باورچی خانے میں آئس اسکیٹنگ کا مظاہرہ

posted in: خود نوشت | 0

برفباری کی وجہ سے ہم نانا کے یہاں پانچ دن زیادہ رہے۔ برفباری ہفتہ بھرجاری رہی۔ نانا کاکہنا تھا کہ یہ برفباری ۸۸ء  کی برفباری سے بھی شدید تھی۔ اس طوفان کے عین درمیان اماں نے اعلان کیا کہ وہ آتے وقت گھر کا نلکہ بند کرنا بھول گئی تھیں۔ یہ سُن کر ابّا ایک عجیب سی ہنسی ہنسے۔ اُن کی ہنسی میں کچھ ایسی بات تھی کہ میں اور میری تین بہنیں اپنی گفتگو بھول کر اُن کی طرف متوجہ ہوگئے۔گفتگواس موضوع پر ہورہی تھی کہ سانتا کلاؤز نانا کی طرح بیساکھیوں پر چلتا ہواکس قدرمضحکہ خیز لگ رہاتھا۔

’’میں نے اسٹیشن پر ہی تم سے پوچھا تھا۔ اُس وقت تو تم نے کہا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ میں نے نلکہ بند کر دیا ہے‘!‘‘

’’اُس وقت میرا وہی خیال تھا‘‘ اماں نے لاپرواہی سے جواب دیا۔ ’’اب میرا خیال کچھ اور ہے‘‘۔

ہم غروبِ آفتاب کے بعدگھر پہنچے۔ تیزہوا اُس وقت بھی برف کو گلیوں میں اُڑاتی پھر رہی تھی۔ ہمیں ریلوے اسٹیشن سے کافی دور تک پیدل چلنا پڑا۔ والد صاحب ظاہر ہے کافی غصّہ میں تھے۔

میں نے اپنے ہاتھ کوٹ کے کالر میں گھُسا لئے اور فُٹ پاتھ سے اُتر کر برف کے ایک تودے میں گھس  گیا۔’فرینک! ولیم برف میں گر پڑا ہے‘ اماں چِلّائیں۔

ابا ایک لمحہ کے لئے بھی نہ رُکے۔ نہ ہی وہ پیچھے مُڑ کردیکھا۔بس چلتے چلتے بولے ’’امید ہے کہ موسمِ بہار میں اُس کی لاش مل جائے گی‘‘۔

اپنے دروازے تک پہنچتے پہنچتے ہم سب تھکن سے چُور ہوچکے تھے اور ہمارے مزاج ہماری قوتِ برداشت کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ باورچی خانے کا فرش دوسرے کمروں کی نسبت ایک قدم نیچے تھا، یا کم از کم عام حالت میں ایسا ہی تھا۔ اُس وقت  اُس کی اونچائی بھی دوسرے کمروں کے برابر تھی۔ اماں کا دوسرا خیال ہی دُرست تھا۔ انہوں نے نلکہ بند نہیں کیا تھا۔سارے پائپ پھٹ  گئے تھے اور باورچی خانہ زیرِ آب آگیا تھا۔ اور یہ پانی اب برف کی صورت میں باورچی خانہ کی سطح کو دوسرے کمروں کی سطح تک لے آیا تھا۔

ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمارا باورچی خانہ سرکاری اسکیٹنگ گراؤنڈ بنا دیا جائے گا۔ اندھیرے کی وجہ سے دیکھنا ممکن بھی نہ تھا۔ اماں ہی پہلے پھسل کر کھانے کی میز کےنیچے گئیں۔ ابا نے بتی جلائی ہی تھی کہ انہوں نے بھی پھسلنا شروع کیا۔کچھ دیر تک انہوں نے ایک جگہ کھڑے کھڑے دوڑنے کا مظاہرہ کیا پھرسیدھا سرکے بل اسٹو میں چلے گئے۔ اُن کا سراسٹو کے پایے سے ٹکرایا۔ میری تینوں بہنیں مختلف سُروں میں چلّا رہی تھیں۔اس دوران میری اور فرانسس بھی تیرتی ہوئی اماں کی طرف چلیں اور ان کا بھی ٹھکانہ میز کے نیچے ہوا جہاں وہ اِگلو سے جھانکتی تین اسکیموکی طرح لگنے لگیں۔ایلا نے سہارے کے لئے پردے کو مضبوطی سے پکڑ لیا ۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ وہ پردے سمیت چکراتی ہوئی باورچی خانہ کے وسط میں پہنچ گئی۔ میں سب سے آخر میں داخل ہوا۔ میرے ہاتھوں میں نانی کا بنایا ہوا ناشپاتی کے مربّے سے بھرا ایک کانچ کا مرتّبان تھا۔

’’سب کہاں گئے بھئی! ‘‘ میں نے باورچی خانے میں اترتے ہوئے آواز لگائی۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ اب کوئی اترنا ہی نہیں تھا۔ مجھے جلد ہی  پتہ چل گیا کہ سب کہاں گئے ہیں۔ مرتبان پہلے ہوا میں بلند ہوا لیکن فرش پر ہم دونوں ساتھ ساتھ آئے۔جب ہم نے فرش پر نزولِ اجلال فرمایا اُس وقت ہمارے پاس مربّہ تو تھا لیکن مرتّبان میں نہیں۔میں پھسلتا ہوا اماں، بہنوں اور اباکے پاس سے ہوتا ہوا سامنے دیوار سے جا ٹکرایا۔

کسی کو بھی کوئی خاص چوٹ نہیں لگی لیکن ہر شخص مشتعل تھا۔ اماں تو رو پڑیں۔ جس دن ہم روانہ ہوئے تھے اسی دن انہوں نے فرش کو اچھی طرح پونچھا اور چمکایا تھا۔

’’میرافرش،ہائے میرا فرش!‘‘

’’خدا کے واسطے پانی اب بھی بند کردو، ورنہ تم سارا گھر بہا دوگی۔‘‘ ابا چولہے کے نیچے سے غرّائے۔

ہم نے کانچ کے ٹکڑے جمع کرنا اور فرش پونچھنا شروع کیا۔سارے برف پر مربّہ سینڈوچ کی طرح پھیلا ہوا  معلوم ہوتاتھا۔

ابا کباڑ خانے سے کلہاڑی ڈھونڈ لائے اور برف توڑنے لگے۔انہوں نے بے خیالی میں پچھلا دروازہ کھلاہی  چھوڑ دیا تھابیچاری اماں دیوان خانہ سے جلدی میں آئیں اور برف پر پھسلتی ہوئی سیدھی کھلے دروازے کی طرف چلیں ۔وہ مدد کے لئے چلائیں بھی تھیں لیکن اس سے پہلے کہ کوئی ان کی مدد کو پہنچتا وہ برف پر مضبوطی سے پاؤں جمائے سیدھا دروازے سے ہوتے ہوئے باہر اندھیری رات میں گم ہو گئیں ۔ جاتے وقت ہم نے ان کے چہرے پر ایک خفیف سی ،دلیرانہ مسکراہٹ دیکھی  ، ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہاتھ ہلا ہلا کر ہمیں الوداع کہہ رہی ہوں۔

‘ایلا’ ہمیں کم از کم شب بخیر تو کہنا چاہئے تھا ، میں نے کہا ۔سب سے پہلے ایلا دروازے پر پہنچی ۔ہم نے اماں کے گرنے اور رونے کی آواز سنی ۔ ایلا خوشی سے چلائی ’اماں برف پر خوبصورت پری کی طرح لگ رہی ہیں ۔‘

میں نے ہی سب سے پہلے اپنے اسکیٹس نکالے اور باورچی خانہ میں با قاعدہ پھسلنا شروع کیا ۔ میری اور ہمارے کتے نے بھی میرا ساتھ دیا اور ہم انکل ٹامس کیبن کا وہ منظر کھیلنے لگے جب لیزا منجمد دریا پار کرتی ہے۔

ابا نے کلہاڑی سے دھمکاتے ہوئے ہمارا یہ ناٹک بند کرایا ۔اماں چاہتی تھیں کہ وہ پہلے چولہے کے گرد جمی برف  ہٹائیں تاکہ کھانا پکانے کا انتظام ہو سکے جبکہ ابا اپنے پسندیدہ جوتے پہلے نکالنا چاہتے تھے ۔یہ جوتے انہوں نے میز کے پاس ہی رکھے تھے ۔جب میں اوپر اپنے کمرے میں جانے لگا تو میں نے دیکھا ہمارے فرش پر نیا پلاسٹک ابھی تک نہیں بچھایا گیا تھا اور دیوان خانے میں وہ اب تک لپٹا ہوا تھا ۔ میں نے اس کےمخروطی شکل کا بڑا سا ، گتے کا بنا ہوا ڈبہ ہتھیا لیا تھا اور اب اسے روحوں کے بلانے کے تجربات میں استعمال کیا کرتا تھا ۔ فی الحال میں اسے ایلا کو خوفزدہ کرنے کے لئے کام میں لا رہا تھا ۔ ایک دن میں نے گرم ہوا کے پائپ کو جو ہمارے کمروں کے درمیان تھا ، اسے ہٹا کر اس کی جگہ اس لمبے ٹیوب کولگا دیا اور پھر رات جب سونے سے پہلے ایلا مناجات پڑھنے لگتی تو بس ٹیوب میں منہ ڈال کر بھوتوں جیسی آواز  بنا کر پر اسرار انداز میں باتیں کرتا ۔ ایلا اس آواز کا منبع تلاش کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوئی ۔

اُس رات بھی میں اپنے پلنگ کے نیچے گھُسا ایلا کے سونے کا انتظار کر رہا تھا ۔ اور جب وہ گھُٹنوں کے بل جھک کر مناجات پڑھنے لگی تب میں نے انتہائی آہستگی سے گنگناتے ہوئے کہنا شروع کیا: ’’ایلا سیئرس کیا تم میری آواز سن رہی ہو؟‘‘

یقیناً وہ سن رہی تھی کیونکہ مناجات درمیان میں ہی رک گئی ۔کافی دیر تک خاموشی طاری رہی ۔ پھر ایلا نے دوبارہ مناجات شروع کی ۔ پہلے سے کمزور آواز اور متزلزل ایمان کے ساتھ ۔

’’ایلا سیئریس!‘‘

وہ پھر رک گئی۔

’’کیا تم سن نہیں رہیں ؟‘‘

خوفزدہ سی ‘ جج جج جی ی ی ی’ سنائی دی ۔

’’میں تمہیں دیکھ رہا ہوں ۔ میری آنکھیں آسمان سے تمہیں اس چھت کے آر پار صاف دیکھ رہی ہیں ۔ کیا تم اچھی بچی ہو؟‘‘

’’مم مجھے پتہ نہیں ‘‘، ایلا کی آواز سے ایسا لگا کہ وہ اب روئی تو تب روئی ۔

’’اگر تم اچھی بچی نہیں ہو تو میں تمہاری خبر لینے نیچے آرہا ہوں ۔‘‘

ایلا کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ اگر کوئی اُسے پکڑنے آرہا تھا تو اس کا وہاں ٹہرنا قطعاً مناسب نہیں تھا ۔ وہ تیر کی طرح اپنے کمرے سے نکلی اور نیچے پہنچ گئی جہاں ابا اوراماں  اس وقت بھی بحث میں مصروف   تھے کہ کہاں سے برف پہلے ہٹائی جائے ۔ اس بحثم بحثی میں ایلا نے آکر چلانا شروع کیا ،’’ خدا دیوار کے اس پار سے بول رہا ہے! خدا دیوار کے اُس پار سے بول رہا ہے!‘‘

ایلا سیدھا اماں سے جا ٹکرائی اور وہ دونوں پھسلتے ہوئے دیوار کی جانب روانہ ہوئے ۔ ’’خدا کے لئے کچھ کرو‘‘، اماں نے ابا سے التجا کی ۔ اس دوران وہ دونوں ابا سے ٹکرائے اور انہیں  لیتے ہوئے دیوار کی طرف روانہ ہوئے ۔ابا نے انہیں روکنے کے لئے اپنے دونوں ہاتھ  پھیلا دیئے تھے ۔ نتیجتاًاب اماں ، ابا کو پکڑے ہوئے تھیں اور ایلا اماں کو اور تینوں اپنی جگہ سے ایک انچ ہلے بغیر تیز رفتاری سے دوڑ رہے تھے ۔ اس سے ایسی آواز پیدا ہو رہی تھی جیسے وہ  مکھن بلو رہے ہوں ۔ فرانسس، میری اور میں دوڑتے ہوئے روشندان پر پہنچے اور نیچے باورچی خانہ میں جھانکنے لگے ۔ہم نے انہیں دھڑام سے گرتے ہوئے دیکھا اور باآواز بلند ہنسنے لگے ۔ابا اور اماں نے گرنے کے بعد ٹیبل کے پائے کو سہارے کے لئے مضبوطی سے تھام لیا تھا ، شاید کچھ زیادہ ہی مضبوطی سے ، کیونکہ دونوں پائے الگ ہو گئے اور ٹیبل ان کے سر پر آرہی ۔ ہماری ہنسی فوراً ہی بند ہوگئ ۔ اس خاموشی میں ابا گر جے،’’اب میں نے کسی کی ہنسی سنی تو ایک ہفتہ کے لئے اس کا بیٹھنا بند کر دیا جائے گا ۔‘‘ بھلا بوجھئے تو پہلے کون ہنسا؟

کچھ دنوں کے بعد بیکاری سے تنگ آکر میں نے اپنی ارواح کو طلب کرنے والی ٹیوب سے ایک اور تجربہ کرنے کا ارادہ کیا ۔ میں اپنے کمرے میں کسی جرم کی پاداش میں مقید تھا ۔ اب مجھے اس جرم کی فوعیت بالکل یاد نہیں ۔ایلا اس وقت اپنے کمرے میں پڑھ رہی تھی۔ پہلے میں نے اپنے کمرے کی تمام دراڑیں گنی ، پھر میں نے سوچا کہ میں ایک پرندہ ہوں اور تمام کمرے میں ایک مکھی کو دوڑاتا پھر رہا ہوں ۔اس کے بعد میں نے خود کو ایک بھڑ تصور کیا جو انتہائی آرام سے فضا میں تیرتی پھرتی ہے ۔ میں نے دل میں کہا ،’’بچو! اگر میں بھڑ ہوتا تو اپنا وقت اس طرح مرغیوں کو تنگ کرنے میں ضائع نہ کرتا، میں سیدھا شہر سے نکلتا اور نانا کے گھر جا پہنچتا۔‘‘

میں نے برابر والے کمرے میں ایلا کو پڑھتے پڑھتے ہنستے ہوئے سنا ۔ اسے اتنا خوش ہونے کا حق آخر کس نے دیا ؟ میں نے دل ہی میں کہا اور ساتھ ہی ساتھ اس صریح ناانصافی کا ازالہ کرنے کی ٹھانی ۔ میں نے بستر کے نیچے گھُس کر ٹیوب میں منہ ڈال کر اسے پکارا۔

’’ایلا سیئرس‘‘ میں نے غمناک  لہجے میں کہا ۔ کھر کھر فوراً بند ہوگئی۔’’ آخری وقت آپہنچا ہے ‘‘، میں نے خبر دار کیا ۔’’سینٹ پال تمہیں لینے آرہے ہیں‘‘۔ ایلا نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس لئے میں نے ناٹک کو ایک خوبصورت موڑ دیا ،’’ ایلا گر ٹروڈ ہیلن سیئرس ! تمہارا وقت پورا ہو چکا۔ اب سفر کی تیاریاں کرو ۔‘‘

اس کے بعد ایلا سیئرس نے انتہائی کرخت  مردانہ آواز میں مجھے جواب دیا ۔

’’ایلا سیئرس یہاں حاضر نہیں ہے، بس اس کا باپ پطرس  بول رہا ہوں !‘‘

’’ابا!‘‘  کاش میں حقیقتاً بھڑ ہی ہوتا ۔ میں نے جلدی جلدی ٹیوب میں منہ ڈال کر کہا،’’ ایلا سیئرس میں اب دوبارہ کبھی تمہیں اپنے درشن نہیں کراؤں گا، میں بہشت واپس جا رہا ہوں، خدا حافظ۔‘‘

’’جی نہیں حضور آپ فوراً سے پیشتر یہاں تشریف لائیں ورنہ میں خود آکر آپ کو آپ کے پروں سے پکڑ لاؤں گا ۔‘‘

میں نے ایک سرد آہ بھری اور رینگتا ہوا ٹیوب سے باہر آیا اور انتہائی مردہ دلی سے میدان ِ حشر میں پطرس کے حضور حاضر ہوگیا۔

∞∞∞∞∞

آئندہ: خداخندہ زن،باب۸: چچاڈفی اور شاندار مونچھیں

تحریر: ولیم سیئرس؛ ترجمہ: محمودالحق، ڈھاکہ، بنگلادیش

اس مضمون میں ظاہر کردہ خیالات ونظریات مصنف کے ذاتی خیالات  ونظریات ہیں۔ ان سے ’افکارِ تازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *