طہران کے سات شہید

posted in: تاریخ | 1

خدا نے سچائی کی ایک دلیل یہ مقررفرمائی ہے کہ جو لوگ خدا اور اس کے مظہرِ ظہور پر ایمان لاتے ہیں وہ اپنے دین کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ۔ کوئی بھی آزمائش ان کے پائے استقامت میں لرزش پیدا نہیں کرتی ، وہ اپنی مال و دولت، مقام و مرتبہ، یہاں تک کہ اپنی جان قربان کر دیتے ہیں لیکن اپنے ایمان کے خلاف کوئی بھی بات زبان سے نہیں نکالتے۔

تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں ۔ ہر ظہور کے دور میں ایسا ہی ہوا ہے۔ اور اس زمانے میں جو ’’زمانوں کا بادشاہ‘‘ ہے اہل ایمان نے اپنی سچائی کی دلیل میں اس قدر قربانیاں پیش کی ہیں جس کی مثال تمام سابقہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ مضامین کے اس سلسلے میں ہم تاریخِ نبیل سے ایسے ہی واقعات کو نقل کریں گے جو اس دور بہائی کے شہدا کے حالات پر مبنی ہونگے ۔ تاریخ نبیل کے صفحات پر طہران کے سات شہیدوں کا ذکربھی ثبت ہے ۔ تاریخ نبیل کا مصنف لکھتا ہے:

’’حضرت باب کے چودہ مومنین کو گرفتار کر کے میئر محمد خان کے گھر میں قید کر دیا گیا ۔ ۱۶ فروری سے ۱۵ مارچ ۱۸۵۰ تک انہیں وہیں رکھا گیا ۔ اسی گھر کی اوپر والی منزل میں حضرت طاہرہ بھی نظر بندتھیں ۔ ان لوگوں کے ساتھ بہت بُرا سلوک اور ظالمانہ رویہ روا رکھا گیا تاکہ  کسی نہ کسی طرح حکام کو کچھ معلومات فراہم ہو جائیں ۔ لیکن انہوں نے مطلوبہ اطلاعات فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔ ان قیدیوں میں ایک محمد حسین مراقی بھی تھے جنہوں نے منہ سے ایک حرف بھی نکالنے سے واضح طور پر انکار کر دیا تھا ۔ ان کی زبان کھلوانے کے لئے انہیں مارا پیٹا گیا اور کئی طرح سے ان پر اذیتیں ڈھائی گئیں لیکن انہوں نے زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکالا ۔ ظالموں کو ہر طرح سے ناکامی ہو گئی ۔ یہاں تک کہ ان کی خاموشی کو دیکھ کر وہ یہ خیال کرنے لگے کہ محمد حسین گونگے ہیں ۔ انہوں نے جناب حسین مراقی کے مبلغ حاجی ملا اسمعیل سے پو چھا،’کیا یہ شخص پہلے باتیں کیا کرتا تھا ؟‘ انہوں نے جواب دیا ،’ یہ خاموش ضرور ہے لیکن گونگا نہیں ۔ یہ تو بڑی روانی سے باتیں کرتا ہے اور اس کے لہجے میں ذرا سی لکنت بھی نہیں ہے ۔‘اس کے بعد آپ نے پکارا ،’ جناب محمد حسین‘۔ اس پر مظلوم نے فوراً جواب دیا اور اپنے مبلغ کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے حکم کی تعمیل کے لئے تیار ہیں ۔

جب سرکاری اہل کاروں کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اس شخص کو جھکانا ان کے بس سے باہر ہے تو انہوں نے محمد خان میئر کو اس بارے میں رپورٹ پیش کر دی ۔ محمود خان نے اس رپورٹ کو اوپر بھیج دیا ۔ یعنی اسے سلطان ناصر الدین شاہ کے وزیر اعظم امیر نظام مرزا تقی خان کے سامنے پیش کر دیا۔

ان دنوں بادشاہ اس مظلوم جماعت پر بذات خود کوئی اقدام کرنے سے احتراز کرتا تھا۔ بلکہ وہ اکثر ان مظالم سے بالکل بے خبر ہوا کرتا تھا جو اس مظلوم گروہ پر ڈھائے جا رہے تھے یا ان کے بارے میں جو فیصلے کئے جاتے تھے ان کی خبر اسے نہیں ہوتی تھی ۔ وزیر اعظم کو اس معاملے کو نپٹانے اور مناسب اقدام اور فیصلے کرنے کے پورے اختیارات ملے ہوئے تھے۔ کوئی بھی اس فیصلے پر اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا اور نہ کسی میں یہ جرأت تھی کہ وہ وزیر اعظم پر تنقید کر سکے کہ وہ کس طرح اپنے اختیارات کا استعمال کرتا ہے۔ بہر حال اس رپورٹ کے ملتے ہی اس نے ایک قطعی حکم جاری کر دیا کہ ان چودہ قیدیوں میں سے جو بھی اپنے عقائد سے توبہ کرنے پر راضی نہ ہوا اسے قتل کر دیا جائے ۔ ان میں سے سات نے گھبرا کر ظلم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ۔ انہیں فورا ہی رہا کر دیا گیا ۔ جو سات ڈٹے رہے وہ طہران کے سات شہیدوں کے نام سے زندہ ہیں :

۱۔ حاجی مرزا سید علی

حاجی مرزا سید علی کا لقب خال اعظم تھا ۔ آپ حضرت باب کے ماموں تھے۔ حضرت باب ابھی چھوٹے ہی تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا تھا ۔ آپ کی پرورش آپ کے انہی ماموں نے فرمائی تھی ۔ جب حضرت باب حجاز مقدس کی زیارت کے بعد شیراز واپس آئے اور حسین خان نے آپ کو قید میں ڈال دیا تو یہ آپ کے یہی ماموں تھے جنہوں نے تحریری طور پر آپ کی ضمانت دی تھی ۔ آپ کے یہی ماموں تھے جنہوں نے اس وقت انتہائی لگن اور جذبے کے ساتھ حضرت باب کی خدمت کی تھی جب وہ آپ کی حفاظت میں تھے ۔ آپ کے یہی ماموں تھے جو حضرت باب اور ان زائرین کے درمیان رابط کے فرائض انجام دیتے تھے جو آپ سے ملنے کے لئے جوق در جوق شیراز آیا کرتے تھے ۔۔۔۔۱۲۶۵ھ کے اواخر ( ۹۔۱۸۴۸ء) میں حاجی مرزا سیدعلی شیراز سے روانہ ہوئے اور قلعہ چہریق میں حضرت باب سے ملاقات کی ۔ اس کے بعد آپ طہران چکے گئے ۔ وہاں اگر چہ آپ کو کوئی خاص کام نہیں تھا لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آپ وہاں اس وقت تک مقیم رہے جب حالات نے وہ افسوسناک پلٹا کھایا جس کے دوران آخر کار آپ کو شہادت کا مرتبہ نصیب ہوا ۔

آپ کے دوستوں نے پہلے ہی آپ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ طہران سے چلے جائیں کیونکہ طہران کے حالات تیزی سے بگڑ رہے تھے ۔ لیکن آپ نے ان کے مشوروں پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ آپ آخری دم تک اپنے ایمان پر ڈٹے رہے اور تمام حالات کا مقابلہ کرتے رہے اورتمام مظالم برداشت کرتے رہے ۔ آپ کے جاننے والوں میں سے کئی بڑے بڑے تاجروں نے آپ کی طرف سے آپ کی جان بچانے کے لئے تاوان ادا کرنے کی پیش کش بھی کی لیکن آپ نے ان پیش کشوں کو مسترد کر دیا ۔ آخر کار آپ کو امیر نظام کے روبرو لایا گیا ۔ اس نے آپ کو مخاطب کر کے کہا ’’ اس ملک کا منصف اعلی ( چیف جسٹس) پیغمبر کی اولاد پر معمولی ساز خم لگانے پر بھی راضی نہیں ہے ۔ شیراز اور طہران کے کئی بڑے بڑے تاجر آپ کا خون بہا دینے کو تیار ہیں ۔ ملک التجار نے بھی آپ کی طرف سے مداخلت کی ہے ۔ ہمارے لئے تو آپ کا فقط ایک جملہ ہی کافی ہے ۔ صرف ایک جملے میں آپ اپنے عقائد سے توبے کا اظہار کریں ۔آپ کا ایک جملہ ہی آپ کی باعزت رہائی اور پورے احترام اور وقار کی بحالی کے ساتھ شیراز واپسی کی ضمانت ہوگا ۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر آپ نے توبہ کر لی تو آپ کی زندگی کے باقی دن اپنے بادشاہ کی پناہ اور سائے میں بہت ہی عزت و وقار کے ساتھ بسر ہونگے۔‘‘

جناب حاجی مرزا سید علی نے بڑی متانت سے جواب دیا ’’جناب عالی ! اگر مجھ سے پہلے جن لوگوں نے ہنسی خوشی جام شہادت نوش کیا ہے وہ ایسی ہی پیش کش مسترد کر چکے ہیں جیسی آپ میرے سامنے رکھ رہے ہیں تو یقین جانیں میں ایسی درخواست کو ٹھکرانے میں پیچھے نہیں رہوں گا ۔ اگر میں نے اس ظہور کا انکار کر دیا تو یہ انکار اس سے پہلے آنے والے تمام ظہوروں کے انکار کے مترادف ہو گا ۔ سید باب کی مشن کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا دراصل اپنے باپ دادا کے دین سے پھر جانے کے برابر ہے ۔ اس سے حضرت محمدﷺ ، حضرت موسیؑ اور دیگر تمام پر جو کلام اترا ہے اس کا انکار ہو جائے گا ۔ خدا جانتا ہے کہ میں نے ان پیغمبروں کے قول و فعل کے بارے میں جو کچھ سنا اور پڑھا تھا وہ سب کے سب مجھے اپنے اس نوجوان عزیز میں دیکھنے کا افتخار حاصل ہوا ہے ۔ میں نے اسے بچپن کے ابتدائی دنوں سے لےکر اس کی عمر کے تیسویں برس تک دیکھا ہے ۔ اس کی ہر بات اور ہر عمل سے مجھ میں اس کے اعلیٰ مر تبت اجداد اور اس کے دین کے مقدس اماموں کی زندگی کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔۔۔ میری آپ سے بس اتنی درخواست ہے کہ آپ مجھے اپنے عزیز پر جان قربان کرنے والوں میں پہلا فرد ہونے کا شرف بخش دیں ۔‘‘

یہ جواب سن کر امیر نظام ہکا بکا رہ گیا ! انتہائی بےبسی کی حالت میں منہ سے ایک لفظ ادا کئے بغیر اس نے اشارہ سے حکم دیا کہ انہیں پرے لے جا کر ان کا سر قلم کر دیا جائے ۔ جب جناب سید علی کو قتل کیا جا رہا تھا لوگوں نے سنا کہ وہ حافظ شیرازی کا یہ شعر پڑھ رہے تھے :

شکر خدا کہ ہر چہ دلم خواست از خدا

بر منتہائی مطلب خود کامران شدم

پھر آپ نے ان لوگوں کو مخاطب کیا جو آپ کو دیکھنے کے لئے جمع تھے ’’ لوگو سنو! میں نے خود کو راضی خوشی امر اللہ کی راہ مین شہادت کے لئے پیش کیا ہے ۔ پورا صوبہ فارس اور ایران کے سرحدوں کے پرے عراق کے لوگ بھی بے جھجک میرے کر دار کی پختگی ، میری خلوص اور نیکی اور میری اعلیٰ نسبی کی گواہی دیں گے ۔ تم ہزار برس سے زیادہ خدا سے دعائیں مانگتے رہے ہو کہ قائم موعود ظاہر ہو ۔ اس کے نام کے ذکر پر کتنی بار تم نے دل کی گہرائی سے رو رو کر التجا کی ہے ، ’ اے خدا ! ان کی آمد میں جلدی کر اور ان کے ظہور کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں دور فرما !‘ اور اب جب وہ آچکے ہیں تو تم نے انہیں دور دراز کے علاقے آزر با ئیجان کے ایک غیر آباد قلعے میں جلا وطن کر دیا ہے ۔ جہاں وہ افسوسناک حالت کا سامنا کر رہے ہیں ۔ تم ان کے ساتھیوں کو مٹانے کے لئے کمر بستہ ہو گئے ہو ۔ اگر میں تمہیں بد دعا دوں تو مجھے یقین ہے کہ تم پر خدا کا درد ناک عذاب آن پڑے گا ۔ لیکن میری دعا ایسی نہیں ہو گی ۔ میں اپنی آخری سانسوں کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ خدا تمہارے قصوروں کے داغ کے دھو ڈالے اور تمہیں خواب غفلت سے بیدار کر دے۔‘‘

تاریخ کی مشہور کتاب ’’ مقالہ ٔسیاح‘‘ میں لکھا ہے کہ اس مقام پر جناب حاجی مرزا سید علی نے اپنی پگڑی اتار دی ، اپنا رخ آسمان کی طرف پھیرا اور کہا ’’ اے خدا ! تو گواہ ہے کہ یہ لوگ کس طرح تیرے سب سے بڑھ کر قابل احترام پیغمبر کی اولاد کو بے قصور قتل کر رہے ہیں ‘‘۔ پھر آپ نے جلاد کو مخاطب کیا،’’ اس سے دوری کا غم مجھے کب تک قتل کرتا رہے گا ؟ میرے سر کو تن سے جدا کردے تاکہ میرا محبوب مجھ پر ایک اور سر سجا دے ۔‘‘

ہم پھر تاریخ نبیل کی طرف آتے ہیں ۔ بنیل لکھتا ہے ’’ ان الفاظ نے ان کے جلاد کے پورے وجود کو ہلا رکھ دیا ۔ اس نے بہانہ بنایا کہ اسے تلوار کو تیز کروانا ہے لیکن وہ پھر لوٹ کر واپس نہ آیا ۔ بعد میں وہ رو رو کر لوگوں سے بیان کیا کرتا تھا ۔ ’’ جب مجھے ملازمت دی گئی تھی تو کہا گیا تھا کہ میرے حوالے ایسے مجرم کئے جائیں گے جنہیں قتل ، ڈاکہ یا رہزنی کے جرم میں سزائے موت دی گئی ہوگی ۔ لیکن آج مجھے جس ہستی کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ کسی صورت میں بھی خود امام موسی کاظم سے کم رتبے کا حامل نہیں تھا ۔“ اس واقعہ کے فوراً بعد وہ جلاد خراسان چلا گیا اور ایک قلی کا کام کر کے پیٹ پالنے لگا ۔ اس صوبے کے مومنین کے سامنے وہ اس افسوسناک واقعہ کا قصہ سناتا اور توبہ و استغفار کرتا رہتا ۔ اسے جب بھی وہ واقعہ یاد آتا یا جب بھی اس کے سامنے حاجی مرزا سید علی کا نام لیا جاتا تو اس کی آنکھوں میں آنسوں امنڈ آتے اور روکے نہ رکتے ۔ اس مقدس شخصیت نے جلاد کے دل میں بھی ایسا گھر کر لیا تھا ۔

۲۔  مرزا قربان علی

شہید مرزا قربان علی مازندران کے شہر بار فروش کے رہنے والے تھے ۔ آپ ’’ نعمت الہیٰ‘‘ فرقے کے ایک ممتاز و سرکردہ رکن تھے۔

آپ اپنے خلوص اور نیکی کے سبب مشہور و معروف تھے ۔ آپ میں شرافت اور وقار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ آپ کی پاکیزہ زندگی نے مازندران ، خراسان اور طہران میں بہت ساری اہم شخصیات کو آپ کا گرویدہ اور عقیدت مند بنا دیا تھا ۔ جناب قربان علی کے ہم وطن آپ سے اس قدر ارادت رکھتے تھے کہ جب آپ نجف و کر بلا کی زیارت کے سفر پر روانہ ہوئے تو راستے میں ہر مقام پر بڑی تعداد میں وہ آپ کے گرد جمع ہو جاتے اور آپ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ۔ آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر آپ کے مریدوں کا سلسلہ ہمدان اور کاشان تک پھیل چکا تھا ۔ لیکن آپ بذات خود کبھی بھی اپنی مقبولیت عام کا اظہار پسند نہیں کرتے تھے ۔ آپ ہمیشہ بھیڑ بھاڑ سے بچتے رہتے اور قیادت ظاہر کرنے والے حالات کو ناپسند کرتے تھے ۔ ایک بار کربلا جاتے ہوئے مندلج کے مقام پر آپ کی ملاقات ایک شیخ سے ہوئی ۔ وہ آپ کا ایسا گرویدہ ہوا کہ اس نے اپنی تمام پسندیدہ چیزوں کو خیر باد کہہ دیا ۔ اپنے دوستوں اور مریدوں سے منہ پھیر لیا اور آپ کے ہمراہ چل پڑا ۔ یعقوبیہ تک وہ آپ کے پیچھے پیچھے چلتا رہا ۔ بالآخر مرزا قربان علی اسےسمجھانے میں کامیاب ہوئے کہ وہ واپس مندلج جائے اور اپنا چھوڑا ہوا کام سنبھالے۔

زیارت سے واپسی پر مرزا قربان علی کی ملاقات جناب ملا حسین بشروئی سے ہوئی اور ان کے ذریعہ آپ امراللہ پر ایمان لائے ۔ جب قلعہ طبرسی کا واقعہ پیش آیا تو آپ بیمار تھے ۔ اس لئے قلعہ کے محافظین کا ساتھ نہ دے سکے ۔ اگر آپ سفر کے قابل ہوتے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ان لوگوں کی صف اول میں ہوتے ۔ حضرت باب کے مومنین میں جناب ملا حسین کے بعد آپ جس شخصیت کے ساتھ بہت زیادہ لگاﺅ رکھتے تھے وہ جناب وحید تھے ۔ میں نے اکژ مرزا قربان علی کو یہ کہتے سنا تھا ’’ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں اس جام سے حصہ پانے سے محروم رہ گیا جسے جناب ملا حسین اور ان کے ساتھیوں نے نوش کیا ہے ! اب میری خواہش ہے کہ میں جناب وحید کے پرچم تلے جا کر اپنی محرومی کی تلافی کروں ۔‘‘ ابھی آپ طہران سے روانہ ہونے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ اچانک ایک دن گرفتار کر لئے گئے ۔ آپ کے لباس کی سادگی کو دیکھ کر آپ کے انقطاع کلی کا اندازہ ہوتا تھا ۔ آپ نے عربوں جیسا لمبا کرتہ اور اس پر موٹے کپڑے کا سلا ہوا عبا پہن رکھا تھا ۔ سر پر عراقی رومال لپٹا ہوا تھا ۔ جب آپ سڑک پر چل رہے تھے تو یوں لگتا تھا گویا انقطاع کا پیکر چلا جا رہا ہے ۔ آپ اپنے مذہب کے تمام ارکان انتہائی احتیاط سے ادا کرتے تھے ۔ مثالی خدا ترسی اور عبودیت کے عالم میں دعا و منا جات اور دوسری عبادات کرتے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے ،’’ حضرت باب خود بڑے احتیاط سے اپنے دین کی تمام رسومات پوری تفصیلوں کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔ کیا میں ان چیزوں کے کرنے میں غفلت برت سکتا ہوں جو میرے رہنما خود کرتے ہیں ؟‘‘

جب جناب مرزا قربان علی کو گرفتار کر کے امیر نظام کے سامنے لایا گیا تو طہران میں ایک ایسی ہلچل مچ گئی جس کی نظیر نہیں ملتی تھی ۔ لوگ گروہ در گروہ سرکاری دفاتر کے باہر جمع ہونے لگے تاکہ معلوم کریں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ۔ امیر نظام کی نظر جوں ہی آپ پر پڑی وہ چلا اٹھا،’’ مجھے ہر طبقے کے سرکاری افسرون نے گھیررکھا ہے جو آپ کے لئے پر جوش سفارش کر رہے ہیں۔ جہاں تک میں جانتا ہوں آپ بذات خود مقام اور رتبے نیز لوگوں میں اثرو رسوخ کے لحاظ سے سید باب سے کسی طرح بھی کمتر نہیں ہیں ۔اگر آپ نے خود قیادت کا وعوہ کیا ہوتا تو یہ اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ آپ اس شخص کی قیادت قبول کرنے کا اعلان کریں جو علم میں آپ سے کم تر ہے۔‘‘ مرزا قربان علی نے دو ٹوک جواب دیا،’’ خود میرے علم نے ہی مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں ان کے سامنے سر جھکاﺅں اور ان کے لئے اپنی وفاداری کا اعلان کروں جنہیں میں نے اپنا قائد اور مالک تسلیم کر لیا ہے ۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں نے اپنی زندگی کا اصول حق و انصاف کو بنائے رکھا ہے ۔ میں نے انہیں انصاف سے جانچا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ نوجوان  ،جس کی اعلیٰ صلاحیتوں کے دوست و دشمن یکساں گواہی دیتے ہیں ،جھوٹا ہے تو ازل سے آج تک جتنے بھی پیغمبر آئے ہیں سب کا انکار کرنا ہوگا ! میرے اپنے ایک ہزار سے زیادہ مرید ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک میری عقیدت کا دم بھرتا ہے۔ اس کے باوجود میں ان میں سے کسی ادنیٰ فرد کا دل بھی نہیں پھیر سکتا ۔ جبکہ اس نوجوان نے ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ اپنے لطف و کرم کے آب شفاءسے بدترین لوگوں کے روح تک کو بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ اس نے میرے جیسے ایک ہزار آدمیوں کو ، تنہا اور بے مددگار ،اس طرح متاثر کیا ہے کہ انہوں نے اسے دیکھے بغیر ہی اپنی تمام خواہشات کو پرے پھینک دیا ہے اور انتہائی جذبہ و اشتیاق کے ساتھ اس کی مرضی کو اپنا لیا ہے ۔ اس کی راہ میں دی جانے والی اپنی تمام قربانیوں کو ہچ خیال کرتے ہوئے یہ لوگ اس کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے پر آمادہ ہیں تاکہ شاید ان کے پیار کی یہ شہادت اس کے حضور ذکر کئے جانے کے قابل ہو۔‘‘

امیر نظام نے کہا، ’’ آپ کی باتیں خدا کی طرف سے ہوں یا نہ ہوں لیکن مجھے آپ جیسے اعلیٰ مرتبت شخصیت کو سزائے موت سنانے میں افسوس ہو رہا ہے ۔‘‘ اس پر بے چین قیدی چلا اٹھا، ’’گھبراتے کیوں ہو! کیا تم نہیں جانتے کہ تمام نام خدا کی طرف سے نازل ہوتے ہیں ؟ دیکھو جس کا نام ” علی“ ہے اور جن کی راہ میں میں سر دے رہا ہوں اس نے تو ازل سے ہی میرا نام اپنے شہیدوں کی کتاب میں ’ قربان علی‘ لکھ رکھا ہے ۔ درحقیقت آج ہی وہ دن ہے جب میں نے قربانی کی عید منائی ہے ۔ یہی وہ دن ہے جب میں اپنے خون سے اس کے امر پر اپنے ایمان کی شہادت پیش کروں گا۔ اس لئے تم پس و پیش سے کام نہ لو ۔ مطمئن رہو ۔ اس کام کے لئے میں تمہیں کبھی بھی مورد الزام نہیں ٹھہراﺅں گا ۔ بلکہ تم جس قدر جلد میرا قتل کرا دو گے اسی قدر میں تمہارا ممنون ہوںگا ۔ یہ سنتے ہی امیر نظام چیخ اٹھا،’’ لے جاﺅ اسے یہاں سے ! ورنہ یہ درویش مجھ پر اپنا جادو چلا دے گا ! ‘‘ مرزا قربان علی نے جواب دیا،’’ تم بالکل بے فکر رہو ۔ تم پر اس جادو کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ کیونکہ یہ صرف انہی لوگوں پر اثر کرتا ہے جن کے دل صاف ہوں ! تم اور تمہارے جیسے لوگ اس آب حیات کے اثر کو کبھی بھی نہیں سمجھ پائیں گے ، جو پلک جھپکتے ہی آدمی کی روح کو بدل دیتا ہے ۔‘‘

اس جواب سے امیر نظام کا غصہ اور بھڑک اٹھا ۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا ۔ اس کا پورا وجود غصے سے کانپ رہا تھا ۔ اس نے چلا کر کہا ،’’ان گمراہوں کی آواز کو تلوار کی دھار کے علاوہ کوئی چیز بھی نہیں دبا سکتی !‘‘ پھر اس نے جلاد کو حکم دیا،’’ اس قابل نفرت فرقے کے کسی آدمی کو بھی اب میرے سامنے لانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ان کےنا قابل تبدیل خیالات کو الفاظ سے بدلنا ناممکن ہے ۔ جو بھی توبہ کرے اسے رہا کردو اور باقی کے سر قلم کردو !‘‘

جوں جوں مرزا قربان علی مقتل سے قریب ہوتے جاتے تھے آپ کے جذب و شوق میں اضافہ ہوتا جاتا تھا ۔ اپنے محبوب سے وصال کی گھڑی کو قریب آتا دیکھ کر آپ حمد وثناءکرتے جاتے تھے ۔ آپ نے بڑےجوش سے پکارا، ’’ جلدی کرو ! مجھے ذنج کردو ! کیونکہ اس موت کے ذریعے تم مجھے حیات ابدی کا جام پلاﺅ گے ۔ اگر چہ تم میری ڈوبتی ہوئی سانس کو خاموش کرنے والے ہو لیکن میرا محبوب مجھے ہمیشہ کی زندگی عطا کرے گا ۔ وہ ایسی زندگی ہوگی جس کا اندازہ کوئی بھی فانی دل نہیں لگا سکتا ۔‘‘ پھر آپ نے تماشائیوں کی طرف رخ کیا اور اعلان کیا،’’ اے رسول اللہ پر ایمان رکھنے کے دعوے دارو! غور سے سنو !حضرت محمدﷺجو ایک زمانے میں افق حجاز سے اُبھرے تھے آج ایک بار پھر شیراز کے افق سے علی محمد کی شخصیت میں نمودار ہوئے ہیں ۔ آپ وہی نورانیت اور حرارت بخش رہے ہیں ۔ گلاب تو گلاب ہی ہوتا ہے خواہ وہ کسی زمانے میں اور کسی بھی باغ میں کھلا ہو ۔‘‘   آپ نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ دیکھا کہ لوگ آپ کی ندا سننے سے قاصر ہیں ۔ آپ نے بلند آواز میں کہا،’’ آہ !افسوس ہے اس نسل کی گمراہی پر ! اس گلاب نے جو خوشبو پھیلائی ہے یہ نسل اس سے کتنی غافل ہے ! حالانکہ میرا دل وجد و سرور میں جھوم رہا ہے لیکن افسوس کہ میں ایک بھی ایسا دل نہیں پاتا جس سے اپنے دل کی خوشی بیاں کر سکوں ۔ نہ ہی میں وہ دماغ دیکھتا ہوں جو اس کی شان کو جان سکے ۔‘‘

جب آپ کی نظر حاجی مرزا سید علی کی لاش پر پڑی جس کا سر تن سےجدا تھا اور خون بہہ رہا تھا تو آپ کا جوش و خروش اور ولولہ آسمان کو چھونے لگا ۔ یہ کہتے  ہوئے آپ نے خو دکو سید علی کی لاش پر گرا دیا، ’’ مبارک ہو ! مبارک ہو ! آج ہمارے لئے مل کر خوشیاں منانے کا دن ہے ۔ آج اپنے محبوب کے ساتھ ہمارے ملاپ کا دن ہے ۔‘‘     آپ نے اپنے ساتھی شہید کا جسد مبارک اپنی گود میں اٹھا لیا اور جلاد سے بلند آواز میں مخاطب ہو کر کہا، ’’ آؤ،وار کرو ! میرا وفادار ساتھی اب میری گود سے نکلنا نہیں چاہتا ۔ وہ مجھے پکار رہا ہے کہ میں بھی اس کے ہمراہ آستان محبوب کی طرف قدم بڑھاؤں ! ‘‘   فوراً ہی جلاد کی تلوار آپ کی گردن پر آپڑی ۔ چند لمحے نہیں گزرے تھے کہ آپ کی روح پر واز کر گئی ۔ اس ظالمانہ وار کو دیکھ کر مجمع کے دلوں سے ایک ہوک اٹھی اور ماحول پر محرم جیسی افسردگی چھا گئی ۔ ” ایک اور مورخ لکھتا ہے ۔“ جب جناب قربان علی کو قتل گاہ پر لایا گیا تو جلاد نے تلوار اٹھائی اور پشت سے آپ کی گردن پر وار کیا ۔ اس ضرب سے اس درویش کا سر جھک گیا اور پگڑی زمین پر آگے کی طرف لڑھکتی چلی گئی ۔ انہوں نے فوراًاپنی آخری سانسوں کے دوران یہ شعر پڑھا جس سے اس مجمع میں موجود ہر حساس دل میں غموں کے جذبات امڈ آئے :

اے خوش آن عاشق سرمست کے در راہ حبیب

سر      و      دستار        نداند       کہ         کدام            اندازد

’’خوش بخت ہے وہ شخص جو عشق کے نشے میں اس قدر مخمور ہو چکا ہے کہ اسے یہ خبر ہی نہیں یہ اس نے محبوب کی قدموں میں اپنا سر نچھاور کرنا ہے یا پگڑی۔۔۔‘‘

۳۔ حاجی ملا اسمعیل قمی

 اس کے بعد حاجی ملا اسمعیل قمی کی باری آئی ۔ آپ فراہان کے رہنے والے تھے ۔ آپ چھوٹی عمر میں ہی حق کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے تھے اور کربلا تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے نجف و کربلا میں تمام جانے پہچانے علماءسے علم حاصل کیا اور سید کاظم رشتی سے بھی درس لیتے رہے ۔ اسی علم کے بدولت آپ آگے چل کے شیراز میں حضرت باب پر ایمان لائے اور پھر اپنے ایمان کی پختگی کی وجہ سے ممتاز ہوئے ۔ آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت باب کی ہدایت کے مطابق احباب کاشان جا رہے ہیں تو آپ بھی بڑے ذوق و شوق سے بدشت جا نے والے احباب کے ہمراہ ہوگئے ۔ بدشت میں آپ کو ’سِرُّالوجود ‘  کا لقب عطا ہوا ۔احباب کی صحبت میں آپ کے ایمان و ایقان میں بڑا اضافہ ہوا ۔ دن بدن آپ کی علم میں اضافہ ہو تا رہا ، امر اللہ کی تبلیغ کا شوق بڑھتا گیا ۔ آپ پیکر انقطاع بن گئے اور اس خیال میں رہنے لگے کہ امر اللہ نے آپ میں جو لگن پیدا کی ہے اسے اپنے اعمال سے ثابت کریں ۔ آپ ایسی باریک بینی سے پیچیدہ دینی مسائل پر نظر رکھتے تھے کہ کوئی بھی ان کا ہم پلہ ہو نے کا دعوی نہیں کر سکتا تھا ۔ آپ جس مہارت سے ان حقائق کو بیان کرتے اسے دیکھ کر احباب عشق عشق کر اٹھتے تھے ۔ جن دنوں قلعہ شیخ طبرسی کا واقعہ پیش آیا آپ بستر علالت پر تھے ۔ آپ کو بڑا افسوس تھا کہ اس مہم میں آپ کوئی کردار ادانہیں کر پا رہے ۔ جب آپ کو صحت ملی تو اس وقت تک شیخ طبرسی کا المناک محاصرہ ختم ہو چکا تھا اور آپ کے ساتھی مومنین تہ تیع کئے جا چکے تھے ۔اس المیہ سے امر اللہ کو جو نقصان پہنچا تھا اسے پورا کرنے کی خاطر آپ پہلے سے بڑھ کر جوش و خروش ، لگن اور فدا کاری کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور آخر کار طہران میں میدان شہادت میں پہنچ گئے ۔

جس گھڑی آپ کو مقتل میں لایا گیا آپ کی نظر اپنے دونوں شہید ساتھیوں پر پڑی ۔ یہ اب تک ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ابدی نیند سو رہے تھے ۔ دونوں کے کٹے ہوئے سر پر آپ کی نظریں گڑ کر رہ گئیں اور آپ بے اختیار پکار اٹھے، ’’ شاباش ! شاباش! میرے پیارے ساتھیو! شاباش ! تم نے طہران کو جنت بنا دیا ہے ! کاش میں تم سے پہلے قتل کیا جاتا ۔‘‘ پھر آپ نے اپنی جیب سے چند سکے نکالے اور اپنے جلاد کو دیتے ہوئے اس سے درخواست کی کہ منہ میٹھا کرنے کے لئے کوئی میٹھائی خرید لائے۔ جب میٹھائی ا ٓگئی تو انہوں نے مٹھائی میں سے کچھ خود چکھی اور باقی جلاد کو دے دی اور اسے یوں مخاطب کیا ،’’ میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے ۔ آگے بڑھو اور اپنا وار کرو۔ میں نے تیس برس تک آج کے اس مبارک دن کا انتظار کیا ہے اور ہمیشہ مجھے ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنی یہ خواہش اپنے ساتھ ہی قبر میں لے کر چلا جاؤں۔‘‘ پھر آپ نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور پکار کر کہنے لگے، ’’ اے خدا ! اگر چہ میں اس قابل تو نہیں لیکن مجھے قبول فرما اور میرا نام ان لا فانی لوگوں کی فہرست میں لکھ دے جنہوں نے اپنی جانیں قربانی کے تختے پر نچھاور کر دی ہے ۔‘‘   ابھی وہ دعا پڑھ ہی رہے تھے کہ ان کی خواہش کے مطابق جلاد نے وار کرکے ان کا کام تمام کر دیا ۔

۴۔ سید حسین ترشیزی مجتہد

ابھی حاجی ملا اسمعیل قمی مشکل سے مرے ہی تھے کہ سید حسین ترشیزی مجتہد کو قربان گاہ پر لایا گیا ۔ آپ خراسان کے ایک گاؤں تر شیز کے رہنے والے تھے ۔ آپ اپنی رحمدلی ، نیکی اور پاکیزگی کے لئے مشہور تھے ۔ آپ نےکئی برس تک نجف اشرف میں علم حاصل کیا تھا اور آخر کار آپ کے ساتھی مجتہدین نے آپ کو خراسان جا کر سلسلہ تعلیم و تدریس جاری کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ جب آپ کا ظمین پہنچے تو آپ کی ملاقات کرمان کے ایک جانے پہچانے تاجر حاجی محمد تفی کرمانی سے ہوگئی ۔ انہیں آپ پہلے سے جانتے تھے ۔ حاجی محمد تفی کرمانی کا ایک دفتر خراسان میں بھی تھا ۔ چونکہ آپ بھی ایران جا رہے تھے اس لئے دونوں ساتھ ہو لئے۔ یہ حاجی تفی کرمانی حضرت باب کے ماموں حاجی مرزا سید علی کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔ ان ہی کے ذریعہ آپ ۱۲۶۴ھ(۱۸۴۷؁) میں حضرت باب پر ایمان لا چکے تھے ۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حاجی محمد تفی کرمانی کربلا کی زیارت کے لئے شیراز سے روانہ ہو رہے تھے ، انہیں معلوم ہوا تھا کہ حاجی مرزا سید علی حضرت باب سے ملنے چہریق جانے والے ہیں ۔ اسپر حاجی محمد تفی کرمانی نے بھی آپ کے ہمراہ جانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ لیکن حاجی مرزا سید علی نے ان سے کہا تھا کہ آپ اپنا پہلا پروگرام جاری رکھیں اور کربلا جائیں اور وہاں ان کے خط کا انتظار کریں جس میں انہیں بتایا جائے گا کہ آیا ان کاحاجی مرزا سید علی سے ملنا مناسب ہو گا یا نہیں ۔ چہریق سے حاجی مرزا سید علی طہران چلے گئے ۔ آپ کو امیدتھی کہ وہاں ایک مختصر قیام کے بعد واپس اپنے بھانجے ( حضرت باب) سے ملاقات کرنے جائیں گے ۔ چہریق میں قیام کے دوران آپ نے شیراز واپسی کو مناسب خیال نہیں کیا تھا کیونکہ وہاں کے لوگوں کی بڑھتی ہوئی خود سری ان کی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی ۔ جب آپ طہران پہنچے تو آپ نے حاجی محمد تقی کرمانی کو وہاں آنے کو لکھا ۔ سید حسین نے اس طرح بغداد سے طہران تک حاجی محمد تقی کے ساتھ سفر کیا اور اسی دوران امر بابی کو قبول کیا ۔

آپ کو جب قربان گاہ پر لایا گیا تو آپ نے اپنے گرد تماشہ کے لئے جمع ہو جانے والے لوگوں کے جم غفیر کو یوںمخاطب کیا،’’ اے مسلمانوں ! میری بات سنو! میرا نام حسین ہے اور میں سید الشہدا کی اولاد میں سے ہوں ۔ جن کا نام بھی حسین ہی تھا ۔ مقدس شہروں نجف وکربلا کے مجتہدوں نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ میں ان کے دین کی تعلیمات و قوانین کا با اختیار مفسر اور مجتہد ہوں ۔ آج سے چند روز قبل تک میں نے حضرت سید باب کا نام تک بھی نہیں سنا تھا ۔ دین اسلام کی تعلیمات کی باریکیوں کے بارے میں میں نے جو مہارت حاصل کی ہے اسی نے مجھے یقین دلایا ہے کہ حضرت باب پر نازل شدہ تعلیمات کی کیا قدروقیمت ہے۔ مجھے بالکل یقین ہے کہ ان پر جو وحی نازل ہوئی ہے اور انہوں نے جو صداقت ظاہر کی ہے اگر میں اس کا انکار کر دوں تو اس سے آپ کے پہلے آنے والے تمام ظہورات کا انکار ہو گا ۔ میں تم لوگوں میں سے ہر ایک سے اپیل کرتا ہوں کہ اس شہر کے تمام علماءو مجتہدین کے ایک اجتما ع کا انتظام کرو جہاں میں ان کی موجودگی میں اس امر مبارک کی سچائی کو ثابت کروں گا ۔ پھر خود انہیں انصاف کرنے دو کہ آیا میں حضرت باب کے وعووں کو برحق ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہوں یا نہیں ۔ اگر وہ میرے پیش کردہ دلائل سے مطمئن ہو جاتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ معصوموں کے خون بہانے سے احتراز کریں ۔ اور اگر میں ناکام رہوں تو جو سزا بھی میرے لائق ہو وہ مجھے دیں ۔‘‘ ابھی یہ بیان مشکل سے ختم ہی ہوا تھا کہ امیر نظام کا ایک افسر غصے سے چلایا، ’’ میرے پاس تیرے قتل کے لئے طہران کے سات بااختیار مجتہدین کا فتویٰ موجود ہے ۔ انہوں نے خود اپنے دستخط سے تجھےکافر قرار دیا ہے ۔ قیامت کے دن تیرے خون کے لئے میں خود خدا کے حضور میں جوابدہ ہوںگا اور وہاں اپنی ذمہ داری ان علماءپر ڈالوں گا جن کے حکموں کو ماننے اور جن پر بھروسہ رکھنے پر ہم مجبور ہیں ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے خنجر نکالا اور اس شدت سے آپ پر وار کیاکہ فوراً ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔

۵۔ حاجی محمد تقی کرمانی

اس کے بعد بہت جلد حاجی تقی کرمانی کو قتل گاہ میں لایا گیا ۔ منظر کی دردناکی نے آپ میں غصہ اور نفرت کی ایک لہر دوڑادی ۔ آپ چنگھاڑتے ہوئے جلاد کی طرف مڑے اور کہا، ’’ آگے بڑھ اے سنگدل ظالم انسان ! مجھے جلد از جلد قتل کر دے کیونکہ میں اپنے پیارے حسین سے ملنے کو بیتاب ہو رہا ہوں ۔ اس کے بعد زندہ رہنا ایک عذاب ہے جو مجھ سے سہا نہ جائے گا ۔‘‘

۶۔ سید مرتضیٰ

ابھی حاجی محمد تقی یہ الفاظ ادا کر رہے تھے کہ سید مرتضی ، جو کہ زنجان کے ایک معروف تاجر تھے ، آگے بڑھے تاکہ ان کی باری پہلے آجائے ۔ انہوں نے خود کو حاجی محمد تقی کے جسم پر گرا دیا اور کہنے لگے۔ میں سید ہوں ۔ خدا کی نظر میں میری قربانی حاجی محمد کی شہادت سے زیادہ پیاری ہوگی ۔ جب جلاد تلوار سونت رہا تھا تو سید مرتضی کی زبان سے اپنے شہید بھائی کی یاد میں کلمات جاری تھے۔ سید مرتضی ان کا یہ بھائی ملا حسین کے ساتھ قلعہ شیخ طبرسی میں شہید ہوا تھا ۔ آپ اس انداز میں یہ ذکر فرما رہے تھے کہ دیکھنے والے آپ کے ایمان کی مضبوطی اور شہادت و بہادری کو دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔

۷۔ محمد حسین مراقی

سید مرتضی کے الفاظ سے جو غلغلہ برپا ہوا تھا اس کے بیچ محمد حسین مراقی آگے بڑھے اور کہنے لگے میرے ساتھیوں سے پہلے مجھے قتل کرو۔ اسی دوران آپ کی نظر حاجی محمد اسمعیل کی لاش پر پڑی ۔ آپ کو ان سے بہت پیار تھا ۔ آپ فوراً جھپٹے اوران کی لاش سے لپٹ کر پکار اٹھے،’’ میں خود کو اپنے محبوب دوست سے جدا کرنے پر کبھی بھی راضی نہیں ہونگا ۔ اس پر مجھے مکمل اعتماد تھا ۔ اس نے مجھے بڑی مہربانی اور شفقت نچھاور کی ہے۔‘‘

وہ سب جس طرح اپنی جان دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش ظاہر کر رہے تھے اسے دیکھ کر مجمع میں حیرت و استعجاب کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ وہ سراپا انتطار ہو گئے کہ دیکھیں کسے پہلے شہید ہونے کا موقع ملتا ہے ۔ دوسرے وہ اس قدر اشتیاق سے قتل کئے جانے کی درخواست کر رہے تھے کہ آخر کار تینوں کو ایک ہی وار میں شہید کر دیا گیا ۔

 خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را۔

(بشکریہ کتابی سلسلہ ’’مساعد‘‘ نمبر۴۴،۴۵،۴۶  ،سال نہم ،بابت اپریل تا دسمبر۱۹۹۱ء)

  1. BADIULLAH SANAI

    IT IS A VERY GOOD WAY OF PROMOTING THE FAITH TO ALL THE GOOD HEARTHED PEOPLES OF PAKISTAN

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *