باز ، کوّا اور فطرت کی سفاکی

posted in: سائنس | 0

میرا دفترعمارت کی تیسری منزل پر تھا جس کی کھڑکیاں ایک سایہ دار درختوں سے ڈھکی ہوئی شاہ راہ کی طرف کھلتی تھی ۔ ان کھڑکیوں  سے باہر مجھے ایک خوبصورت گاؤں صاف صاف نظر آتا تھا۔ اس گاؤں میں بڑی بڑی درختیں اور انوکھی پرانی عمارتیں نظر آتی تھیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ کام کرتے میں کبھی کبھار ان کھڑکیوں سے باہر دیکھنے میں محو ہو جاتا جہاں زندگی حرکت میں ہوتی ۔ایک دن جب میری ہمکار اور میں دفتر میں ملے تو اس نے کہا،’’ واہ! اس خوبصورت باز کو دیکھو!‘‘ میں مڑا اور میری کھڑکی سے باہر ہم نے دیکھا کہ ایک بڑا سا سرخ دم والا باز آسمان کی بلندی میں  کوّوں کی ایک جھنڈ پر چکر لگا رہا تھا ۔

بحر حال جب ہم اس خوبصورت پرندے کو اُڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے میں نے محسوس کیا کہ مجھے کوّوں کی ایک ہجوم کی زور زور سے کائیں کائیں کرنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے سروں پرباز کی خوفناک موجودگی سے خوش نہیں تھے۔ ایک ہی پل میں ہم سمجھ گئے کہ ایساکیوں ہے کیونکہ ہم نے دیکھا کہ باز نے بڑی تیزی سےغوطہ لگایا تھا۔ ایک گولی کی طرح بڑھتا ہوا وہ کوّوں میں سے ایک سے ٹکڑا یا اور اس سے قبل کہ  کوّا زمین پر گرے سنبھل کر اسے اپنی چنگل میں لے لیا ۔یہ ایک شاندار فضائی کاروائی تھی ۔ دوسرے کوّے گویا پاگل ہو گئے تھے۔ وہ  تیز تیز چیختے ہوئے بازپرجھپٹ رہے تھے ۔

کوا

لیکن باز نے انہیں اَن دیکھا کر دیا ،ایک چھت پر اُترا اور کوّے کو کھانا شروع کر دیا۔ میری ہمکار نے منہ پھیر لیا اور کہا، ’’ اوہ یہ تو وحشت ناک ہے!‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’ ارے ایک منٹ پہلے ہی توتم اس باز کو خوبصورت کہہ رہی تھیں اور اب کیا بدل گیا؟‘‘

ہم نے تھوڑی دیر تک اس بارے میں باتیں کیں اور فطرت کی سفّاکی پر سوچ بچار کرتے رہے اور اس پرمتفق ہوئے کہ یہ فقرہ کہ ’’ فطرت کے دانت اور پنجے سرخ ہیں‘‘ یقیناً اس صورتحال میں درست ہے۔ پھر ہم متجسس ہوگئے کہ ہم دونوں نے یہ فقرہ کہاں سنا ہے ۔ پس میں نے اس کی تلاش کی ۔ معلوم ہوا کہ  یہ  شاعر الفرڈ لارڈ ٹینسن تھا جس کے خدا پر ایمان کو نظریہ ارتقاءنے بُری طرح للکارا تھا۔ اس نے اس مسئلہ پر اپنے احساسات کو ایک نظم کی صورت میں بیان کیا تھا ۔ نظم کا نام تھا ’The Way of Soul‘ (روح کا راستہ) ۔ اس نظم پر برسوں کام کرنے کے بعد اس نے اسے 1849 میں In Memoriam of AHH کے عنوان سے شائع کیا اور اپنے حال ہی میں وصال پائے دوسرے آرتھ ہینری ہالام (Arthur Henry Hallam) کے نام منسوب کیا ۔ اس نظم میں یہ فقرہ بھی ہے ،’’فطرت کے ہاتھ اور دانت سرخ ہیں‘‘۔

ٹینیسن کی یہ خوبصورت نظم نہ صرف ایک عظیم نقصان کے بعد امید کی تلاش کے بارے میں ہے اور نہ صرف یہ انسان کی اخلاقیات کو چھوتی ہے بلکہ سائنس کی روشنی میں روحانی عقیدے کی موت کو بھی۔ Alfred-Tennysonشاعر نے لوگوں سےکہا تھاکہ نظریہ ارتقانے اس کے کام کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔  اس  نے اس کے بارے میں 1844 میں شائع شدہ ایک کتاب میں پڑھا تھا جس کےمصنف کا نام نہیں معلوم تھا ۔ کتاب کا عنوان تھا۔  Vestiges of Natural History of Creation (فطرتی تاریخ کے نقش ہائے قدم) ۔ یہ ڈارون کے نظریہ سے 15سال پہلے کی بات ہے ۔ یہ  کتاب  بہت بڑےتنازعہ کا سبب بنی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دُرُشت ، غیرشخصی اور خونخوار فطرتی دنیا کے بارے میں ابھرتی ہوئی سائنس اُس معاشرے کے بالکل برعکس تھی جہاں خدا پرایمان ، بائیبل اور دین کے الہامی حقائق کی بے چوں و چرا تسلیم کرنے کا غلبہ تھا۔

اسی دور میں امر بہائی بھی دنیا میں آیا۔ یہ انسانوں کے لئے ایک نئی طرح کا دینی عقیدہ لایا تھا ۔ سچائی کی آزادانہ تلاش کے ساتھ ساتھ عقل و منطق  اور دین اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی کوماننے پر زور دیتا تھا ۔

پس سوال یہ ہے کہ بہائی تعلیمات ارتقااور خدا کے سوالات کو کس طرح لیتی ہیں ۔ سادہ سا جواب یہ ہے کہ بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ عالم فطرت جس کا’’دانت اور پنجہ سرخ ہے‘‘ بالکل اسی طرح ارتقاپاتا ہے جیسے کہ سائنس کہتی ہے لیکن یہ کہ انسان جو حیوانی اور روحانی دونوں خصوصیات کا حامل ہے جہد بقا سے ماورا جا سکتا ہے :

”عالم فطرت میں جارحیت ، خون کی پیاس ، جبر، جہد بقا اورغارت گری موجود ہے۔ یہ صفات فطرت کےفطری قوانین ہیں۔ جس طرح یہ جانورفطرت کے اسیر ہیں بالکل اسی طرح انسان بھی فطرت کے ذریعہ اسیر بنا یا جاتا ہے ، مطیع اور مغلوب کیا جاتا ہے۔ مثال کےطورپرغصہ انسان کی بھلائی پ غالب آجاتا ہے، وحشی پن اس پرقابوپالیتا ہے اوروہ سفلی خواہشات کا مطیع ہوجاتا ہے۔ یہ سب کیا ہیں؟ وہ عالم فطرت کے احکام سے بڑھ کرکچھ بھی نہیں۔

صرف وہ افراد ہی جو خدا کو ماننے والے ہیں ، جنہوں نے خدا کی علامتیں دیکھی ہیں ، ملکوت الٰہی کی جانب منجذب ہیں اور اپنے چہروں کو خدا کی جانب کرتے ہیں ، غرض صرف وہ اوروہ ہی فطرت کےخون آلود پنجےسے آزاد ہیں۔ حالانکہ پہلے وہ فطرت کے مطیع تھےاب وہ حکمران بن جاتے ہیں۔ حالانکہ پہلے وہ فطرت کے زیرتسلط تھے اب وہ اس پرقابض ہوجاتے ہیں۔ مختصرجبکہ فطرت انسان کو انا اورنفس کی جانب پکارتی ہے ، عشق الٰہی اسے پاکیزگی اورپرہیزگاری ، انصاف اور سخاوت ، رحم اورانسانیت کی جانب راغب کرتی ہے۔

(عبدالبہاء،اسٹار آف دی ویسٹ، جلد 4 ، صفحات ۱۸۲-۱۸۱)

آئندہمضمون: کیاانسان روحانی طور پربھی ارتقاپاتے ہیں۔

اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں۔ یہ لازما افکار تازہ یا امر بہائی کے کسی ادارے کی رائے ظاہر نہیں کرتے۔

یہ مضمون BAHAITEACHINGS.ORG کے لئے ڈیوڈ لینگنس نے تحریر کیا۔ شمشیر علی نے اسے ترجمہ کیا اور مصنف کی اجازت سے" افکار تازہ" میں شائع کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *