خدا،علت و معلول

posted in: دین | 0

’’تاہم سب چیزجوخلق کی گئی ہے اس کےپیچھےایک علت (یاسبب)ہے۔ یہ حقیقت بذات خودکسی شک کے سایہ کےبغیرایک خالق کاثبوت قائم کرتی ہے۔‘‘

(حضرت بہاء اللہ،گلیننگزفرام دی رائیٹنگزآف بہاءاللہ،صفحہ ۱۶۲)

’’یقین جانوکہ ہرنظرآنے والی چیزکی ایک علت ہے۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء، دی ڈیوائن فلاسفی،صفحہ۱۰۷)

ایک دفع ایک بہت زیادہ عقلیت پسنددوست نے مجھ سے کہا، ’’خداتومیری سمجھ سے ہی باہر ہے۔بس!‘‘

میں نے کہا، ’’میں آپ سےاتفاق کرتاہوں۔‘‘

وہ پوچھی،’’لیکن میراتوخیال تھاکہ آپ خداکو مانتے ہیں؟‘‘

میں نےاُ س سے کہا، ’’جی ہاں میں مانتا ہوں۔ لیکن اس لفظ کی پرانی تعریف کواستعمال کرتے ہوئے میں یہ نہیں سمجھتا کہ وہ ہماری حواس خمسہ کے ذریعے محسوس ہوسکتاہے۔ ہم اپنے خالق کو دیکھ، سُن یا چھونہیں سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خداکوجاننے کےلئے ہم اپنے حواس کااستعمال نہیں کرسکتے۔‘‘

’’توپھرآپ اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ خداہے؟‘‘

’’اسی طرح جیسے ہم بہت سی چیزوں کے ہونے کے بارے میں منطق اورادراک سے جانتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

’’اچھا اسے ثابت کریں‘‘ میری عقلیت پسنددوست نے مطالبہ کیا۔ ’’مجھے قائل کریں۔‘‘

پس یہاں آئندہ چند مضامین میں میں ان کے ساتھ کچھ عرصہ تک جاری رہنے والی اس گفتگوکے خاص خاص نکات کو دوبارہ بیان کروں گاجس کے نتیجے میں آخرمیں میری دوست یہ ماننے کی ایک راہ ڈھونڈپائیں کہ ایک اعلیٰ تریں ہستی کونہ سمجھتے ہوئے بھی اسے مان سکیں۔

مجھے اس بات میں شک ہے کہ ہماری گفتگوبےمثل تھی کیونکہ لوگوں نےاس مضوع کے بارےمیں ہزاروں سال سے بڑےزوروشورسے بات کی ہے۔ بالآخراُن گفتگوؤں نے تاریخ کےبیشترعظیم مفکرین کواس نتیجے تک پہنچایاکہ وہ کسی خالق کی موجودگی کے سوال سےمحض الہامی کتابوں پرانحصارکرنے کے ذریعہ نہیں بلکہ صرف فلسفیانہ دلائل کے ذریعے ہی نمٹ سکتے ہیں۔ اس موضوع پرچند صدیوں کی گفت وشنیدکےبعد ہم خدا کےوجودکےبارے میں بہت ہی مطمئن کنندہ اورمؤثردلائل تک پہنچے جنہیں عموماً کائناتی(cosmological)،اخلاقی،وجودیاتی(ontological)،اورغائی(teleological) دلیل کہا جاتاہے۔ان کےعلاوہ کئی نئے فلسفیانہ دلائل بھی ہیں جن کاابھی ذکر نہیں کیا جارہا(اُن کو ہم بعد کے ایک سلسلےمیں مخاطب کریں گے)۔ آئیے ہم خداکے وجود کے بارے میں ایک ایک کرکے ان فلسفیانہ تشریحوں پر نظر ڈالتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ اُن کے بارے میں بہائی تعلیمات کیاکہہ رہی ہیں۔

کائناتی دلیل کوواقعی سمجھنےکےلئےآپ کوفلسفےکے تین ’’الف‘‘کوجانناہوگایعنی ارسطو ،ابنِ سینا اورایکویناس(Aquinas)۔ ان تینوں نے ہی اس ہستی کی موجودگی کے بارےارسطو  میں منطقی توجیہات سےدلائل پیش کی تھیں جسےارسطو’’اٹل قوت‘‘کہتاتھا۔یعنی تمام مخلوقات کی پہلی علت یامحرک اعظم۔ تھامس ایکویناس اور اسلامی فلسفی ابن سینادونوں ہی ارسطوکی اس بات سے متفق ہیں کہ کسی چیزکولازماً کائنات کی موجودگی کی وضاحت کرناہی ہوگا۔ ارسطوبنیادی طورپریہ ثابت کرتاتھااورمیں اس کے بہت ہی قوی دلائل کوضرورت سے زیادہ سہل اندازمیں پیش کررہاہوں کہ ہرموجودچیزکے لئے ایک علت یا سبب کاہونالازم ہے۔

بنیادی طورپرارسطوکی دلیل سائنسی قانون علیت یاسببیت(causality)سےپہلےآتا اوراس کی پیش بینی کرتا ہے یعنی ہرمعلول یااثرسے پہلے ایک علت یا سبب ہوتاہے اوریہ سائنسی طریقے کے لئے بنیادبناتاہے۔ وہ منطقی راستہ کیسے کام کرتاہے یہاں درج کیا جارہاہے:

  • اگرکوئی چیزموجودہے تواس کی ایک علت یاسبب ہے
  • کائنات اوراس میں تمام چیزیں موجودہیں
  • پس یہ ایک پہلی علت رکھتی تھی یعنی ’’اٹل حرکت دینےوالا‘‘، ایک وجوداعلیٰ

آپ کو یہ مانناپڑےگاکہ کائناتی دلیل اپنے پیچھےایک کافی مضبوط معقولیت رکھتی ہے۔ آئنسٹائن کا یہ قول مشہورہے کہ ’’جب میں ٹوسٹ کا ایک ٹکڑادیکھتا ہوں توجانتاہوں کہ کہیں ایک ٹوسٹر بھی ہے۔‘‘ باالفاظ دیگرعلت ومعلول کا آفاقی قانون کےلئےلازم ہے کہ ایک پہلی علت یاسبب موجودہو۔ فلاسفہ اورالہیات دان صدیوں سے اس دلیل کےساتھ الجھتےرہےہیں اوریہ آج بھی بہت سوں کو مسحور کرتی اور للکارتی ہے۔

بہائی تعلیمات کائناتی دلیل کی اس طرح تشریح کرتی ہیں:

’’سائنس ہمیں سکھاتی ہےکہ مخلوق کی تمام شکلیں ترکیب کانتیجہ ہیں مثلاً بعض مفردجواہر(single atoms)باہمی کشش کے قدرتی قانون کے ذریعہ اکٹھےکئے جاتےہیں اوراس کا نتیجہ انسانی ہستی ہے۔۔۔ اگرہم یہ اعلان کریں کہ تعمیرحادثاتی ہے تو یہ منطقی طورپرایک غلط نظریہ ہے کیونکہ تب ہمیں کسی علت کے بغیر ایک معلول پریقین کرناپڑے گا؛ہماری عقل ایک علتِ اولیٰ کےبغیرکسی معلول کےبارے میں سوچنے سےانکاری ہے۔ ۔۔۔ زندگی کے عناصر ترکیبی ترکیب میں اختیاری طورپرداخل ہوتے ہیں نہ کہ بے اختیاری میں اورنہ ہی حادثاتی طورپر۔ اوراس کا مطلب ہے کہ اجسام کی لامتناہی شکلوں کی ترکیب مشیت اعلیٰ، مشیتِ ابدی،ایک زندہ اور قائم بالذات خداکی مشیت کے ذریعہ ہوتی ہے۔

یہ ایک عقلی دلیل ہے کہ خالق کی مشیت ترکیب کے عمل کے ذریعہ نافذہوتی ہے۔اس پر غورکرواوراس کی اہمیت کوسمجھنےکی کوشش کروتاکہ اسے دوسروں تک پہنچانے کے قابل کیاجاسکے۔ اس پرتم جتنازیادہ سوچوگےتمہاری سمجھ کادرجہ اتناہی بلندترہوگا۔ الحمداللہ کہ اس نے تمہیں ایک قوت بخشی جس کے ذریعہ تم اسرار میں داخل ہوسکتے ہو۔ یقیناً جوں جوں تم گہرائی سےتدبّرکروگے،قصداً غورکروگے اورمسلسل سوچوگےتوں توں تم پرعلم کے دروازے کھولےجائیں گے۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء، ڈیوائن فلاسفی،صفحات ۱۰۳تا۱۰۶)

جب میں اور میری دوست کائناتی دلائل اوراس موضوع پربہائی تحریروں کامطالعہ کر رہے تھے تو اس نے کہا کہ ’’میں اس پرگہراتدبراورقصداًغورضرورکروں گی۔۔۔‘‘

∞∞∞∞∞

اس سلسے کا آئندہ مضمون: خداکے وجود کے بارے میں اخلاقی بحث

تحریر: ڈیوڈلیگنس، ترجمہ: شمشیرعلی

سورس: بہائی ٹیچنگز

اس مضمون میں شامل خیالات لکھاری کے ذاتی خیالات ہیں۔ ان سے ’افکارتازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *