انفرادی، بومی اورگروہی ارتقاء

posted in: سائنس | 0
Peter_Kropotkin_circa_1900
پیٹر کروپوٹکن

اس سلسلےکےگزشتہ مضمون میں ہم نےجدید ارتقائی نظریے پر توجہ مر کوز کی تھی ۔ یہ وہ عام طور پر قبول کیا جانے والا نظریہ ہے جس پر آج کے سائنسدانوں کی اکثریت عمل کرتی ہے ۔ یہ سنتھیسس (synthesis) ہزاروں تحقیقی مطالعوں اور خود آثارقدیمہ (fossil)رکارڈ سے ثابت شدہ ہے اور ڈارون کے تبدیلیء نوع (modifications of species) کے نظریہ کو جدید تر سائنس کے نتائج کے ساتھ یکجاکرتی ہے جس میں مشہور روسی سائنسدان ، جغرافیہ دان اور ارتقائی نظریہ کار (Theorist) پیٹرکروپوٹکن (Peter Kropotkin )کے انکشافات بھی شامل ہیں۔

تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھنے والی اپنی کتاب ‘‘باہمی مدد: ارتقاءکا ایک عنصر’’(Mutual Aid: A Fact of Evolution) میں کروپوٹکن نے تشریح کی ہےکہ ارتقاءبنیادی طورپرباہمی تعاون کا عمل ہے نہ کہ ایک ایسا عمل جو مقابلہ پر مبنی ہو۔ کروپو ٹکن کے کام نے اسے باور کرایا کہ تمام زندگیوں کی باہمی جدوجہد میں یہ نامیاتی تعاون شروع ہوتا ہے اور افراد کی باہمی مدد میں اپنے عروج کو پہنچتا ہے جہاں افراد ایک دوسرے کو آزادی سے دیتے ہیں جو پھرباہمی انتخاب کا موجب ہوتا ہے۔

نظریہء کروپوٹکن جسے اب درست تسلیم کیا جاتا ہے اور نئی سنتھیسس میں شامل کیاگیا ہے اور ساتھ ہی اسے ماحولیات کے بنیادی ا صولوں میں شامل کر کے یہ نتیجہ اخذ کیاگیاہے کہ ‘‘مقابلے کی بجائے تعاون پرارتقاءکے دارومدار’’نے تمام انواع کی ارتقاءکو آگے بڑھایا جس میں انسان بھی شامل ہے ۔ سماجی ڈارونیت پسندوں نے جس شدید درجہ بہ درجہ مقابلے کے تجویز پیش کی اس کی بجائے کروپوٹکن نے لکھا کہ تمام انواع(species) کی اکثریت سماجوں کےگروہوں یامعاشروں میں زندگی بسر کرتی ہے اور اپنی باری میں وہ معاشرے فرد کی ارتقائی بڑھوتری کی پرورش اور سہلکاری کرتے ہیں:

”حیوانی انواع میں۔۔۔ جس میں انفرادی جدوجہد کوکم از کم حدود تک محدودکردیاگیا ہے ۔۔۔اور امداد باہمی کے عمل نے سب سے زیادہ ترقی حاصل کی ہے ۔۔۔ اور باہمی تعاون نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے ۔۔۔اور جو بلا استثناء سب سے زیادہ تعداد میں ہیں، سب سے زیادہ خوشحال ہیں، اور مزید ترقی کے لئے سب سے زیادہ آمادہ ہیں ۔۔۔ وہاں ڈارونیت کے معنوں میں ارتقاء کا زور مقابلے کی بجائے تعاون پرہے جوانواع بشمول انسان کی کامیابی کا باعث بنی ہے۔

 کروپوٹکن نے اپنے سائنسی انکشافات کی بنیادتعاون کی جانب اُن رجحانات کے وسیع مطالعہ پر رکھا تھا جنہوں نے قبائلی اور بومی لوگوں کاوجودقائم رکھا تھا ۔ یہ کافی حد تک ظاہر کرتا ہے کہ مقابلے نے ہمیشہ تمام انسانی سماجی تنظیموں میں غالب کردار ادا نہیں کیا ۔ درحقیقت اس کی تحقیق نے اسے باور کرایا کہ اکثر قبل ازصنعتی معاشروں نے باہمی مدد اورکفالت کے طریقےدریافت کئے ۔ ان بومی معاشروں نے ایسے طریقے نکال لئے تھے جس سے وہ نسل در نسل یا طبقات میں دولت کے ارتکاز کو محدود کرسکیں اوراس طرح انہوں نے گروہوں میں وسائل کی زیادہ منصفانہ تقسیم اورایک زیادہ تعاون والے اورمساوات پر مبنی ڈھانچے کی ضمانت فراہم کی تھی۔اس ڈھانچے نے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی صحت اورخوشحالی کویقینی بناتے ہوئے نوع کی کفالت کی گنجائش پیدا کی اورافراد نے سماجی یونٹ کو زیادہ سے زیادہ قوت اور پیوستگی(cohesiveness )بخشا۔

ارتقاءکے بارے میں بات چیت میں انسانی ترقی سے متعلق یہ انتہائی اہم عنصراکثرچھوٹ جاتا ہے۔ حالانکہ یہ نظریہ ء ارتقاءکی سنتھیسس کا ایک مسلم اور بنیادی جُزوبن چکا ہے۔

جیسا کہ موحولیات کے سائنس اور DNAکے بارے میں نئے انکشافات دونوں نے ظاہر کیا ہے، اب سائنسی سماج یہ پوری طرح تسلیم کرتا ہے کہ تعاونی بین العمل کا اس بات پر کافی اثر ہوتا ہے کہ ہم کیسے ارتقاءپاتے ہیں ۔

بہائی تعلیمات اس سے متفق ہیں ۔ ان کے دین نے اتحاد ، پُرامن تعاون اور باہم دیگریت پر جوزوردیا ہے اس کے ہوتے ہوئے بہائی انسانی ارتقاءکے عمل کو ایک ایسا عمل دیکھتے ہیں جو انواع، لوگوں اور قوموں کے درمیان بین العمل ، اتحاداورہم آہنگی پر زیادہ سے زیادہ زوردیتا ہے ۔ امر بہائی اس بات پرزوردیتا ہے کہ امداد باہمی اور مساعدت کی یہ بڑھوتری بنیادی طور پر انسانیت کے اعلیٰ تر روحانی جبلت اورکوششوں سے آتی ہے جو وہ قوت ہےجو تعصبات ، نفرتوں اور جنگوں کو مٹانے کے لئے کام کرتی ہیں کہ یہ چیزیں انسانی ارتقاءکو سُست کر دیتی ہیں ۔

”اورحضرت بہاءاللہ کی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ دینی، نسلی، سیاسی ،معاشی اورحب الوطن پرمبنی تعصبات انسانیت کی عمارت کو تباہ کر دیتے ہیں ۔ جب تک یہ تعصبات رائج ہیں عالم انسانیت کو چین نصیب نہیں ہوگا کیونکہ چھ ہزار سال کے عرصے تک کی انسانی تاریخ ہمیں یہ ہی بتاتی ہے۔ ان چھ ہزارسال کے دوران عالم انسانی جنگ، لڑائی جھگڑے ، قتل اور خون کی پیاس سے آزاد نہیں رہی ۔ ہردور میں کسی ایک یا دوسرے ملک میں جنگ کی جاتی رہی ہےاوروہ جنگ یا تودینی تعصب، نسلی تعصب ، سیاسی تعصب یاپھر حب الوطنی پر مبنی تعصب کی وجہ سے تھی ۔ پس یہ بات ثابت اوریقینی ہے کہ تمام طرح کے تعصبات انسانی عمارت کو تباہ کرنے والے ہیں۔ جب تک یہ تعصبات قائم رہیں گے جہد بقا غالب ہی رہے گی، اور خون کی پیاس اورغارتگری جاری رہے گی ۔ پس جیسا کہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوا تھا عالم انسانی کو فطرت کی تاریکی سے نہیں بچایا جا سکے گا اور یہ تعصبات کو ترک کرنے اور ملکوت کی اخلاقیات کے حصول کے بغیر نورانیت تک نہیں پہنچ سکے گی ۔“

(حضرت عبدالبہا ء، سیلکشن فرام دی رائیٹنگز آف عبدالبہاء، صفحہ 299)

ہم کیسے ارتقاءکرتے ہیں اس بارے میں پیچیدہ طبعی مطالعہ کو سمجھنے میں کروپوٹکن کا باہمی مددو مساعدت کانظریہ ہماری مددکرتا ہے ۔ اس استدلال کا استعمال کرتے ہوئے کہ کس طرح ریاست انفرادی جسم کی صحت کی سہلکاری کرتی ہے اور ایک نوع کی حیثیت سے ہماری ارتقائی ترقی کوجنم دیتی ہے۔ یہ نظریہ مقابلہ کو تعاون کے ساتھ متوازن کرتا ہے۔

اب آئندہ جب آپ ارتقاءپرغوروفکرکریں تواسےان پیراؤں سے دیکھنے پر بھی توجہ دیں ۔ ایسی جہد بقاءکی بجائے جو انفرادی بقائے اصلح پر زور دیتا ہے ایک اس کے بارے میں باہمی مدداورمساعدت کےایک اپنے نظام کے طور پرسوچیں جو ہم آہنگی سے پورے نوع کو ترقی دینے کے لئے کام کرتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ آپ میں دوسروں کے ساتھ ایک سودمند تعلق پیدا کرنے کی خواہش پیدا کر سکتا ہے اورآپ کو اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ ہمدردی اوراتحاد کے بڑھتے ہوئے احساس کی طرف لے جاسکتاہے ۔

آئندہ مضمون: خود کو فطرت کی قید سے آزاد کرانا

(یہ مضمون BAHAITEACHINGS.ORG کے لئے ڈیوڈ لینگنس نے تحریر کیا۔ شمشیر علی نے اسے ترجمہ کیا۔ یہ جہدبقاء کے سلسلے کا چوتھامضمون ہے۔اس میں پیش کئے گئے خیالات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں۔ یہ لازما افکار تازہ یا امر بہائی کے کسی ادارے کی رائے ظاہر نہیں کرتے۔)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *