خداخندہ زن، باب ۲ :حقیقت انسان یا سارس کہانی

posted in: خود نوشت | 0

میری ٹانگ ٹوٹنے کو تمام گاؤں نے بہ یک زبان ‘قہر الہٰی’ قرار دیا سوائے ابا کے!کیونکہ انہیں اس بات کا دکھ تھا کہ قہر الہٰی  کتابوں میں جس قدر غضب ناک ہوتاہے میرے معا ملہ میں اتنا نہیں تھا۔  واقعہ یہ ہوا کہ میں اس صبح سیپ ہیڈ فلپس کی چھت پر چڑھ کر ان کی چمنی میں ریچھ پکڑنے والا آھنی جال لگا رہا تھا جب میرا پاؤں پھسلا اور میں توازن کھوکر گر پڑا۔

والد صاحب میرے فلپس کی چھت پر پائے جانے پر برافروختہ تھے گو کہ میں نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ فلپس خانوادہ میں بچےکی پیدائش متوقعہ  ہےاسی لئے میں جال بچھانا چاہتا تھا تاکہ  جب سارس بچہ لےکر آئے تو اسے پکڑا جا سکے۔  اس رات میں نے اپنے کمرے کے روشندان سے ابا کو افسوس کرتے سنا کہ اس لڑکے کی گردن کیوں نہ ٹوٹی۔ میں نے روشندان میں گردن ڈال کر دیکھا ماں اس تبصرہ پر قطعی خوش نہیں تھیں۔

’’وہ تمہارا بیٹا ہے فرینک!اسے انسان کی حقیقت بتانا تمہارا فرض ہے‘‘۔  لیکن والد صاحب زیادہ حقیقت پسند تھے۔  انہوں نے جواب دیا ’’جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ پچاس سال کی عمرکو پہنچنے کے بعد آگاہ ہو کہ اس سلسلہ میں سارس کا کوئی کردار ہی نہیں‘‘۔

نا ممکن! ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ سارس نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو میں چرچ کے پکنک میں کیا کروں گا۔  تمام بچے اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم نے مس پوپن برگ کو حیرت زدہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا،  اور اگر سارس بچے نہیں لاتا تو سوال اٹھتا ہے کہ پھر کون لاتا ہے؟ قدرتی بات ہے کہ  میں نے ابا سے پوچھا۔وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑائے، میری سمجھ میں جو کچھ آیا وہ یہ تھا کہ انہیں اسی وقت کسی ضروری کام سے شہر جانا تھا۔  انہوں نے مجھے مسٹر فلپس سے پوچھنے کو کہا کیونکہ آخر کو سارس انہیں کا تھا۔

یہاں سے میری پریشانی کا آغاز ہوا، میں کس طرح اپنی ٹوٹی ٹانگ لےکر آہنی جال کو چمنی سے ہٹاؤں گا؟ مسٹر فلپس اس بچہ کولانے کے سلسلہ میں ملوث ہیں، کہیں ان کی ٹانگ جال میں نہ پھنس جائے اور وہ اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھیں۔

اس رات میں مسٹر فلپس کے گھر واپس آنے تک درواذے پر کھڑا رہا، اور ان کے آتے ہی میں نے انہیں خبردار کر دیا ،’’مسٹر فلپس اگر رات کی بات ہو تو قدم سنبھال کر رکھئے گا۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’میرا مطلب ہے کہ آپ کوئی پرندہ تو ہیں نہیں جو جال میں پاؤں اٹکنے کے بعد بھی اپنا توازن برقرار رکھ سکیں، اس صورت حال میں وہ آپ کے ہاتھوں  سےگر بھی سکتا ہے۔‘‘

مسٹر فلپس میرے خیال سے زیادہ کند ذہن نکلے۔  بولے ” کیا بک رہے ہو؟”

’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کے ساتھ کھل کر بات کی جائے، میں نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ، ’’مردوں کی آپس کی بات ہے،ہمیں توپتہ کہ سارس وارس کا کوئی وجود ہی نہیں۔‘‘

مسٹر فلپس کا چہرہ پہلے کیلے کے پڈنگ کی طرح ہوا پھر بدل کر ٹماٹر کے جوس کی طرح ہوگیا۔  مجھے فوراً سمجھ آگئی کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔  بیچارے، انہیں بھی نہیں پتہ تھا کہ سارس کا کوئی وجود نہیں، جس عجیب انداز سے وہ مجھے گھور رہے تھے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا۔

انہوں نے مجھ سے پوچھا،’’تم سر کے بل تو نہیں گرے تھے؟‘‘

ان کے جانے کے بعد ماں باہر آئیں اور پوچھنے لگیں، ’’مسٹر فلپس پریشان دکھائی دے رہے تھے، تم نے ان سے کچھ کہا تھا کیا؟‘‘

’’اوہ! میں نے انہیں اچھنبے میں ڈال دیا ہے، اب وہ بچےکی آمد کے بارے میں اتنے پرامید نہیں ہیں۔‘‘

ماں نے ہنستے ہوئے کہا، ” ارے نہیں، وہ بالکل پُریقین ہیں۔‘‘

میں نے پُر اعتماد طریقہ پر سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’ نہیں وہ اس سلسلہ میں سارس پر تکیہ کئے ہوئے تھے اور میں نے ان کے پاؤں تلے زمین کھینچ لی ہے۔‘‘

ماں نے تیز نظروں سے میری طرف دیکھا اور ایسا ظاہر کیا جیسے وہ اچانک میرے پاؤں کے پلاسٹر میں کافی دلچسپی لے رہی ہوں۔  پھر بظاہر لاتعلقی سے پوچھنے لگیں،’’اچھا اگر سارس  نہیں تو پھر کون لائے گا؟‘‘

میں نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا، میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ جب میں گرا تھا اس وقت جال بھی میرے ساتھ ہی گرا ہوگا۔  لیکن مجھے معلوم تھا کہ آہنی جال اپنی جگہ موجود ہے اورشکار کے اس میں پاؤں رکھنے کی دیر ہے۔  میں نے سرخ اینٹوں والی عمارت پر پڑتے ہوئے سایوں کی طرف نظر دوڑائی جہاں میرا جال شکار کے انتظار میں تھا۔

ماں کو میں نے جواب دیا ،’’ میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا پر چند دنوں میں بتا سکوں گا۔‘‘

لیکن جب مسٹر فلپس اس جال میں  پھنسے بغیر بچہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو میں سوچ میں پڑگیا۔  مسٹر فلپس کے بچے میں میری ساری دلچسپی ختم ہوگئی ، اور میں نے سنجیدگی سے اس موضوع پر پڑھنا شروع کردیا، اب میں ایک بڑی مہم کی راہ پر تھا۔  میں نے تہیہ کر لیاتھا کہ میں اپنے سوالوں کے جواب معلوم کر کے  ہی رہوں گا۔  آسمان نیلا کیوں ہے؟  ہم جب ہنسی کی آواز سن لیتے ہیں تو وہ ہنسی کہاں چلی جاتی ہے؟  اگر زمین گول ہے اور لوگ اس کے چاروں طرف چل پھر رہے ہیں تو زمین کا الٹا سیدھا کہاں ہے؟  سیمی اگنیو کالا کیوں ہے؟  اور میں گورا چٹا  کیوں ہوں؟ خیر سارا دن نہ سہی زیادہ تر وقت تو صاف ستھرا، سفید ہی رہتا ہوں۔  کیا خدا کی بیوی ہے؟  اس کا مکان کہاں ہے؟  کیا وہ چچا والٹر کی طرح ریڈ انڈینوں کی زبان بول سکتا ہے؟  کیا وہ سچ مچ تمام لوگوں سے محبت کرتا ہے؟  اس پیلی جیکٹ والی بوڑھی سے بھی جو ہم بچوں کے پیچھے چھڑی لیکر دوڑتی ہے؟  اس نے آخر مچھر کیوں بنائے اور یہ مکھیاں جو چھت پر الٹا چل سکتی ہیں؟

میں نے سوچا کہ میرے نانا ہی واحد شخص ہیں جو میرے ان سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں۔  میں نے چرچ کی مس پوپن برگ کو آزمایا تھا۔  مگر انہوں نے کہا کہ :’’تمہیں صرف ان  جوابوں کی ضرورت ہے جو میرے سوالوں کے ہوں۔  تمہارے اپنے سوالوں کے نہیں۔’’  اور جب میں نے فادر ہوگن سے پوچھا تو انہوں نے مجھے باقاعدگی سے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے اور اتوار کے اتوار چرچ جانے اور باقی معاملات خدا پر چھوڑ دینے کا  مشورہ دیا۔  میرے والد صاحب نے مجھے سیدھے لفظوں میں بکواس بند کرنے کا مشورہ دیا۔  اس سلسلہ میں میں نے شہر کے میئر مسٹر فلیچر تک سے بات کی۔  ایک دن راستے میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی،  انہوں نے میرے سوالات سن کر ایک خوشدلانہ قہقہہ لگایا اور میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے مجھے یقین دلایا کہ وہ ٹاون کونسل کے اجلاس میں میرے یہ سوالات اٹھائیں گے۔  لیکن پھر اس سلسلہ میں انہوں نےمجھے کوئی اطلاع ہی نہیں دی۔  لیکن مجھے سو فیصدی یقین تھا کہ نانا مجھے اس طرح کا کوئی بھی سوال کرنے کی نہ صرف اجازت دیں گے بلکہ اگر انہیں جواب معلوم نہ بھی ہو تو بھی وہ کوشش ضرور کریں گےمجھےمطمئن کر نے کی۔

اسکول، سیاست یا کلیسا کے بارے میں نانا جان کی رائے کچھ ایسی اچھی نہیں تھی۔وہ کہتے تھے ان لوگوں کے دماغ نئے خیالات سے ایسے  خالی ہیں کہ اگر وہ اپنی بگھی لے کر ان کے دماغ میں دو ہفتہ تک گھومیں پھریں تب بھی انہیں وہاں کوئی نیا خیال نہیں ملے گا۔  ظاہر ہے نانا ہی میرے سوالوں کے لیے مناسب شخص تھے۔

∞∞∞

آئندہ: خداخندہ زن، باب ۳: دوپرانے پاپی(حصہ ۱)

(تحریر:ولیم سیئرس، ترجمہ: محمود الحق، ڈھاکہ ، بنگلادیش)

مضمون میں ظاہر کردہ خیالات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں۔ ان سے ’افکار تازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *