BIHE پروفیسرفرہاد صِدقی کاجیل سے ایک خط

رجائی شہرجیل خانہ سے BIHE پروفیسر فرہاد صِدقی کااپنے پوتی پوتوں کے نام ایک خط جنہوں نے ستمبر 2014میں اسکول جانا شروع کیا ہے

میرے عزیز و !میری پُر محبت تکبیرات !

اسکول میںFarhad Sedghi تمہارے پہلے سال کے موقع پر میں تمہیں یہ خط لکھ رہا ہوں ۔ تم باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے والے ہو تاکہ نوع بشر کے لئے مستقبل میں ایک بہتر اور پُر امن معاشرہ بنا سکو اور اس طرح  سب  لوگوں کی خدمت کرو۔

سب سے پہلے میں قادرمطلق خدا سے التجا کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ تم پر اپنی عنایت برسائے اورتمہیں اپنی حفاظت میں رکھے۔ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تم کو اپنی تائیدات سے نوازے تاکہ تم نوع بشر کی، اپنے ہم وطنوں کی اور اپنے ملک کی اپنی بھر پور صلاحیتوں تک خدمت کر سکو۔

تمہیں یہ اچھی طرح معلوم ہو کہ میں تم سے بہت زیادہ پیار کرتا ہوں اورمسلسل تمہارے لئے دعائیں کرتارہتا ہوں ۔

نوع بشر ایک بے نظیر کا یا پلٹ کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ تمہیں اور تمہارے ہم وطنوں کو بشمول دنیا بھر کے شہریوں کے ایک نئے عالمی نظام اور نئی تہذیب کی بنیاد گزاری کرنا ہی ہوگا۔ یہ سب پر ایک ایسی بھاری ذمہ داری ہے جو بالآخر پوری دنیا پر دوستی ، امن ، پیار، اور ہم آہنگی کے چھا جانے پر منتج ہو گی اور تمہارے لئے ایک ورثہ ہوگا۔ ہم پر ایسی ایک دنیا پہلے ہی طلوع ہو چکی ہے جو خدا کے وعدوں پر مبنی ہے اور یقیناً ناگزیر ہے ۔

اب مجھے مختصراً تمہیں تعلیم اور سکھلائی کے عمل کے بارے میں بتانے دو۔

حضرت بہاءاللہ فرماتے ہیں :

”علم آدمی کی زندگی کے لئے پروں کی طرح ہے اور اس کی ترقی کے لئے ایک سیڑھی ۔ اس کا حصول ہر ایک پر فرض ہے۔ تاہم ایسے علوم حاصل کئے جانے چاہئیں جو دھرتی کے لوگوں کو فائدہ پہنچا سکے، اور ایسے نہیں جو الفاظ سے شروع ہوں اور الفاظ پر ہی ختم ہو جائیں۔“

حضرت عبدالبہاءنے بھی نشاندہی فرمایا ہے:

’’درحقیقت غورو فکر و تدبر کے بغیر خواہ کسی فرد کے لئے ہو یا قوم کے لئے تمام ترقیوں اور پیشرفتوں کی بنیاد ناممکن ہے؛ پس تمہیں سائنس اور علم کے حصول کے لئے بھر پور کوششیں کرنی چاہئیں۔“

پس یہ بات یقینی ہے کہ ایک بہتر ماحولِ زندگی پیدا کرنے کی خاطر اور پیشرفت ، ترقی اور معاشرے کی بہبودی کے لئے اور سماج کی اچھی طرح خدمت کرنے کے واسطے لوگوں پر علم حاصل کرنا فرض ہے ۔

میرے پیارے صِدرُخ ، فاران اور سینا!

تمہارے ذہنوں سے بار بار یہ سوال گزرا ہو گا کہ آخر تمارے دادا قید میں کیوں ہیں ۔ تم نے یہ یقینا یہ سوال اپنے والدین سے بھی کیا ہوگا اور انہوں نے اس کا جواب بھی دیا ہوگا ۔ تاہم آج میں خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہو تمہارے لئے اس کی خود تشریح کرنا چاہوں گا ۔ تاکہ تم جان سکو کہ ایسا کیوں ہے۔

حالانکہ حصولِ علم کسی ملک میں رہنے والے ہر ایک فردکا حق ہے اور بعض افراد کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم کرنا غیر قانونی ہے تاہم اب 35سال سے زیادہ ہو چکا ہے کہ بہت سے خواہشمند بہائی جوانوں کو اس ملک (ایران) کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے ۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ بہائی جوانوں کو غیر قانونی طور پر یونیورسٹیوںمیں تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا ہے اور ان کو اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرنے دیا جاتا رہا ہے اور یہ بھی نوٹ کرتے ہوئے کہ امر بہائی میں تعلیم کی کتنی اہمیت ہے، جس کی میں پہلے تشریح کر چکا ہوں، اپنے میدانوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مضبوط تعلیمی پس منظر اور کا فی معتبر بہائیوں نے ،جو یونیورسٹیوں میں معلمیں اور پروفیسر ز کے طور پر خدمت بھی انجام دے چکے تھے، یہ فیصلہ کیا کہ ان خواہشمند جوانوں کو پڑھانا شروع کریں گے اور انہیں موجود زمانے کی یونیورسٹیوں کی تعلیم سے آشنا کریں گے۔اس کے نتیجے میں 26سال قبل بہائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن (BIHE) نے جنم لیا۔ میں، تمہارا دادا ، بھی اس کے ایام آغاز سے ہی اس گروپ میں شامل ہوگیا تاکہ میں اپنے تجربے کے میدان میں تعلیم دے سکوں۔ اور میں انتہائی فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں نے اس انسٹی ٹیوٹ کی 24برس تک بڑی خوشی سے خدمت کی ہے۔

در حقیقت یہ وہی انسٹی ٹیوٹ ہے جہاں تمہارے والدین نے بھی تعلیم پائی ہے ۔ اب وہ اپنے ملک اور نوع بشرکی ایک بہت ہی بڑی قابلیت کے ساتھ اونچی سطح سے خدمت کرنے کے قابل ہیں ، اور ساتھ ہی اپنے خاندان کے لئے روزی روٹی بھی فراہم کر پا رہے ہیں ۔

تمہارے ابو اور امی کی طرح ہزاروں لوگوں نے اس انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کی ہے جو اپنے لئے کافی بین الاقوامی ساکھ بناچکی ہے ۔بشمول ہارورڈ بہت ساری یونیورسٹیاںBIHE کے گریجوئیٹش کو داخلہ دیتی ہیں تاکہ وہ اپنی پوسٹ گریجوئیشن کی تعلیم جاری رکھ سکیں حتیٰ کہ وہاں اپنی ڈاکڑئیٹ کر سکیں ۔اب تک جو کچھ حاصل کی جا چکی ہے وہ صرف قادر مطلق خداکے فضل سے ہے۔

حالانکہ ہر دوسرا معاشرہ ، دین اورملک BIHE پر ہمارے کام کی تعریف کرتا ہے اور اسے خدا کو پسندیدہ ایک اچھا کام خیال کیا جاتا ہے ۔ تاہم BIHE کے تدریسی اور غیر تدریسی اسٹاف کو اس طرح کی ایک تعلیمی انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم دینے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا اور یکم مئی 2011کو قید کر دیا گیا ۔ میں ان میں سے ایک ہوں۔ ہماری خدمات کی تعریف بہت سارے معزز لوگ کرتے ہیں جن میں نوبل امن لارئیٹس،اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، وائس چانسلرز، اور دنیابھر کی مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسرز ، بہت سے بین الاقوامی آرگنائزیشنز، اور مختلف ملکوں کے پارلیمنٹس شامل ہیں۔ وہ سب اجتماعی طور پر ہماری غیرہ مشروط رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ہمارے ملک نے ان کی پکار کی کوئی پرواہ نہیں کی ہے ۔ مشہور بین الاقوامی شخصیات اور اداروں کے اس اقدام نے بہت سے بہائی جوانوں کے لئے دنیا بھر میں بہت سی یونیورسٹیوں میں اپنی تعلیم جاری رکھنا اور وہ جس معاشرہ میں رہتے ہیں اس کی خدمت کرنا ممکن بنایا ہے ۔بحر حال تمہیں مستقبل میں اعلیٰ تعلیم کے لئے زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہئے ۔ تمہیں اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ میں قید خانے میں ہوں کیونکہ یہ خدا کی مرضی اور حق کی طرف سے مجھ پر فضل و کرم کی بارش کےسوا اور کچھ نہیں ۔

میرے عزیز ترین پوتے پوتیو!مجھے اب قید خانے میں تین سال ہو چکے ہیں ۔ اگلا سال جو 2015ہے، میں تقریباً تمہاری سالگرہ کے وقت تک رہا ہو جاؤں گا اور میں تمہارے ساتھ ہوں گا۔

میرے عزیز ترین فاران، سینا اور صِدرُخ!

اس بار میرا خط کچھ طویل ہو گیا ہےاور کچھ کچھ سنجیدہ بھی ۔ لیکن اگلی بار میں ایک بہتر خط لکھوں گا ۔دوسری طرف اب میں تمہارے لئے ایک چھوٹی سی کہانی لکھوں گا جو ”غیر مشروط پیار“نامی ایک کتاب سے لی گئی ہے ۔ اس کہانی کی سرخی ہے”یاد داشت“۔

کہا جاتا ہے کہ دو دوست ایک سفر کے دوران سحرا میں پیدل چل رہے تھے۔ راستے میں ان میں ایک بحث چھڑ گئی اور ایک دوست طیش میں آگیا ۔ اس نے اپنے دوست کو ایک زنانے دار تھپر رسیدکر دی ۔جس نے تھپر کھایا تھا وہ ناراض ہو گیا لیکن چُپ رہا اور اپنی انگلی سے ریت پر لکھ دیا کہ ”آج ایک دوست نے مجھے تھپڑمارا ہے۔“ انہوں نے سحرا میں اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ ایک نخلستان تک پہنچ گئے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہاں ٹھہرکر تالاب کے کنارے کچھ وقت آرام کر لیں ۔جب وہ آرام کر رہے تھے تو اچانک جس دوست نے تھپر کھایا تھا وہ پھسل کر پانی میں گر گیا اور تقریباً ڈوبنے ہی والا تھا ۔ لیکن اس کا دوست مدد کو پہنچ گیا اور اسے بچا لیا ۔پانی سے باہر نکل کر اس نے ایک پتھر پر نقش کر دیا کہ ”آج میرے سب سے اچھے دوست نے میری جان بچائی ہے ۔“!

 اس پر پہلے دوست نے حیرانگی سے پوچھا : جب میں نے تمہیں تھپڑ مارا تھا تو تم نے ریت پر لکھا تھا لیکن اس بار تم نے اسے پتھر پر کندہ کیا ۔ آخر کیوں؟

دوسرا دوست مسکرایا اور کہا: ”جب کوئی تکلیف پہنچائے تو ہمیں ریت پر اپنے احساسات لکھنا چاہئے تاکہ معافی کی ہوا اسے اُڑا کے لے جائے ۔ لیکن جب کوئی ہم سے پیار اور مہربانی کا مظاہرہ کرے تو ہمیں اس بات کو پتھر پر کندہ کر دینا چاہئے تاکہ کوئی ہوا اسے مٹا نا سکے ۔“

میرے پیارو! مجھے امید ہے کہ تم سب خیریت سے ہو اور خوش باش اور گھر کے کام کاج میں اپنے ابو اور امی کا ہاتھ بٹاتے ہو۔ اپنی بساط بھر خوب پڑھائی کرو اور علم حاصل کرو ۔اپنی لکھائی کو اور بھی زیادہ خوبصورت بنانے کی کوشش کرو حتیٰ کہ تم ایک ماہرخطلاط بن جاؤ۔ڈرائنگ کو مت بھولنا ! میں دور سے تمہیں پیار کرتا ہوں ۔ خدا تمہارے ساتھ ہو اور تمہاری حفاظت کرے!

پیار

تمہارے دادا فرہاد

ہال 12، رجانی شہر قید خانہ

(بشکریہ ایڈیٹر ایران پریس واچIRANPRESSWATCH.ORG ،سورس: taraneh.org، ترجمہ:ایڈیٹر افکار تازہ)

(یہ ایک بہائی انسپائرڈ صفحہ ہے لیکن کسی بہائی ادارے سے رسمی طورمنسلک نہیں۔ اس میں ظاہر کردہ خیالات لکھنے والے کے ذاتی خیالات ہیں اور کسی بہائی ادارے یا افکار تازہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *