تخفیف اسلحہ اور امن کا وعدہ

(تخفیف اسلحہ کے لئے اقوام متحدہ  کی جنرل اسمبلی کے پہلے خصوصی سیشن  کے موقع پر مندوبین کو بہائی انٹر نیشنل کمیونٹی کی طرف سے پیش کیا گیا بیان: یکم جون ۱۹۸۲ء ، نیویارک)

’’یہی وہ ہدف ہے. ایک نئے عالمی نظام کا ہدف، جو بنیادی طور پر ملکو تی، اپنی وسعت کے لحاظ سے سب کو اپنی آغوش میں لینے والا، اصول میں منصفانہ، اپنی خدوخال میں للکارنے والا۔ جس کی طرف خوفزدہ انسانیت بڑھنے کی جدوجہد کرنی ہی ہو گی۔‘‘ (بہائی تحریروں سے)

بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی، جو ایک غیر سرکاری تنظیم کے طور پر مشاورتی حیثیت سے اقوام متحدہ کی اقتصادی و سماجی کونسل (ECOSOC) اور بہبود اطفال کے ادارے (UNISEF) کا ممبرہے،نہایت خوشی کے ساتھ مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کرتی ہے اور مقدس بہائی تحریروں سے اقتباسات پیش کرتی ہے تاکہ انہیں اقوام متحدہ کی خصوصی کمیشن برائے تخفیف اسلحہ کے لئے ہماری طرف سے ایک مدد سمجھا جائے۔

بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی کی رائے میں جنگ کے خاتمےاورانسانی مسائل کے حل کے لئےتخفیفِ اسلحہ ناگزیر ہے۔

  اس چھوٹے سے سیارے پرہم سب اس نوع انسانی سےتعلق رکھتے ہیں جس کی بقا ایک دوسرے پرمنحصرہےاورہم ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں جس کا رفتار محدود قومیت سے بین الاقو امیت کی طرف ہے۔ حالانکہ اب بھی ایک ملک کے باشندوں کی ضروریات کو نوع بشر کی ضروریات پر فوقیت دی جا رہی ہے۔

دنیا کی تمام قوموں کی طرف سے عمومی اور مکمل طور پر اسلحہ میں تخفیف کے لئے لازمی ہے کہ حکومتیں اور لوگ نوع بشر کی بنیادی وحدت کے بارے میں اپنے احساسات اور ادراک کو قوی تر بنائیں کیونکہ انسانیت کے جسم میں ہر فرد کی حیثیت ایک خلیہ کی ہے اور ہرقوم بحیثیت مجموعی  اس دھرتی کے جسم میں خلیوں کا ایک مجموعہ ہے۔ جب جسم بحیثیت مجموعی صحت مندہوگا تو اس کا ہرعضو اپنی جگہ پر صحت مند اور خوشحال ہو گا۔

تخفیف اسلحہ کے لئے ایک ایسے  عالمی وفاق کے قیام کی ضرورت بھی ناگزیر ہے جو اپنے  اندر وہ تمام ضروری عضویات رکھتا ہو جس کے ذریعہ وہ تمام قوموں اور حکومتوں کے ایما پر  انصاف کے ساتھ حکومت کر سکے۔ بہائی نقطہ  نظر سے  جب تک دنیا کی تمام حکومتیں ایک بالاتر از قومیت ادارے کے قیام پر رضامند نہیں ہو جاتیں یہ قومی حکومتیں اور دنیا کی مجموعی صحت اسی طرح  روبہ علا لت رہے گی۔ ضروری ہے کہ یہ ادارہ ایک ایسا با اختیار ادارہ ہو جو تمام قوموں کے درمیان نفاق کو گرفت میں رکھنے اور بتدریج بالکل مٹا دینے پر قادر و مجاز ہو۔ اس قسم کے عالمی ادارے   کے زیر کمان کافی فوج اور اسلحہ بھی ہونا چاہیے کہ وہ ایک قوم کو دوسری قوم پر حملہ سے باز رکھ سکے اور جنگ کی صورت میں زیادتی کرنے والے کو خاموش کر سکے۔

ہر قوم کے پاس  صرف اتنا اسلحہ رہنے دیا جائے  جتنا اس کے اندرونی حفظ امن کے لئے ضروری ہو۔ صرف اسی صورت میں ایک تباہ کن بین الاقو امی جنگ کا خاتمہ ممکن ہے کہ محدود جنگوں کے ابھرتے ہی تیزی سے خاتمہ کر دیا جائے۔

صرف تعلیم، خوراک اور ملازمت کے لئے ہی نہیں بلکہ بین الاقو امی اخلاق قوانین اور امن و امان جیسے اہم نکات پر بھی قوموں کے درمیان  اشتراک عمل ہونا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر مستقل امن کا قیام ناممکن ہے۔

بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی تسلیم کرتی ہے کہ عالمی امن کے قیام کے لئے اس کے سوا کوئی آسان راستہ نہیں ہے کہ جنگ سے احتراز کتنے کی ذمہ داری  اور ایسی راہ معین کرنے کی ذمہ داری جو اتحاد اور تخفیف اسلحہ کی جانب ہو اور اس طرح سیاسی افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے کی ذمہ داری لازماً  قومی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ ایسا کریں تو یہ   عالمی امن کی راہ میں پہلی منزل ہو گی:

’’ آج عظیم حکمرانوں کے شایان شان یہ ہے کہ وہ امن قائم کریں کہ اسی میں تمام قوموں کی آزادی مضمر ہے۔‘‘  (بہائی تحریروں سے)

بالترتیب یہ ذمہ داری ایک ایک فرد پر بھی عائد ہو گی کہ ایک خالق کے عبد کی حیثیت اور ایک ہی انسانی برادری  کے فرد کی حیثیت  سے وہ اپنے  صحیح مقام کی آگاہی حاصل کرے اور اس طرح دھرتی سے افلاس اور جنگ کو ختم کر کے تمام قوموں کو امن و آشتی میں لانے کی خدائی خواہش کو پوری کرے۔ اس طرح انفرادی اور سماجی بہبود کی ایک ایسی تہذیب  جنم لے گی جو محبت رحم  اور انصاف کے روحانی جذبوں س سرشار ہو گی۔  اور یہی عالمی امن و اتحاد کا دوسرا مرحلہ ہو گا۔

بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی ایک صدی سے زیادہ عرصے سے بہائی دن کے بانی و مظہر الہٰی حضرت بہاء اللہ کے قائم کئے ہوئے اس منصوبے پر عمل پیرا ہے جو انصاف اور اقوام عالم کے اتحاد پر مبنی ایک عالمی نظام کے قیام پر منتج ہو گا۔ اس کے ممبران میں آج نوع بشر کے ۱۶۰۰ سے زیادہ قبائل اور قو میتوں کے  لوگ شامل ہیں جو ہر اس قومی حکومت کے بھی وفادارہیں جہاں وہ رہتے ہیں اور اپنے اشتراک عمل سے ان احساسات کے ساتھ سماج کی تعمیر کر رہے ہیں جو بالآخر امن اور عالمی تہذیب کے لئے ناگزیر ہوں گی۔

بہائی تحریروں سے

تخفیف اسلحہ، امن اور حقیقی تہذیب

حضرت بہاء اللہ نے پوری دنیا کے بادشاہوں اور حکمرانوں کو خطاب کرتے ہوئے نہایت ہی واضح اور صاف صاف الفاظ میں انہیں امن کے قیام کا مشورہ دیا اور ٹھوس ذرائع سے ثابت کر کے سمجھایا ہے کہ انسانیت کی خوشحالی اور ترقی کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ صلح اور تخفیف اسلحہ کا ہے۔(فاؤنڈیشن آف ور لڈ یونٹی)

ایک عام عہد نامہ کے ذریعے پوری دنیا کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سب ایک ہی وقت پر اسلحہ کو کم کر دیں۔ اگر ایک حکومت اسلحہ کم کر دے اور دوسرے  ایسا کرنے سے انکار کریں تو اس سے کام نہیں چلے گا۔ اس نہایت ہی اہم معاملے کے متعلق ساری دنیا کی قوموں کو متحد ہونا چاہیے تاکہ وہ ایک ہی وقت میں انسانی قتل و غارت کے مہلک آلات   کر دیں۔ جب تک ایک سلطنت اپنے فوجی و بحری اخراجات کو بڑھاتی جائے  گی اس وقت تک دوسری سلطنتیں بھی  اپنے قدرتی قور مفروضہ مفاد کی بنا پر اس مجنونانہ تگ و دو میں شامل ہونے پر مجبور ہوں گی۔ ( بہاء اللہ و عصر جدید)

ہزاروں افراد نے اپنے مفید کاموں کو چھوڑ کر دن رات نت نئے اور مہلک ترین ہتھیاروں کی تیاری کا کام شروع کر دیا ہے جن سے نوع بشر کا خون آسانی سے  اور مؤثر طریقے پر نہایت خوش اسلوبی سے بہایا جا سکے۔  ہر روز ایک نیا بم اور ایک نئی اکسپلوسیو ایجاد کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں حکومتوں کو اپنے پرانے ہتھیاروں کی جگہ جدید ترین ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کرنی پڑتی ہے کیونکہ جدید ہتھیاروں کا مقابلہ پرانے ہتھیاروں سے نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اس دوڑ کے دہلا دینے والے اخراجات کا بوجھ مجبور عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ (دی سکرٹ آف ڈیوائن سویلائزیشن)

اگر ہم توقف سے اس عجیب و غریب ابتری کی شکار دنیا کی موجودہ حالات کا  جائزہ لیں تو حضرت بہاءاللہ کے ان الفاظ کی اہمیت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ : ’’کب تک یہ انسانیت اپنی خود سری پے اڑی رہے گی؟ ظلم کا دور دورہ کب تک رہے گا ؟ یہ کھل بلی اور افراتفری کب تک انسانوں پر چھائی رہے گی ؟ ناچا تی کب تک سماج کو پریشان و مضطرب رکھے گی؟ افسوس یاس و نا امیدی  کی ہوائیں ہو سمت سے چل رہی ہیں اور بنی نوع انسان کو منقسم و برباد کرنے والے فسادات ہر روز بڑھتے جا رہے ہیں،  اس وقت آنے والی افراتفری اور سراسیمگی کے آثار نمایاں ہیں کیونکہ جو نظام اس وقت جاری ہے وہ افسوس ناک حد تک ناقص دکھائی دینے لگا ہے۔(دی ور لڈ آرڈر آف بہاء اللہ)

اس میں شک نہیں کہ حقیقی تمدن مرکز دنیا میں اپنا عَلَم اس وقت بلند کرے گا جب بعض اعلیٰ خیالات کے شریف حکمران ہمدردانہ  جوش  کی دنیا کے چمکتے ہوئے آفتاب مستقل ارادے اور آرزو سے بھرے ہوئے دل کی قوت کے ساتھ پیش قدمی کر کے عالمگیر امن کے مسئلہ پر ایک کانفرنس کریں گے اور اپنے خیالات کے اجرا کے وسائل کو مضبوطی سے پکڑ کر دنیا کی سب حکومتوں کا ملاپ قائم کر دیں گے اور آپس میں ایک قطعی عہد نامہ اور مضبوط  اتحاد ایسی شرائط کے ساتھ کریں گے کہ ان سے کسی طرح گریز کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ جب ساری دنیا کے لوگ اپنے نمائندوں کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کر کے اس عہد نامہ پر دستخط کر دیں گے جو در حقیقت ایک عالمگیر امن قائم  رکھنے کا عہد ہو گا اور جس کو ساری دنیا کے لوگ متبرک سمجھیں گے تو  دنیا کی متحدہ طاقتوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس عظیم عہد نامے کو قوی تر بنا تے جائیں اور اس کے دوام کے ذمہ دار ہوں۔

اس عالمگیر عہد نامے میں ہر ایک سلطنت کی حدود اس کے قوانین و رواج کا تعین ہونا ضروری ہے اور مختلف حکومتوں کے مابین تعلقات ،انکے انتظامات و معاملات مملکت اس میں درج ہونا چاہئیں۔ اسی طرح ہر سلطنت  کی مقدارِ اسلحہ بھی پوری طرح سے متعین کر دینا بھی اس کے لوازمات میں سے ہونا چاہیے۔  کیونکہ اگر ایک سلطنت آلات و سامان جنگ کی تیاری کرنے لگے گی تو اس سے دوسری سلطنتوں میں بے چینی پیدا ہو گی ۔ اس قوی اتحاد کی بنیاد اس طرح ڈالنا چاہیے کہ اگر ایک سلطنت کسی ایک شرط کی خلاف ورزی کرے تو دنیا کی باقی تمام سلطنتیں اس پر چڑھائی کر کے اسے زیر کریں بلکہ پوری نوع بشر اکٹھی ہو کر ایسی حکومت کا تختہ الٹ دے۔ اگر دنیا کے بیمار جسم کو اس قسم کی مفید دوا دی جائے تو یہ فی الحقیقت عالمگیر اعتدال و انصاف کے ذریعے اس کی دکھوں کو مکمل طور سے دور کرنے کا باعث ہو گی۔

مشاہدہ فرمائیں کہ اگر اس قسم کی ایک خوش آئند حالت قائم ہوجائے تو پھر کسی بھی حکومت کو متواتر جنگی ہتھیاروں کا ذخیرہ جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی نہ ہی وہ ملَّتِ انسانی کو فتح کرنے کے لئے نت نئی ایجادات کی فکر میں مبتلا ہوں گے۔ ممالک کے اندرونی تحفظ و بقائے امن  و امان ، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور سرکشوں کی سر کوبی کے لئے   معمولی سی  فوجی قوت ہی کافی ہو گی اور بس۔ اس طرح اولاً ان تمام کمر توڑ  اخراجات کے بوجھ لوگوں پر سے اٹھ جائیں گے جو موجودہ حالات میں فوجی ضروریات کے لئے  ان پر پڑا ہوا ہے اور دوسری طرف لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو خونی اسلحہ جات کی تیاری اور ایجادات سے فرصت مل جائے گی اور اس وقت کو وہ ایسی ایجادات اور پیداوار کے لئے وقف کر سکیں گے جو انسانی بقا ، امین و خوشحالی کی موجب ہوں۔ تب دنیا کی ہر سلطنت با عزت طور پر حکمرانی کر سکے گی اور ہر قوم استحکام و اطمینان کے مضبوط قلعے میں ہو گی۔

بعض اشخاص جو انسانی کوششوں میں پنہاں قوتوں سے بے خبر ہیں کہتے ہیں کہ یہ امر بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ یہ بات نہیں بلکہ خدا کے فضل اور اس کے مقربین کی عنایت سے اور ماہر و کامل نفوس کی ہمت سے اور اس زمانے کی بے مثل ہستیوں کے افکار و آراء سے دنیا کا کوئی امر محال  و ناممکن نہ رہے گا۔ کوشش، لگاتار کوشش لازم ہے۔ کامل اور پوری غیرت اور ہمت کے سوا اور کوئی چیز اسے پورا نہیں کر سکتی۔ بہت سے امور جو پہلے زمانوں میں ناممکن سمجھے جاتے تھے اور ان کا واقع کسی عقل میں نہ آتا تھا اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ بالکل سہل اور آسان ہوگئے ہیں۔ پھر بھلا یہ عظیم و اعلیٰ امر جو فی الحقیقت عالم تمدن کا روشن آفتاب اور سبب ہے کیوں ناممکن ہے اور کیوں محال سمجھا جائے؟ بیشک ایک دن ایسا آئے گا جب اس کا نور انجمن عالم کو منور کرے گا۔  (دی سکرٹ آف ڈیوائن سویلائزیشن)

وحدت نوع بشر

حضرت بہاء اللہ نوع بشر کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:’’ اتحاد کا خیمہ بلند کر دیا گیا ہے۔ تم ایک دوسرے کو بیگانہ  نہ سمجھو۔۔۔تم سب ایک ہی درخت کے پتے اور ایک ہی ڈالی کے پتے ہو۔۔۔۔ساری دنیا ایک وطن اور سارے انسان اس کے شہری ہیں۔۔۔۔فخر اس کے لئے نہیں جو اپنے وطن سے محبت رکھتا ہے بلکہ فخر اس کو زیبا ہے جو تمام نوع انسان کو پیار کرتا ہے۔ (دی ورلڈآرڈر آف بہاء اللہ)

اس اصول کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے کہ وحدت عالم انسانی کا اصول یعنی وہ محور جس کے گرد حضرت بہاء اللہ کی تمام تعلیمات گھومتی ہیں، جاہلانہ جذبات کا طوفان یا مبہم دیندارانہ امید کا اظہار نہیں کہ نوع انسان کے درمیان باہمی دوستانہ مدد کو ترقی دی جائے بلکہ اس کا منشاء  عمیق اور اس کا دعویٰ تمام دعووں سے بڑا ہے جو گزشتہ و سابقہ پیغمبر اپنے زمانے میں کر سکتے تھے۔  حضرت بہاء اللہ کی تعلیمات اور آپ کا پیغام فقط افراد کے ہی نہیں بلکہ اس علاقہ ان حقیقی تعلقات کی نوعیت سے ہے جو تمام حکومتوں اور قوموں کو ایک خاندان یا انسانی اعضا کے طور پر منسلک کردیں گے۔ یہ کسی تصور کا اعلان نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک ایسا ادارہ غیر منفک طور پر موجود  و مستلزم ہے جو اس کی سچائی کو ظاہری طور پر پُرنور صورت میں لانے، اس کی صحت ظاہر کرنے اور اس کے نفوذ کو دوام بخشنے کے لئے موزوں و مکتفی ہے۔ اس کا مقصد موجودہ زمانے کی سوسائٹی کی بناوٹ میں بنیادی تبدیلی کرنا ہے۔ ۔ایک ایسی تبدیلی جو دنیا  نے کبھی نہیں دیکھی۔ یہ دقیانوسی اور فرسودہ قومی مسالک کو خبردار کرتا ہے کہ اب ان عقائد کو جو اپنے اپنے زمانہ میں اچھے تھے مگر اب انہیں زمانہ کی اس معمول کی رفتار کے مطابق جو قبضہ قدرت میں ہے اور جسے خدا کی قدرت کاملہ ترتیب دیتی ہے ایک نئے مسلک کو جگہ دینی چاہیے جو ان مسالک سے  جو دنیا نے اب تک تشکیل دئے ہیں بنیادی طور پر مختلف اور ان سے نہایت ہی برتر و بالا ہے۔ اس پیغام کا تقاضا ہے کہ پوری دنیا کی نئے سرے سے تعمیر ہو اور جنگ جویانہ خیالات اس  کی سرشت سے نکال دئے جائیں اور ایسی دنیا وجود میں لائی جائے جو زندگی کی تمام ضروری صورتوں میں بنیادی طور پر متفق و متحد ہو یعنی اس کے سیاسی کل پرزے، اس کی روحانی آرزوئیں، اس کی تجارت اور مال، اس کی تحریر و کلام سب اتحاد کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں مگر ساتھ ہی اس کے متحدہ ممبروں کی قومی خصوصیات کا تنوع  بھی زیادہ سے زیادہ برقرار رہے۔

یہ انسانی زندگی کے ارتقا کی تکمیل کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ ارتقا جس کا آغاز خاندانی زندگی کی ابتدا سے ہوا۔ پھر نشو و نما پاتا ہوا قبیلو ں کی باہمی استحکام میں پورا ہوا۔ اس کی دوسری منزل پر شہروں میں جداگانہ حکومت کا قیام تھا جس کے بعد یہ خود مختار فرماں روا قوموں کا ادارہ بن گیا۔

وحدت نوع بشر کے اصول کا جیسا کہ حضرت بہا ء اللہ نے اعلان فرمایا ہے یہ جچا تلا اہم دعویٰ ہے کہ اس عظیم الشان ارتقا کی اس آخری منزل (وحدت عالم انسانی) کا حصول فقط ضروری ہی نہیں بلکہ ناگزیر بھی ہے اور یہ کہ بڑی سرعت سے اس کی عمل پذیری قریب آر ہی ہے اور یہ کہ سوائے ایسی قدرت کے جو خدائے قادر مطلق کی طرف سے ظاہر ہوئی ہو اور کوئی قوت اسے قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ (دی ور لڈ آرڈر آف بہاء اللہ)

یہ نہایت ضروری ہے کہ پوری دنیا کی ایک حکومت عالیہ بنائی جائے اور دنیا کی تمام قومیں اپنے جنگی حقوق اور اسلحہ جات رکھنے کے تمام حقوق برضا  و  رغبت اس کے  سپرد کر دیں۔ ٹیکس لگانے کے بعض حقوق اور اسلحہ جات رکھنے کے تمام حقوق اس کے اختیار میں ہوں۔ دنیا کی ہر قوم  فقط اس قدر اسلحہ جات رکھ سکے جس سے وہ اپنی حکومت کے اندرونی انتظام کو قائم رکھ سکے۔ ایسی حکومت عالیہ کے دائرہ کے اندر ایک بین الاقو امی انتظامی محکمہ کا ہونا لازمی ہے اس محکمہ کو اس حکومت مشترکہ  کے کسی سرکش ممبر کی سر کوبی کے لئے اعلیٰ و آزادانہ اختیار حاصل ہو گا یہ حکومت مشتر کہ دنیا بھر کہ حکومتوں کی پارلیمنٹ ہو گی اس کے ممبر ہر ملک کے باشندے سے اپنے اپنے ملک سے انتخاب کریں گے یہ ایک ایسی عدالت عالیہ ہو گی جس کے فیصلوں کو ان فریقوں کو بھی لازمی ماننا پڑے گا جو یہ نہ چاہتے ہو ں کہ ان کے مقدمات اس کے سامنے پیش کئے جائیں ۔ یہ ایک ایسی عالمگیر برادری ہو گی جس کی ہر قسم کہ اقتصادی  رکاوٹیں ہمیشہ کے لئے دور ہو جائیں گی مالک و مزدور پر ایک دوسرے کی احتیاج واضح ہو جائے گی   مذہبی تعصب و فساد کا شور دشر ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا جائے گا جنسی عداوت کی آگ ہمیشہ کے لئے بجھادی جائے گی ، بین الاقو امی قوانین کا مجموعہ دنیا بھر کے وفاقی نمائندے نہایت غور و خوض کے بعد مرتب کریں گے ان قوانین کی پشت پر دنیا بھر کی وفاقی حکومتوں کی مشترکہ فوجیں ہوں گی جو ہر سر کشی اور قانون شکنی کو فورا دبا دیا کریں گی ، ایک عالمگیر برادری یا دنیا بھر کے لوگ ایک قوم بن جائیں گے متلون اور جنگ جو یا نہ قوم پرستی کا جوش و غضب عالمگیر شہریت کے جذبہ و احساس میں تبدیل ہو جائے گا یہ ہے اس نئے نظام اور تمدن کا ایک خاکہ جو حضرت بہا اللہ کے ذریعے آئندہ دنیا کے لئے نازل ہوا ہے ۔ یہ تمدن رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے زمانے کا بہترین پھل سمجھا جائے گا۔( دی ورلڈآرڈر آف بہاء اللہ)

(ترجمہ: شمشیر علی، بہائی میگزین بابت دسمبر۱۹۹۷ میں شائع شدہ)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *