خداخندہ زن ، باب ۳ (قسط  ۲): گناہ کبیرہ

posted in: خود نوشت | 0
(گزشتہ سے پیوستہ)

مجھے یقین ہے ماں یہ سب باتیں سُن کرپریشان ہوگئیں۔ صاف ظاہر تھا وہ  خود پر قابو رکھنے  کی شدید کوشش میں مصروف  ہیں۔ اُس رات میں نے روشندان سے ابا اوراماں کو باورچی خانے کی میز پر دیکھا۔ اُن کے خیال میں میں سوچکا تھا۔

ماں کہہ رہی تھیں:’ ’میں سچ مچ فکرمندہوں فرینک،شایدتم ٹھیک ہی کہتے تھے،کہیں اس خواب کا مطلب یہ تونہیں کہ  ولیم کوہم سے واپس لے لیا جائے گا؟‘

یہ میرے لئے ایک نئی خبر تھی۔اچانک مجھ پر یہ ہیبت ناک بات واضح  ہوئی کہ  ماں ’واپس‘ لینے کو ’واقعی واپس‘ لے لینے کی معنوں میں استعمال کررہی تھیں۔ جس طرح تایا ابو رابرٹ عین جوانی میں ’واپس ‘لے لئے گئے تھے۔ اس رات  میں ایک لمحے کے لئے بھی سونہ سکا کیونکہ اگر کوئی مجھے ’واپس‘ لینے آرہا تھا  تب تومجھے جاگتے رہنا چاہئے تھا۔

کئی دنوں تک میری حالت خراب رہی۔ میں نے کسی سے بات چیت اور باہر کھیلنے  جانا تک بند کر دیا۔ بس خوفزدہ سا سہما سہما اپنے کمرے میں بیٹھا رہا۔میرا خیال تھا کہ جب مجھے ’واپس‘ لینے والے آئیں تومجھے اپنے کمرے میں پائیں۔  ویسے میں اپنے تمام دوستوں کو الوداع کہنے  گھر سے نکلا تھا۔ میں نے اپنے بیس بال کے دستانے مارگی کیلی کو تحفتاً دے دیئے۔اُس کے ساتھ میری خوب بنتی تھی۔

’’یہ میرا الوداعی تحفہ ہے۔‘‘

’’تم کہاں جارہے ہو؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا تھا۔

اس غیرمتوقع سوال پر تھوک نگلتے ہوئے  میں نے کہا، ’’  اُفق کے اُس پار‘‘۔اس وقت میرے ذہن میں مقامی پپیلزتھیٹر میں دیکھے ہوئے کاؤبوئے فلموں کا یہی مکالمہ آیا تھا۔ویسے اس کے علاوہ کسی اور جگہ بھی جایا جاسکتا ہے مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔

’’اُس پارکہاں؟‘‘

’’بس اُس پار۔‘‘

’’ڈولتھ کے بھی پار؟‘‘

میں نے اثبات میں سر ہلا دیا، ’’بہت اُ س پار،اور میرا واپسی کا بھی کوئی ارادہ نہیں‘‘۔

’’اچھا۔ کیا اس دستانے کے بجائے تم اپنا رولر اسکیٹس مجھے نہیں دے سکتے؟‘‘ مارگی نے خوشی سے پوچھا۔

میں نے وہ بھی اسے دے دیئے۔ اس کے بعددوہفتہ میں نے انتظار کیا لیکن اس وقفہ میں کوئی مجھے لینے نہیں آیا۔ آخر کار میں نے اپنے رولر اسکیٹس اس سے  واپس لے لئے۔ اُس شام مارگی  گلی میں اسے پہنے جارہی تھی۔ میں نے اسی وقت اس کے پاؤں سے اسے اتروا لئے۔

’’بڑی ہمت ہے تمہاری مارگی۔ میں ابھی جیتا جاگتاموجود ہوں اور تم میرے اسکیٹس پہنے اُڑتی پھررہی ہو!‘‘

’’میں نے فیصلہ کیا کہ بہترہوگا میں نانا کے پاس جاؤں اور انہیں خواب اور اپنے ’’واپس لئے جانے‘‘ کا ماجرہ بیان کروں۔ شائد وہ کچھ اس مسئلہ کو حل کر سکیں۔ میں نہیں سمجھتا تھا کہ میں نے خواب میں خدا کو دیکھا تھا۔ وہ خوبصورت تو بہت تھا مگر خدا جتنا بڑا ہر گز نہیں تھا۔

نانا باڑے کے دروازے کے باہر بیلچہ کی مدد سے برف ہٹا رہے تھے۔میں نے وقت ضائع کئے بغیر اپنا خواب ان کو کہہ سنا یا۔

’’آپ نے  کبھی اس طرح کا خواب  دیکھا ہے؟‘‘

’’نہیں! پر کاش کبھی دیکھ سکتا!‘‘

نانا  گہری برف پرچلتے ہوئے  باڑے کی دوسرے طرف جانے لگے۔ میں بھی  ان کے پیچھے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے چلا۔

’’یہ کیا کررہے ہو!‘‘

’’آپ کے نقشِ قدم پر چل رہا ہوں۔‘‘

نانا خوفزدہ سے دکھائی دیئے۔ کہنے لگے، ’’چھوڑو یہ قدم اس لائق نہیں  کہ ان کے پیچھے چلا جائے۔خود اپنے نقشِ قدم بناؤ اور ان کو اس لائق کرو کہ لوگ  اس پر چلیں‘‘۔

’’کیا خدا جب چلتا ہے تو اس کے نقش قدم بنتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

ناناہنسے ، کہنے لگے  میری اس بات سے انہیں اُس لڑکے کی بات یاد آگئی جو کلاس میں پنسل لئے  انتہائی انہماک سے   تصویر بنا رہا تھا۔ جب استاد نے اس سے پوچھا کہ  وہ کیا بنارہاہے تو لڑکے  نے جواب دیا ’خدا‘۔ اس پر استادنے مسکراتے ہوئے کہا ’لیکن یہ تو کوئی نہیں جانتا خدا کیسا ہے‘۔ لڑکے نے کہا ’جب میں تصویر بنا لوں گا تب انہیں پتہ  چل جائے گا‘۔یہ کہہ کرنانا نے ایک بلند آہنگ قہقہہ لگایا۔ انہیں اپنے کہے لطیفوں پر دوسروں سے زیادہ ہنسی آتی تھی۔اکثر وہ اپنے لطیفوں پر دوسروں سے زیادہ ہی ہنستے تھے۔ جب میں گھر واپس جانے کے لئے مڑا تو انہوں نے پیچھے سے برف کا ایک گولہ مجھے دے مارا۔

ان کے علاوہ  اگر کسی کو میں نے اپنے خواب کے بارے میں بتایا تو وہ ایلا تھی۔ اور یہ میری بہت بڑی بھول تھی۔میرا خیال ہے وہ مجھ سے جلتی تھی کیونکہ اس کے بعد سے ہی  اس نے ہر طرح کے خواب اورمناظر دیکھنے شروع کردیئے  ۔

ایک دن اُس نے بڑے فخرسے کہا، ’’تمہارا آدمی کل رات خواب میں میرے پاس آیا تھا‘‘۔

مجھے بالکل یقین نہیں آیا اس لئے میں نے پوچھا ’’اچھا بولو تو وہ کیسا تھا؟‘‘

’’وہ صنوبرکی  درخت کی طرح لمبا تھا اور اس کی آنکھیں پلیٹوں کی طرح تھیں۔‘‘

 مجھے پتہ تھا وہ گپ ہانک رہی ہے۔ناشتہ پر اُس نے یہ خواب سب کو سنایا، ’’ولیم کا چمکدارآدمی  کل رات میں نے دیکھا۔‘‘

والد کے ہاتھ سے ٹوسٹ پھسل گیا اور انہوں نے مکھن بجائے ٹوسٹ کے اپنے ہاتھ پر لگادیا۔

ماں نے کہا ،’’اچھی بات  ہےبیٹی، تم ایسا کرو کہ  تمام خواب  احتیاط سے لکھ ڈالو اور رات کوکھانے پر ہمیں سنانا۔‘‘

ایلا کا جوش و خروش دیکھنے کے لائق تھا، ’’وہ دبلاپتلا اور لمبا تھا اور اس نے لمبا سیاہ کوٹ پہن رکھا تھا۔ سر پر لمبی سی کالی ٹوپی تھی، کالی داڑی اور خوب افسردہ آنکھیں تھیں اس کی۔‘‘

دوسری بہن فرانسس نے  انتہائی سنجیدگی سے سر ہلایا۔ ایلا نے اپنی کہانی جاری رکھی، ’’وہ باربار یہی کہہ رہا تھا ستاسی برس پہلے ہمارے آبا و اجداد۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔‘‘

سب کو معلوم تھ ایلا جھوٹ بک رہی ہے۔ میں نے والدصاحب کو ماں سے یہ کہتے سُنا، ’’کاش میں  ولیم کے باے میں بھی اِ سی اعتماد سے  یہی کہہ سکتا‘‘۔ انہوں نے اعلان کیا  کہ اس معاملے میں جھوٹ بولنے کا نہ صرف خیر مقدم کیا جائے گا بلکہ کوئی سزا بھی نہیں دی جائے گی۔

ایک اتوار کو میں چرچ کا ناغہ کرکے گناہ کبیرہ کا خطرہ مول لیا۔ اس  دن میں نانا کے ساتھ ان کی بگھی میں دریا مسّی سیپی کے کنارے گیا۔ ایک زبردست طوفان  کے نتیجے میں دریا کی وادی میں رہنے والے زبردست نقصانات کا شکار ہوئے تھے۔ نانا ان کے مکانات بچانے میں ان کی مدد کررہے تھے۔ ہم دوپہر تک اس سلسلہ میں کام کرتے رہے۔جب ہم  واپس گھر آئے تو نانا کو نانی  کی زبردست طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ مجھے اسی وقت کمرے میں بھیج دیا گیاتا وقتیکہ  رات کووالد صاحب گھرآئیں  اور میرے بارے میں حتمی فیصلہ کریں۔

مجھے خدشہ تھا کہ اس  بار معاملہ پند و نصائح یا ہلکی چھڑی پر ختم نہیں ہوگا بلکہ اس  بار تان استرا تیز کرنے والی بیلٹ پرجاکر ٹوٹے گی۔ وہ اس بیلٹ کو اس طرح چلاتے تھے جیسے لکڑی چیر رہے ہوں۔اور کبھی کبھی اس کام میں اس قدر مگن ہو جاتے تھے کہ انہیں یاد ہی نہیں رہتا تھا  کہ ایک لڑکے کوسیدھاکرنے کے لئے جتنی ضرورت ہے اس  سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے۔ لیکن اس سزا سے زیادہ خطرناک ان کا سیڑھیوں پر چڑھ کرآنے کا اندازتھا۔ان کے پاؤں سیڑھیوں پر اس طرح پڑتے جس طرح اتوار کو چرچ میں مسٹرٹلی کی انگلیاں پیانو پر۔والد صاحب کا سیڑھیاں چڑھنا ان کے دُرّے لگانے سے زیا دہ خطرناک تھا۔ صبح کے وقت ہمیں دوبار پکارنے کے بعد تو چند سیڑھیاں وہ اس خطرناک طریقے پر چڑھتے اور کہتے، ’’میں ابھی آتاہوں ، اگر آیا تو تم لوگ بہت پچھتاؤ گے‘‘۔ اس کے بعد وہ ایک ہی سیڑھی پر اس طرح چڑھتے اترتے کہ  بظاہر معلوم ہوتا کہ وہ بالکل اوپرتک چڑھ گئے ہوں۔ اور میں بجلی کی طرح بستر سے باہرآجاتا۔ ایک صبح کو وہ کچھ زیادہ ہی فورم میں تھے ، ’’ اگر تم پانچ منٹ میں نہ اٹھے تومیں آکر تمہاری گردن دبوچ لوں گا‘‘۔ دس منٹ بعد انہوں نے کہا،’’میں آرہا ہوں‘‘ اور اس کے بعد انہوں نے سیڑھیوں پر جو آوازیں پیدا کی ہیں  وہ اس قدر کرلرزہ خیز تھیں کہ مجھے ابا پر رشک آنے لگا۔ میں نے ہنستے ہوئے ایلا سے کہا،’’ اچھی کوشش تھی، بالکل ایسا معلوم ہوا جیسے وہ کمرے تک آگئے ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کرجو میں نے سر اٹھا کر دیکھاتو۔۔۔۔۔۔۔۔ ’صبح بخیر ابا۔‘

اِ س وقت میں چرچ کا ناغہ کرنے کے بعد کمرے میں بیٹھا اُن کے ’قدموں کی چاپ‘ کا انتظار کررہا تھا۔آخر وہ آگئے۔

’’چلو اس کام سے فارغ ہو لیں‘‘ انہوں نے کہا۔

’’جی جناب۔‘‘

اس سے تمہیں جتنی تکلیف ہو تی ہے اس سے کہیں زیادہ مجھے ہوتی ہے۔‘‘

’’لیکن جگہیں مختلف ہے۔‘‘

 میرے اس جملے کی وجہ سے دو چار ہاتھ اور کھانے پڑے لیکن جیسے ہی بقول ایلا کے والد صاحب نے ڈھول بجانا بند کیا ، میں سیدھا نانا کے پاس ان کی کوٹھڑی میں پہنچا۔ وہ ایک صندوق پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’تشریف رکھئے‘‘ انہوں نے کہا۔

میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’ابھی نہیں۔‘‘

نانا نے صورتحال سمجھتے ہوئے سر ہلایا اور کہنے لگے ، ’’تمہارا خیال ہے  کہ اگرتم جھوٹ بول دیتے تو اس وقت زیادہ آرامدہ  حالت میں ہوتے؟‘‘

میں نے کہا، ’’ہاں‘‘۔ نانا نے کہا،’’ بہتر ہے کہ نچلے سرے پرتکلیت برداشت کی جائے تاکہ اوپری سرے پرخود کو فخرہو۔ یہی کردار ہے۔اپنی تکلیف کو بھول جاؤ۔ تم نے دریاپر لوگوں کی جو مدد کی ہے وہ بہت عظیم کام ہے۔‘‘

نانا نے دروازے پر اچٹتی  ہوئی نظر ڈالی اور شائد وہاں پر نانی کو دیکھا: ’’ہاں دعا درود بھی اچھی چیز ہے پر یہ تو تم  کام کے ذریعے بھی کرسکتے ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ تم یہ سمجھو کہ تمہارا بوڑھا نانا دعا پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ میں یقیناً دعا پر یقین رکھتا ہوں۔ لیکن طریقے مختلف ہیں۔ جیسے اب میں سجدہ ریز ہوں تو خدا کہے گا ’سیدھے کھڑے ہو بوڑھے منافق میل ویگنر! جولوگ عبادت کا طریقہ جانتے ہیں انہیں عبادت کرنے دو اور تم جاؤ دریا پر مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرو۔ سنا تم نے؟‘ ‘‘

’’خدا نے سچ مچ آپ سے یہ کہا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’خیر، کہہ سکتا تھا۔‘‘

نانانے بگھی سے مجھے ایک نرم گَدی نکال کر دی۔ میں بڑی احتیاط سے اس پر بیٹھ گیا۔ مجھے نانا کے ساتھ رہنا بڑا ہی پسند تھا، مجھے ان کے کپڑوں کی بو پسند تھی، ان کا جھری زدہ چہرہ  اور چبھتی مونچھیں بھی پسند تھیں جو کہ  جب وہ مجھے  گلے لگاتے تو اس وقت مجھے چبھتی تھیں۔اس کوٹھڑی کے اندر ایک دنیا آباد تھی جس میں صرف ہم دونوں کا گزر تھا۔ مجھے اس کے ہرلمحے سے محبت تھی۔  سوکھی گھانس کی خوشبو،گھوڑوں کا ہنہنانا اور کان اچکانا اور ان کے خوراک کے برتن کو چھیڑتے ہی ان کا بے چین ہوجانا، اورجب میں شہزادہ کی  مخمل جیسی نرم ناک کو سہلاتا تو اس کا مجھے محبت سے دھکا دینا۔ کبھی کبھی میں اس کی گردن سہلاتا اور لکڑی کی چھت کی دراڑوں سے آتی ہوئی روشنی کی کرنوں میں ناچتے  ہوئے  دھول کے ذرات کودیکھتا رہنا۔

اُس رات جب میں واپس جانے لگا تو نانا نے بڑے پیارسے مجھے گلے لگایا اور اپنی مونچھوں سے مجھے اچھی طرح رگڑا،’’ سوال کرنا کبھی بند نہ کرنا‘ ‘ انہوں نے نصیحت کی۔ پھر مجھ سے سینے پر صلیب بنوائی اور موت کی قسم دلو اکریہ وعدہ کروایا کہ میں سوال پوچھنا بند نہیں کروں گا کیونکہ کچھ سیکھنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔’ ’لوگ بڑے ہوکر سوال کر نا بندکر دیتے ہیں اور سب کچھ یوں ہی قبول کرنے لگتے ہیں اور جو کچھ وہ قبول کر لیتے ہیں وہ عام طور پر اچھا نہیں ہوتا۔ دنیا کے  ساتھ مسئلہ یہی ہے بیٹے!  پوچھتے رہو۔ کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی چیز ضرور ایسی ہوگی جو موجودہ صورتحال سے بہتر ہوگی۔ایک نہ ایک دن تمہیں تمہارے خواب کی تعبیر ملے گی۔ مجھے امید ہے کہ میں اُس  وقت تک زندہ رہوں گا۔ میں خود ستَّر سال سے کسی چیز کی تلاش میں ہوں۔‘‘

اسی وقت دروازے پر والد صاحب کی انگلی نمودار ہوئی۔ وہ مجھے طلب فرمارہے تھے۔اس طرح ہماری مشورت ختم ہوگئی۔

∞∞∞∞∞

آئندہ: خداخندہ زن،باب۴: بعد از مرگ ملیں گے حوروقصور

تحریر: ولیم سیئرس؛ ترجمہ: محمودالحق، ڈھاکہ، بنگلادیش

اس مضمون میں ظاہر کردہ خیالات لکھاری کے ذاتی خیالات ہیں۔ ان سے ’افکارِ تازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *