چچا ڈفی اور شاندار مونچھیں

posted in: خود نوشت | 0

میرے خیال میں اگر چچا نے ہمیں موقع دیا ہوتا تو ہم ان کے سلسلہ میں بہت صابر ہی ثابت ہوتے مگر وہ تو اپنا زیادہ تر وقت میکمارٹی کے شراب خانہ میں ہی گزارتے تھے۔ وہ اپنا ہیٹ اٹھاتے اور اماں کی طرف انتہائی تکلف سے جھک کر کہتے ’میں ذرا شہر جا رہا ہوں ،اپنی بموں کے دہشت کی دوا لینے ۔‘

خداخندہ زن،باب۵: کتاب حکمت اور طفل نادان

posted in: خود نوشت | 0

میں نے نانا کی نصیحت پر عمل کیا اورانجیل مقدس کا مطالعہ شروع کردیا۔ تجربے نے مجھ پر ثابت کردیا کہ ایک نوعمر لڑکے کے لئے یہ ایک بہت مشکل کام ہے۔ اور جب میں بائبل چھوڑ کر ’چالاک جاسوس نک کارٹر ‘شروع کرنے ہی والا تھا کہ مجھے پتہ چلا کہ لوگوں کو عام طور پر بائبل پڑھنے سے روکا جاتا ہے کیونکہ اس کوسمجھنا صرف پہنچے ہوئے بزرگوں کےہی بس کی بات ہے۔ بس پھرکیا تھا میں نے اُسی لمحےبائبل کو کسی طرح بھی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں صفحات پر صرف ایک اچٹتی نگاہ ڈالتا اور صفحہ پلٹتا رہتا کہ کہیں مجھے خوابوں کے نورانی بزرگ کا تذکرہ مل جائے۔ والد صاحب کوجب خبرملی کہ میں عہد نامہ عتیق اورجدید دونوں پڑھ رہا ہوں تو وہ گھبراگئے۔

خداخندہ زن ، باب ۳(قسط ۱): دو پرانے پاپی

posted in: خود نوشت | 0

ایک رات پھر میں نے بالکل وہی خواب دیکھا، لیکن اس بار میری عمر اتنی تھی کہ میں اس خواب کو واضح طور پر یاد رکھ سکوں۔ والد صاحب کا خیال تھا کہ یہ چار عدد اچار کے سینڈوچ اور ایک بوتل اسٹرابری پینے کا نتیجہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اس سلسلہ میں کوئی بات سننے سے ہی انکار کردیا۔ ماں نے کہا، ’’بیٹا تم نے جو کچھ دیکھا ہے اسے لکھ ڈالو اور مجھے سناؤ۔‘‘