صدی تک سائنس نے اپنی توجہ عالم فطرت میں جہد بقاء پر مر کوز کی ہے ، اور بہت سے سائنسدانوں نے آخر کار پست تر عالم فطرت کے اصولوں کو انسانی زندگی کے لئے اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے نتیجے میں اب ہم دشمنی، مقابلہ اور تنازعہ کو ضروریات زندگی میں شمار کرنے لگے ہیں یعنی نسل انسانی کی ایک پیدائشی اور ذاتی خصوصیت۔

evo

  • دوسری طرف بہائی تعلیمات ہمیں کہتی ہیں کہ اگر ہم حقیقتاًارتقاء کرنا چاہتے ہیں توپیچھے عالم فطرت کی طرف دیکھنے کی بجائے ہمیں روحانی دنیا کی طرف دیکھنا ہی ہوگا ۔ عالم حیوان کو اپنی مثال بنانے کی بجائے ہم دنیا کے عظیم ادیان کے پیغمبروں کو اپنے رہنما کے طور پر قبول کریں تو زیادہ ایمانداری سے ہم اپنی انسانی سبقت کا عکس پیش کریں گے۔  بہائی نقطئہ نظر سے خدائی معلمیں اور پیغمبروں نے جو اتحاد، پیار، ہمدردی ،باہم دیگریت اور بیحد مہربانی سکھایا ہے وہ اپنی بقاء کے لئے حیوانی جدوجہد کے متضاد کی نمائندگی کرتا ہے:

’’پروردگار عالم نے اپنی  وسیع رحمت واسعہ اورلامحدود محبت کے سبب انبیائے کرام کوظاہر فرمایا اوراُن پر وحی نازل فرمائی تاکہ آسمانی  تربیت کے تلے افرادِانسانی نیچرکی  غلاظت اور جہالت کی تاریکی  سے آزاد ہوکر روحانی  صفات اور خوبیاں حاصل کریں اورجذبات رحم اور دردمندی کے مشرق بنیں۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء، حوالہ:ڈاکٹر جے ۔ای۔ایسلمونٹ کی کتاب بہاءاللہ وعصرجدید،صفحہ ۲۲۲)

ایک عارفانہ نقطئہ نظر سے بہائی تعلیمات نوع بشر کو ہماری ارتقائی پست فطرت سے ماوراء جانے کا راستہ دکھاتی ہے۔ ایک عالمی، سماجی طور پر آگاہ، نقطئہ نظر سے بہائی تعلیمات نوع بشر کو اصولوں کی ایک نئی  سیٹ پیش کرتی ہیں جو ہمیں ہماری مستقل جہد بقاء کو کم کرنے اور اہمیت نہ دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔ مثلاً مفلسی اور بے انتہاذاتی ثروت کے درمیان بے تحاشہ فاصلہ نزدیک کرنے کے ذریعہ اُن بار بار آنے والے بحران کو ختم کر کے جو دنیا کے معاشی نظاموں کو پریشان کر رہے ہیں اور ہماری سخی دنیا جو وسیع  دولت رکھتی ہے اس کی ایک عدل پسندانہ ، ایمان دارانہ ،قابل برداشت اور منصفانہ تقسیم فراہم کرنے کے ذریعے:

’’دنیا ایک مادر وطن ؛ اور پوری بنی آدم ایک باپ کی اولاد ہیں۔ خدا نے انہیں خلق کیا ہے، اور وہ خداکی رحمت کے وصول کنندہ ہیں۔۔۔ یہ ہمارے آسمانی باپ کی مرضی ہے کہ ہر دل مسرور ہو اور خوشی سے بھرا ہوا ہو ، کہ ہم آپس میں مسرت اور خوشی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ نسلی یا دینی تعصب ، مسابقتی جہد بقاء اور ایک دوسرے کے لئے بیدردی انسانی خوشی کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء ،  دی پراملگیشن آف یونیورسل پیس، صفحہ ۴۶۸)

اگر ہم اتحاد، اورامن و محبت کی بہائی تعلیمات کی شفا بخش دوا کا استعمال کریں، جس کی یہ دنیا بُری طرح ضرورت مند ہے، توہم خود کو مسابقتی جہد بقاء سے چھٹکارا دلا سکتے اور اس ہولناک مصیبت کو ختم کر سکتے ہیں جو انسانی گھرانے کے حصوں کو بُری طرح متاثر کرتی ہیں ۔

آئندہ مضمون: ثروت اور غربت کی انتہاؤں کو مٹانا ۔

نوٹ: یہ جہدبقاء کے سلسلہ کاپانچواں مضمون ہے۔ تحریر:  ڈیوڈلیگنس، بشکریہ BAHAITEACHINGS.ORG، ترجمہ: شمشیرعلی

 اس مضمون میں ظاہر کردہ خیالات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں۔ کسی بہائی ادارہ یا افکار تازہ کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *