forest-fire

چچا ڈفی اور شاندار مونچھیں

posted in: خود نوشت | 0

جس موسم سرما میں چچا ڈفی جنگ سے لوٹے اس سرما میں میں نے انسان اور خدا کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ۔ چچا ڈفی ایک کینیڈین رجمنٹ کے ساتھ سمندر پار فوجی خدمات انجام دے کر واپس لوٹے تھے ۔ ابا نے ہمیں ان کے بارے میں پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا۔

’میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ انتہائی صبر کے ساتھ پیش آنا ‘  انہوں نے اماں کو ہدایت کی۔ ’ فرانس میں بے چارہ زہر یلی گیس اور بموں کے گولوں کی دہشت کا شکار ہو گیا ہے ۔‘

میرے خیال میں اگر چچا نے ہمیں موقع دیا ہوتا تو ہم ان کے سلسلہ میں بہت صابر ہی ثابت ہوتے مگر وہ تو اپنا زیادہ تر وقت میکمارٹی کے شراب خانہ میں ہی گزارتے تھے۔ وہ اپنا ہیٹ اٹھاتے اور اماں کی طرف انتہائی تکلف سے جھک کر کہتے ’میں ذرا شہر جا رہا ہوں ،اپنی بموں کے دہشت کی دوا لینے ۔‘

ابا نے اپنی سی کو شش کر ڈالی چچا کی مدد کرنے کی۔ اکثر وہ چچا کے ساتھ شراب خانے جاتے اور ان کے ساتھ ساتھ رہتے تاکہ انہیں گھر واپس لا سکیں ۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر دونوں ہی اس لائق نہیں رہتے تھے کہ واپس لائے جا سکیں ۔

چچا ڈفی کے اعصاب بڑے کمزور تھے۔ ایک رات جب میں نے پہلی بار اپنی کارک کی ایک بندوق چلائی تو وہ اچھل کر ابا کی گود میں جا پڑے ۔ایک دن میری نے کاغذ کے ایک لفافہ میں ہوا بھر کر اسے پھوڑا تو چچا ڈفی ’وہ آ گئے، وہ آ گئے’ کہتے ہوئے ننگے پاؤں گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے اور قریبی مکئی کے کھیتوں میں جا  کر پناہ لی۔

لیکن چچا ڈفی کے دوست ’مونچھوں‘ نے اماں کو سب سے زیادہ دہشت زدہ کر رکھا تھا۔ ’مونچھیں‘ اچانک چچا سے ناراض ہو جاتا اور انہیں سارے گھر میں دوڑاتا پھرتا ۔ چچا ڈفی صدر دروازے سے دہشت زدہ گھر میں داخل ہوتے ان کی آنکھیں پھٹی پھٹی نظر  آتیں ۔ کبھی وہ اماں کے پیچھے چھپتے کبھی ابا یا کوئلے کے چولھے کے پیچھے، وہ انگلی سے دروازے کی طرف اشارہ کرتے اور خوفزدہ انداز میں سرگوشی کرتے ہوئے  کہتے ’مونچھ میرا پیچھا کر رہا ہے، مجھے کہیں چھپاؤ، اس کے پاس سنگین ہے ۔ ‘ پھر وہ ایک ہی چھلانگ میں کپڑوں کی الماری میں گھس کر دھماکہ کے ساتھ اس کا  دروازہ بند کر لیتے ۔ نتیجتاً پیدا ہونے والی ارتعاش سے دیوار میں ٹنگی دادی کی تصویر نیچے آ رہتی تھی ۔

حقیقتاً مونچھوں کا کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔ چچا ڈفی کے سوا کسی نے اسے نہیں ’دیکھا‘ تھا۔ گو ایلا کا  دعویٰ تھا کہ وہ اُس کے کمرے کے باہر سیب کے درخت پر بیٹھا اسے منہ چڑھا رہا تھا ۔ لیکن جب سے میں نے اپنے نورانی  شخص کا ذکر کیا تھا تب سے ایلا طرح طرح کی چیزیں دیکھ رہی تھی۔ ایک دفعہ تو ایلا نے آرتھر کانن ڈائل کی روح کو ناردرن   پیسی فک ریلوے اسٹیشن کی چھت پر ٹہلتے دیکھا ۔ اُس رات ابا نے سزا کے طور پر اس کا منہ صابن سے دھلوایا تھا ۔

ابا کہتے تھے کہ چچا ڈفی مونچھوں سے نجات پا نے کے لئے شراب خانے جاتے ہیں جبکہ اماں کہتی تھیں کہ مونچھیں ان کے پیچھے شراب خانے سے آ نے کے بعد ہی لگتا ہے۔

ویسے مجھے ’مونچھیں‘ پسند تھا ۔ اس کی وجہ سے ہر وقت گہما   گہمی رہتی تھی ۔ ہم سب اس کے منتظر رہتے تھے اور اس کے بارے میں اس طرح باتیں کرتے جیسے وہ ہمارے ہی خاندان کا ایک فرد ہو ۔ ایک دفعہ جب خواتین کی ایک مجلس کے دوران ایک خاتون نے پوچھا کہ ہم یہ کس ’مونچھوں‘  کا ذکر کرتے رہتے ہیں تو اماں نے جواب دیا  ’اوہ ، وہ ڈفی کا دوست ہے ۔‘

چچا ڈفی سے میری پہلی ملاقات اس موسم سرما میں ہوئی تھی جس میں  ہمارے علاقہ میں خطرناک جنگل کی  آگ  پھیل گئی تھی ۔ اس دن فادر ہو گن اور دوسرے افراد ہمارے گھر میں میٹنگ کر رہے تھے ۔ موضوع ہمارے علاقہ میں ایک نئے اسکول کی ضرورت تھی ۔ ایلا میں اور ہمارے بہت سے دوست بنجمن  فرینک لن اسکول سے اس نئے اسکول میں  آ نے والے تھے ۔ ویسے ہم اس نئے اسکول کے بارے میں کچھ ایسے پر امید نہیں تھے ۔ ماں مہمانوں کو چائے اور ناشتہ وغیرہ پیش کر رہی تھیں اس وقت ایلا پاگلوں کی طرح دوڑتی ہوئے آ ئی اور چلانے لگی ’ میں نے ایک سپنا دیکھا ہے، میں نے ایک سپنا دیکھا ہے۔‘

مسز میک کلاسٹر ایسی بد حواس ہوئیں کہ انہوں نے اپنا چشمہ چائے کی پیالی میں چلانا شروع کر دیا ۔

’ایک سپنا‘ ایلا چلائی ’ میں نے ایک فرشتہ کو دیکھا۔ وہ کہہ رہا تھا دفان کرو ان  سب کو، سمندر میں غرق کر دو انہیں‘ پھر ایلا نے ایک ڈرامائی قہقہہ لگایا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔ فادر ہوگن   افرا تفری میں کیک نگل گئے اور ان کے چہرے کا رنگ ایسا ہو گیا جیسا ایک رات مرغ کی ہڈی حلق میں اٹکنے پر نانا کا ہوا تھا ۔ سب گھبرا گئے سوائے  ماں کے ۔ انہیں پتہ تھا کہ ایلا پھر خواب دیکھ رہی ہے جس میں اس نے فرشتہ سے گفتگو کی ہے ۔ لہذا بات آ گے نہیں بڑھی ۔

’یہ ہوا اسے ولیم سے لگی ہے‘ ماں نے مہمانوں کو سمجھایا ’وہ خدا اور اس طرح کے دوسرے  معاملات میں بڑی ہی دلچسپی رکھتا ہے کیوں فادر ہو گن؟‘ فادر ہو گن نے میرے ساتھ ہونے والے مناظروں کا خیال کر کے اپنی نظریں دوسرے طرف کر لیں ۔

’ ولیم کہتا ہے کہ وہ ایک دن تمام دنیا میں لوگوں کو خدا کے بارے میں بتاتا پھرے گا ، فی الحال وہ صرف ایلا کو بتاتا ہے اور ایلا اُسے ڈرامائی انداز میں پیش کرتی ہے ۔ کیک لیں نا مسز   ولکوکس ۔‘

مسز ولکوکس کی حالت یہ تھی کہ وہ موقع پا تے ہی بھاگ کھڑی ہونے کے لئے تیار تھیں ۔ لیکن کم از کم اس بار ایلا بے قصور تھی۔ وہ تو صرف جون آف آرک کا کر دار ادا کر رہی تھی ۔ ایلا نے ہمارا کاؤ بوائز  اور ریڈ انڈینز کا اچھا بھلا کھیل برباد کر دیا تھا ۔ وہ اپنی ’نیو اور لینز کی کنواری‘ نامی کتاب لے کر ہمارے درمیان شیخی بگھارنے لگی ۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس کہانی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن جب ایلا، جون آف  آرک کے سولی پر زندہ جلائے جانے پر پہنچی تو ہمارے کان کھڑے ہو گئے۔

’یہ ہوئی نہ بات’ سام لوئیس نے کہا۔

’تو پھر ہو جائے؟‘ مائک رفو ڈیل بے قراری سے بولا۔ ایلا نے تجویز پیش کی کہ اگر ہم یہ ناٹک کھیلنے پر راضی ہوں تو وہ خوبصورت اور شیر دل جون کا کر دار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ہم تیار ہو گئے اور پورے جوش و ولولہ کے ساتھ اس کے پیچھے جلتی مشعل لے کر دوڑے ۔ میں خود ، فادر ہو گن اور خواتین کی موجودگی کی پرواہ کئے بغیر خیالی گھوڑے پر سوار اُس کا پیچھا کرتے کرتے چرچ کی میٹنگ میں جا گھسا ۔

’اس بوڑھی چڑیل کو پکڑو ‘ میں مہمانوں کے درمیان چیختا اچھلتا جا رہا تھا کہ اماں نے مجھے پکڑ لیا ۔

’تم اپنی بہن کو یہ سب کیا کہہ رہے ہو ؟‘ وہ للکاریں ۔ ’وہ چڑیل ہے ! ہم اسے پکڑ کر زندہ جلائیں گے‘ میں نے انہیں انتہائی مسرت کے ساتھ مطلع کیا ، ’زندہ جلائیں گے !’ اچھا پھر ملاقات ہوگی ’سلام فادر!‘

میں اپنے سبک رفتار گھوڑے پر سوار کوہِ سلائی مشین عبور کرتا ہوا صحرائے  کباڑ خانے سے گزرا ۔ میں نے جون آف آرک کو مکئی کے کھیتوں میں سینڈوچ کھاتے ہوئے پکڑا ۔ ہم نے گھر کے پیچھے پرانے پانی کے پمپ کے ساتھ اسے باندھ دیا اور چاروں طرف کاغذ کے ٹکڑے اور لکڑیاں جمع کرنی شروع کر دیں ۔ سیپ ہیڈ فلپس جو کہ برطانوی افواج کا سپہ سالار تھا اپنے گھر گیا اور باورچی خانے سے ماچس چرا لایا ۔ اس کی ماں اس وقت کپڑے سکھانے گئی ہوئیں تھی ۔ کیونکہ جون آف آرک میری اپنی سگی بہن تھی اس لئے اس کے گرد آگ لگانے کا اعزاز مجھے دیا گیا۔

ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جیسے ہی آگ ہماری جون آف آرک کے لئے ناقابل برداشت ہونے لگے گی ہم اسے کھول دیں گے لیکن جب وہ وقت آیا اسی وقت مائک رفو ڈیل کا بڑا بھائی اپنی نئی لال موٹر سائیکل لئے وہاں نمودار ہوا اور ہم جون کو اللہ کے حوالے کر کے موٹر سائیکل کی سواری کے لئے دوڑ پڑے ۔

جون آف آرک نے جب اپنی امی کو پکارنا شروع کیا تو سب سے پہلے فادر ہو گن دوڑے ۔ انہوں نے کئی بالٹیاں پانی ڈال کر آگ بجھائی ۔ میری دوسری دو بہنیں میری اور فرانسس کو فوراً مجھے زندہ یا  مُردہ حالت میں پکڑ لانے کی مہم پر بھیجا گیا۔

آگ ایلا تک نہیں پہنچی تھی ۔لیکن جب اماں نے ابا کو بتایا کہ ایلا کس قدر ذہنی اذیت کا شکار ہوئی ہوگی اور پھر وہ سچ مچ جل کر مر بھی سکتی تھی، تب ابا نے  مجھے چھڑی لانے کا حکم دیا ۔ جب کافی تلاش کے بعد بھی مجھے کوئی مناسب چھڑی نہ ملی تو وہ خود میری مدد کو آ ئے  ۔ انہوں نے میری پسند کو رد کرتے ہوئے کم عمر درخت سے ایک لچک دار شاخ پسند کی۔

گھر میں داخل ہوتے ہوئے میں نے کہا ’ ابا میں نے واقعہ سے سبق سیکھ لیا ہے ۔‘

’ہوں! مجھے یہ سبق تمہیں اچھی طرح یاد کر وا لینے دو‘ اسی لمحے چچا ڈفی فرانس سے واپس لوٹے ۔ وہ جنگ کے دوران وہاں تعینات کئے گئے تھے اور قدرتی بات ہے کہ ان کے لئے میرے دل  میں ہمیشہ ایک نرم گوشہ رہے گا۔

ماں نے چچا اور مونچھوں کو اپنا مقدر ہی سمجھ لیا تھا۔  جب مینی سوٹا کی تاریخ میں سب سے بڑی جنگل کی آگ لگی تو بہت سے لوگ جل کر ہلاک ہو گئے تھے،  ہمارے شمال اور مشرق میں کئی شہر مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے ۔ آسمان پر ایک سر مئی دھند چھا ئی رہتی اور ہم سانس لیتے تو گلے میں خراش سی ہوتی۔ رات کے وقت شمال مشرق کی سمت آسمان گہرا سرخ اور حدت سے لہراتا معلوم ہوتا تھا ۔ لوگ واضح طور پر بے چین تھے ایسے پڑوسی جنہوں نے برسوں آپس میں بات چیت نہیں کی تھی انہیں بھی اس آگ نے آپس میں ملا دیا تھا اور وہ ڈولتھ کی جانب اس طرح دیکھتے جیسے وہ ذہنی طور پر کچھ اندازہ لگا رہے ہوں ۔

’آثار اچھے نظر نہیں آتے۔‘

’بالکل نہیں‘

ہم روزانہ آگ بجھانے کا سازو سامان سے بھرے ٹرک جاتے دیکھتے اور انہیں لوگوں کو تھکن سے چور، سیاہی میں  اٹے اور افسردہ واپس آ تے دیکھتے ۔

جس شام پولیس والے نے مجھے گاؤں سے نکل کر’ محاذ‘ پر جاتے پکڑا، اس شام دراصل سزا کے طور پر مجھے اپنے کمرے میں بند رہنے کا حکم تھا ۔ ’گرفتاری‘کے وقت میرے ساتھ میری گاڑی میں ایک بیلچہ ،اماں کے دو پسندیدہ تکیے اور ایک تھیلے میں سیب بھرے تھے۔ تکیے میں نے آگ بجھانے کے لئے لئے تھے ۔ اب میں کمرے میں لیٹا ابا، اماں اور مسٹر اور مسز میک کلسٹر کو تاش کھیلتا دیکھ رہا تھا ۔ اماں نے ایک مقدس شمع بھی روشن کی تھی اور جب مسٹر میک نے جھک کر بے خیالی میں اس شمع سے اپنی سگریٹ سلگائی تو ان کی بیگم نے غصہ میں ان کی پیٹھ پر دھول جمائی ۔ اماں نے بھی انہیں بے حس انسان قرار دیا ۔

 ’آپ  کا مطلب اگر یہ ہے کہ میں خوفزدہ ہوں تو آپ بالکل بجا فرماتی ہیں ،جو حالات ہیں ان میں تو ہم اس کھیل میں اپنے مکانوں کی بازی تک لگا سکتے ہیں کیونکہ ہوا اگر اسی طرح چلتی رہی تو یہ مکان زیادہ دن نہیں رہے گا۔‘  اس کے کچھ دیر بعد ہی مسٹر و مسز میک اپنے گھر کو سدھارے۔

صبح تک حالات کچھ بہتر ہو گئے تھے ۔ہوا کا رخ بدل گیا تھا میں نے صبح تین بجے کے وقت سامنے کی کھڑکی سے تازہ خوشگوار ہوا آتی محسوس کی۔ حالات اتنے ہی امید افزا تھے کہ والد صاحب اور چند دوسرے لوگوں نے فرگس آبشار پر جا کر اپنا ہفتہ وار بیس بال میچ کھیلنے کا پروگرام تک بنا لیا ۔

لیکن اُسی شام ہوا نے پھر شمال مشرق کا رخ کر لیا اور پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہوا چلنے لگی ۔ ڈولتھ کے افق پر قطب شمالی کی طرح روشنیاں جگمگا رہی تھیں فرق صرف اتنا تھا کہ یہ روشنیاں برفانی نیلی ہونے کے بجائے دھکتی نارنجی تھیں ۔ اور اس کے تیور سب کچھ بھسم کر دینے والے تھے ۔زیادہ تر مرد آگ بجھانے میں مدد کے لئے گئے ہوئے تھے، عورتیں ایک دوسرے کے صحنوں میں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹی اُن اَن کہی کہانیوں کا تبادلہ کر رہی تھیں  جو صرف اس طرح کی مشترکہ افتاد پڑنے پر ہی منظر عام پر نظر آ سکتی ہیں ۔ بچے اپنی ماؤں کی نظروں کے سامنے ہی رہنے کی بار بار کی تنبیہ کے باوجود بار بار جھاڑیوں میں ادھر اُدھر دوڑ رہے تھے۔

میں اور سیپ ہیڈ کوئی ایسی ترکیب نکالنے کی فکر میں تھے کہ آگ شہر میں داخل ہو اور تمام اسکولوں کو جلا کر خاک کر دے اور پھر مزید کوئی نقصان پہنچائے  بغیر شہر سے نکل جائے ۔ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی تو ہم دوسرے کھیلوں میں لگ گئے۔

’جیمس اتنا تو مت چلاؤ ، تمہاری اس چیخ و پکارنے میرے لئے سوچنا بھی ناممکن بنا دیا ہے، اور اپنی بہن کو دھکا کیوں دے رہے ہو؟‘ مسز فلیپس ،سیپ ہیڈ پر چلائیں۔

’تو پھر اُسے منع کرو نا کہ مجھے دھکا نہ دے، ورنہ جب ہم اپنی جانیں بچانے کے لئے جھیل کے درمیان چلے جائیں گے تب اسے کنارے پر ہی کتوں کی طرح جان دینی ہو گی‘۔

یہ سن کر اُس کی بہن نے رونا شروع کر دیا، جس پت مسز فلیپس مزید غصہ ہوئیں اور انھوں نے سیپ ہیڈ پر اور زیادہ چلانا شروع کر دیا ۔ لیکن سیپ ہیڈ اپنی ہی دھن میں مگن تھا۔ ایک، دو، تین۔۔۔ نو، دس کوئی تیار ہو یا نہ ہو میں پکڑنے آ رہا ہوں‘۔

یہی وہ تاریخی لمحہ تھا جب چچا ڈفی میپل اسٹریٹ پر نمودار ہوئے۔ وہ سڑک کے عین درمیان چل رہے تھے ، لیکن لگ ایسا رہا تھا جیسے وہ گھاس پھونس سے لدی ہوئی گھوڑا گاڑی پر سوار ہوں ، پڑوسیوں نے ایک دوسرے کی طرف پر امید نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔ چچا ڈفی بقول اماں کے اپنی پھٹے بانس سی آواز میں ایک جنگی ترانہ  الاپ رہے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ ترانے کے انتخاب نے ہی اُنہیں  اُسی وقت سب کی نظروں میں اپنا دشمن بنا دیا۔ ترانے کے بول کچھ اس طرح کے تھے’ جب تک ہمارے جوان میدان جنگ میں ہیں، جب تک دل ان کی یاد میں بے چین ہیں، یہ آگ دہکائے رکھنا‘ ۔ پھیپھڑوں کے زور پر یہ ترانہ الاپتے ہوئے وہ تشریف لائے ۔

قریب آ کر وہ برامدے کی ریلنگ کی سلاخیں پکڑے قدم بہ قدم آ گے بڑھے ۔ اماں ان کی حالات دیکھ کر شرمندگی سے بھاگ کھڑی ہوئیں ۔ مسز میک کلسٹر نے مسز ریفوڈل کی طرف جھک کر راز دارانہ انداز میں کہا’ اگر یہ آگ ذرا بھی اور قریب آ ئی تو ان کی سانسیں آگ پکڑ لیں گی‘۔

چچا ڈفی نے انتہائی بانکپن سے جھکتے ہوئے  اپنا ہیٹ ہوا میں لہرایا لیکن وہ ان کے ہاتھ سے نکل کر اڑتا ہوا برآمدے کے باہر جا پڑا۔ ’ آداب معزز خواتین‘

مسز ریفوڈل نے مسز میک کلسٹر کو کہنی ماری،انداز یوں تھا جیسے کہہ رہی ہوں’ یہ ناٹک دیکھنا نہ بھولنا‘ ۔ پھر  چچا ڈفی سے مخاطب ہوئیں ’کہو ہمارے دوست مونچھوں کا کیا حال ہے؟‘

چچا ڈفی نے اپنے رہے سہے وقار کو مجتمع کرتے ہوئے اپنا منہ تقریباً مسز ریفوڈل کے تنکوں والے ہیٹ کے نیچے لیجا کر کہا ’ مسز ریفوڈل بڑی عنایت ہوگی اگر آپ اپنی ٹانگ میرے دوستوں کے معاملات میں نہ اڑائیں‘۔

اس رات ڈیڑھ بجے کے قریب پچھلے دروازے پر زور دار گھونسوں کی آواز سے ہم سب کی آنکھیں کھل گئیں ۔ میں اچھل کر بستر پر بیٹھ گیا ۔

’مسز سیئرس! مسز سیئرس!‘  یہ مسٹر میک کلسٹر کی آواز تھی ۔ میں نے ماں کا متذ بذب جواب سنا’۔۔۔ جی؟  ‘ ’اٹھیے! آگ پر قابو پا نا اب ممکن نہیں رہا۔ صبح سے پہلے یہ آگ شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی، ہمیں اسی وقت گھروں کو خالی کرنا ہو گا، ابھی اسی وقت!‘

مسٹر میک کے ہمارے برامدے سے نکلنے سے پیشتر  ہی میں پتلون اور جوتے پہن چکا تھا۔ اماں  بدحواسی میں بے مقصد ادھر اُدھر دوڑتی پھر رہی تھیں ۔ میں نے اپنی بہنوں کو پکارا اور ہم بھائی بہنوں نے ملکر چچا ڈفی کے کمرے کا دروازہ پیٹنا شروع کیا۔ وہ اپنے کمرے میں موجود نہیں تھے۔ اماں اب باہر دیوان خانے میں تھیں ، ابھی تک وہ شب خوابی کا لباس پہنے ہوئی تھیں، اور اب بھی بد حوا سی میں جلدی کرو، جلدی کرو کی گردان کرتی بے مقصد بھاگی پھر رہیں تھیں ۔

کھڑکی سے باہر کی ایک جھلک ہی ہمیں یقین دلانے کے لئے کافی تھی کہ آگ بہت جلد شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ آسمان صرف سرخی مائل ہی نہیں تھا بلکہ اب تو دور شعلوں کی لپک بھی دیکھی جا سکتی تھی ۔ فضا میں گھٹن بڑھ رہی تھی اور کمرے دھوئیں سے بھرنے لگے تھے،
ہر  شخص جلن کی وجہ سے اپنی آنکھیں مل رہا تھا۔

’خدایا! ہمیں یہ کس گناہ کی سزا مل رہی ہے‘ اماں گڑ گڑائیں ۔ ’ شاید ہماری مکاری کی‘ ایلا نے نہایت خوشدلی سے انہیں مطلع کیا ۔ یہ کہہ کر وہ سفر کے لئے کھانا تیار کرنے کے بہانے باورچی خانہ کی طرف بھاگ لی۔ پھر وہیں سے ماں سے مخاطب ہو کر چلائی ’ اور ہاں سفر کے دوران مڑ کر مت دیکھئے گا ورنہ آپ نمک کے ستون میں تبدیل ہو جائیں گی‘۔

شہر خالی کرنے کا منصوبہ کچھ عرصہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا تھا ۔ سب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ صرف اپنا سب سے قیمتی سامان ہی گھر کے باہر رکھ دیں تاکہ ٹرک اور ویگنیں جس قدر ممکن ہو سکے سامان بچا سکیں ۔ اس ہنگامہ خیز رات مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ میں اپنی کھال کے علاوہ ہر چیز سے جدائی برداشت کر سکتا ہوں ۔ اماں پچھلے کئی دنوں سے اس فکر میں ہلکان ہو رہی تھیں کہ وہ کونسا فرنیچر ساتھ لیں گی اور کونسا چھوڑ جائیں گی ۔ آخر کار فیصلہ نئے دیوان اور کرسی کے حق میں ہوا ۔ انھوں نے ہم سب کو اکٹھا کیا اب وہ اور میری ایک طرف اور میں اور فرانسس دیوان کے دوسری طرف کمر بستہ ہوئے ۔ دیوان اٹھا تو ہمیں چچا ڈفی اس کے نیچے چاروں شانے چت لیٹے نظر  آئے ۔ ان کے دہشت سے پھٹی پھٹی آنکھیں دو تلے ہوئے انڈوں کی طرح لگ رہی تھیں ۔

’کم بختو!‘ وہ چلائے، ’ واپس رکھ دو اُ سے،  تمہیں پتہ نہیں میں مونچھوں سے چھپا ہوا ہوں‘۔

اماں نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ اور بیٹھ کر رونے لگیں ۔میں چچا ڈفی کو جھڑکنا چاہتا تھا مگر میں نے دیکھا کہ انھوں نے قالین کے ایک کونے میں اپنا منہ لپیٹ لیا تھا ۔ اس عرصہ میں اماں ہسٹر یائی انداز میں چلانے لگیں تھیں ۔

’ بہت ہولی، اب میں  مزید برداشت نہیں کر سکتی ‘ وہ کرا ہیں ۔ اور اسی وقت دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز ان کے حواس کو مکمل طور پر مختل کر گئی ۔’ آگ، آگ ! ہمیں ہلاک کرنے آ گئی‘۔

در حقیقت یہ آگ نہیں بلکہ مسٹر میک تھے ،ان کا چہرہ ایسا لگتا تھا جیسے ہمارا کوئلوں والا چولھا، یعنی سیاہ،  کالک سے لپا ہوا ۔ اُن کی آنکھیں اُس چولھے میں جلتے بجھتے کوئلوں کی طرح راکھ میں دھک رہی تھیں۔

’ایتھل! پریشانی کی کوئی بات نہیں‘ وہ بولے ’ہوا نے اپنا رخ پھر بدل لیا ہے اور اب تو بارش بھی ہونے والی ہے ‘۔

’خدایا شکر ہے! ‘ اماں کافی دیر تک یہی الفاظ دھراتی رہیں۔

∞∞∞∞∞

آئندہ: خداخندہ زن،باب۹

تحریر: ولیم سیئرس؛ ترجمہ: محمودالحق، ڈھاکہ، بنگلادیش

اس مضمون میں ظاہر کردہ خیالات ونظریات مصنف کے ذاتی خیالات  ونظریات ہیں۔ ان سے ’افکارِ تازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *