ایک شہری ہونے کا کیا مطلب ہے؟

posted in: ثقافت | 0

اے دھرتی کےجھگڑنےوالےقوموں اوربرادریو! اپنے چہرے اتحادکی طرف کرلو اور اس کی روشنی کی چمک کو خود پر چمکنے دو۔ تم آپس میں اکٹھے ہوجاؤ اورجو کچھ بھی تمہارے درمیان جھگڑوں کا سبب ہو خدا کی خاطر اس کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا فیصلہ کرلو۔ تب دنیا کے شمسِ عظیم کی درخشانی پوری دھرتی کو گھیر لے گی اور اس کے شہری ایک شہر کے شہری اور ایک ہی تخت کےساکن بن جائیں گے۔

(حضرت بہاء اللہ، گلیننگز، صفحہ  ۲۱۷)

آپ کے والد کہاں پیدا ہوئے تھے؟

سو سال پہلے تک بیشتر جگہوں پر اس سوال کا جواب آپ کی شہریت کا تعین کرتا تھا۔  یہ سننا آپ کے لئے حیران کن ہو سکتا ہے کہ بیشتر جگہوں پر اب بھی یہی اس کا تعین کرتا  ہے۔

لاطینی  زبان میں اورقانونی زبان  میں اسے jus sanguinisکہتے ہیں یعنی خون کا حق۔ عورتوں کی جدوجہد کی کامیابی سے قبل، آپ کی والدہ کی شہریت سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، صرف والد  کی شہریت اہمیت رکھتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں آپ کو اپنی شہریت اپنے والد سے ورثہ میں ملتی ہے اور خواہ آپ کہیں بھی پیدا ہوئے ہوں  آپ خود بہ خود اس ملک کے شہری ہو جاتے ہیں جہاں کے شہری آپ کے والد ہیں۔

اگرچہ اقوام عالم کی اکثریت اب بھی  jus sanguinis  والدین کی وراثت کی بنیاد پر شہریت دیتے ہیں لیکں سب نہیں۔

آج شمالی اور جنوبی امریکہ کے بیشتر ممالک jus soli یعنی زمین کا حق کےپرانے قا نونی تصور کی بنیاد پر شہریت دیتے ہیں یعنی  اس کے مطابق شہریت آپ کی جائے پیدائش پر انحصار کرتی ہے۔ بشمول ریاست ہائے متحدہ و کینیڈا ،دنیا کی ۱۹۴ ملکوں میں سے تقریباً۳۵  jus soili شہریت دیتے ہیں۔ تقریباً باقی تمام یعنی ا فریقی، ایشیائی، یورپی اور جزائری اقوام   jus sanguinis  شہری قوانین کی کوئی نہ کوئی صورت  یا دونوں کا ایک مجموعہ استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین شہریت ان روایتی  قوائد کو  خون و زمین  کے قوانین کہتے ہیں۔

لیکن یہ سب قدیم قانونی اصطلاحات اورمبہم شہریتی قوانین کے گرد   ۱۹۴۸ میں اس وقت ایک حلقہ کھینچ  دیا گیا ہے جب اقوام متحدہ نے انسانی  حقوق کا عالمی منشور(UDHR) اختیار کیا اور دنیا کے ممالک کی ایک  بہت بڑی اکثریت نے  اس کی توثیق کردی ۔ UDHR آرٹیکل ۱۵ میں کہتا ہے:

ہر ایک (شخص) شہریت کا حق رکھتا ہے۔

کسی کو من مانے طور پر اپنی شہریت سے محروم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے اپنی شہریت  تبدیل کرنے کے حق کی تردید کی جائے گی۔

وہ بین الاقو امی قوانین جو بنیادی طور پر دوسری عالمی جنگ  کے   بعد دنیا کے  لاکھوں پناہ گیروں کو سنبھالنے کے ایک منصفانہ طریقہ نکالنے کے لئے بنائے گئے تھے ، اب بہت سے  مقامات پر اور بہت سوں میں مباحثہ، سیاسی تلخی اور   بومی غصے(nativist anger) کا ایک بڑھتا ہوا موضوع بن چکے ہیں۔   اس بارے میں وہ آخری فقرہ اب بھی دھرتی کی قوموں کی اکثریت کی طرف سے  بڑے تنازعے اور  بڑی مزاحمت کا سبب بنا ہوا ہے   جو آپ کے اس حق کے بارے میں ہے کہ آپ اپنی  شہریت تبدیل کر سکتے ہیں۔

ایسا اس لئے ہے کہ یہ  پرانی کہاوت (cliché) ، کہ دنیا سمٹ کر ایک محلہ بن چکی ہے، نقل مکانی اور شہریت   سے اپنے سلوک میں سچی ثابت نہیں ہوئی۔ بیشتر ممالک یقیناً بیشتر پناہ گزینوں  یا تارکین وطن سے اپنے پڑوسیوں جیسا سلوک نہیں کرتے۔ در حقیقت  جنگ، ظلم، نسل کشی، بھوک، استبداد اور  غربت سے بھاگ کر بڑی  بڑی   آبادیوں کی دنیا کے جنوبی علاقوں سے شمالی علاقوں کی جانب بڑھتی ہوئی نقل مکانی  نے ایک گمبھیر رد عمل پیدا کیا ہے اور آزادی کے بارے میں بہت سارے ممالک کے عہد کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ پوری کی پوری سیاسی تحریکوں نے ترک وطن مخالف پالیسیوں کو اپنے بنیادی  جواز کے طور پر اپنا یا ہے۔ متشددنسل پرست  اور شورہ پشت گروہیں بدیسیوں کو نشانہ بناتے، مارتےپیٹتےاور قتل کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ۲۰۱۴کے تخمینہ کے مطابق دنیا میں کوئی ۲۰ ملین بے گھر پناہ گزین ہیں اوربعض اوقات یوں لگتا ہے کہ یورپ اور امریکا کی ترقی یافتہ ممالک سے لے کرصحارائے صغیر افریقہ تک پوری دھرتی ہی ترک وطن کے خلاف احساسات سے جل رہی ہے۔

آج ہی جب میں یہ لکھ رہا ہوں دیڑھ سو پناہ گزین اور تارکین وطن اوقیانوس میں کشی ڈوبنے کے سبب ڈوب گئے ہیں اور ۷۱ لوگ شام میں جنگ سے فرار ہوتے ہوئے ویانا، آسٹریا، کے قریب ایک مقفل ٹرک میں مرگئے ہیں۔ اس سال اب تک چوبیس سو پناہ گزین اوقیانوس میں ڈوب چکے ہیں۔ یہ بیشتر بلکان، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی جنگ اورفساد سے بھاگے ہوئے لوگ تھے۔ یہ پناہ گزین جو مر گئے وہ ان سیکڑوں ہزاروں لوگوں کے ایک مختصرسے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں جو موت، بد بختی اور تباہی سے بھاگ رہے ہیں۔ یقیناً ان میں سے بہت سارے بچے ہیں:  UDHR

اس طرح جدید ذرائع روابط اور نسبتاً دستیاب ذرائع نقل و حمل کے سامنے آنے کی وجہ سے اب دنیا کے بہت سارے تنازعات لوگوں کی کثیر تعداد کی نئی جگہوں تک پہنچنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ ترک وطن اب ایک خونی میدان جنگ بن چکا ہے۔ اپنے ملکوں  میں انہیں جن سخت حالات کا سامنا ہے اس سے فرار حاصل کرنے کے لئے اور کہیں اور بہتر زندگی کی تلاش میں سینکڑوں ہزاروں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے اور انسانی اسمگلروں پر اعتماد کرنے  پر راضی ہیں۔ آج اس سنگین عالمی ترک وطن بحران نے نوع بشر سے یہ دو سوالات پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ کیا ہم پڑوسی ہیں اور کیا ہم ایک ہی دنیا کے شہری ہیں؟

دنیا کے زیادہ ترقی یافتہ مفکرین میں سے  بہت ساروں نے ان سوالات کو سنجیدگی سے زیر  بحث لانا  اور یہ پوچھنا شروع  کر دیا ہے کہ  آیا ہمیں اس خیال کے بارے میں دوبارہ غور کرنا چاہیے کہ  ایک شہری ہونے سے کیا مراد ہے:

’’آج کل شہریت کی بات اکثر کم کم ہی ہوتی ہے۔ جب اسے روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے بارے میں  دنیا ایک  دھندلا  سا پرانے انداز کا احساس رکھتی ہے۔ جب اسے قومی سیاست میں استعمال کیا جاتا ہے تو یہ عموماً ایک  رو بہ زوال ثقافت کی ایک تیز  کرا ہ ، ایک جنگی گو لے، کے ساتھ ہوتی ہے ۔ (ایرک لیو Eric Liu)

’’حتی کہ جیسے جیسے گزشتہ نصف صدی میں انسانی حقوق کے مسلمات مسلسل ارتقا کرتے رہے ہیں، شہریت کا میدان غیرمقید ریاستی خودمختاری کے آخری بُرجوں میں سے ایک رہا ہے۔ نتیجتاً شہریت بین الاقوامی انسانی حقوق کے ڈحانچے میں ایک دیو پیکر سوراخ پیدا کرتی ہے۔‘‘ (جیمس گولڈ اسمتھ)

’’بالآخرحکمرانی کا خواہ کوئی بھی نظام اپنایا جائے، یہ ضروری ہے کہ یہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلے۔ ہمیں اس پیغام کو پہنچانے کی ضرورت ہے کہ ہماری مشترکہ ملکیت یعنی نوع بشر کی حفاظت کا تقاضہ  یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک میں   ایک نئی وفاداری  پروان چڑھائی جائے یعنی نوع بشر سے وفاداری۔ یہ نسل انسانی کا حصہ ہونے کے ایک احساس کو پروان چڑھانے کا تقاضہ کرتا ہے۔‘‘ (جوزف روبلاٹ)

امر بہائی کے پیغام کا مرکزی پیغام  جوپوری انسانیت سے وفاداری کا اصول ہے، عالمی تارکین وطن اور پناہ گزین آبادیوں کے مسائل کو سمجھنے،  ان کا تعین کرنے اوران کو حل کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے:

’’نوع بشر کے تمام ارکان کے درمیان مساوات اور بھائی چارہ قائم کیا جانا لازم ہے۔ یہ انصاف کے مطابق ہے۔ لازم ہے کہ نوع بشر کے عام حقوق کی نگرانی اور حفاظت کی  جائے۔ سب لوگوں سے  برابری کا سلوک کیا جانا چاہیے۔ یہ انسانیت کی فطرت میں ہی ودیعت ہے۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء، عبدالبہاء اِن لندن، صفحہ ۲۹)

 

تحریر: ڈیوڈلیگنس، ترجمہ: شمشیرعلی

سورس: BahaiTeachings.org

اس مضمون میں شامل خیالات ونظریات لکھاری کے ذاتی خیالات ونظریات ہیں۔ ان سے ’افکارتازہ‘ یا کسی بہائی
 ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *