امپاورمنٹ: سماجی کایا پلٹ کے ایک میکانزم کے طور پر

(نوٹ: بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی نے15نومبر2012کو یہ بیان اقوام متحدہ کی کمیشن برائے سماجی ترقی کی 51ویں نشست میں پیش کیا۔ اس کا زیر نظر ترجمہ ہم بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی سے اظہار تشکر کرتے ہوئے پیش کررہے ہیں۔ ایڈیٹر، افکارتازہ)

نیویارک۔۔۔۔۔۱۵ نومبر ۲۰۱۲

’امپاورمنٹ‘ (با اختیار کاری) کا تصور ترقیاتی سوچ کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔ اگرچہ اسے اکثر بنیادی طور پرجنسی مساوات کے ساتھ رکھا جاتا ہے،عالمگیر ترقیات میں پیش رفتیں اس تصوراورانسانی زندگی کے بہت سارے پہلوؤں پراس کے اطلاق کا از سر نو جائزہ لینے کا تقاضا کریں گی۔ امپاورمنٹ کے لئے اہداف ، اہم کرداروں اور شرائط پر نیچے درج خیالات،اس اہم مسئلہ پر، کمیشن برائے سماجی ترقی کےغوروخوض میں مدد کی تلاش کرتے ہیں۔

امپاورمنٹ کا ایک تصور

اصطلاح امپاورمنٹ کے معنی بہت سے لوگوں کے لئے بہت ساری ہیں۔ تاہم ، پسند ، ایجنسی ، صلاحیت، شرکت، خودمختاری ، اور بڑھے ہوئے وسائل کے تصورات عملی طور پرسب تعریفوں میں مشترک ہیں۔ پس معیار زندگی کو بہترکرنےاورانسانی خوشحالی کی بنیاد کو وسیع کرنے کےایک ذریعہ کے خیال کے گرد اتفاق رائے پا یا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ،امپاورمنٹ گہری اور وسیع البنیاد کا یا پلٹ لانے کے لئے ایک میکانزم کے طورکام کرسکتا ہے۔

کایا پلٹ کے عمل کا ذاتی اورساختی دونوں سطحوں پرجائزہ لیا جا سکتا ہے۔ منظر کے ایک کنارے پرامپاورمنٹ فرد کی ترقی کا ایک نتیجہ نظر آتا ہے جو تعلیم، تربیت، مادی وسائل تک رسائی، اورایسی ہی چیزوں کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس نقہ نظر کے مطابق، ساختی تبدیلی کے بارے میں فرض کر لیا جاتا ہے کی یہ ذاتی تبدیلی کا ایک خود کار نتیجہ ہے۔ بد قسمتی سے، عملی طور پرمشکل سے ہی ایسا ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی جو اس قسم کے وسائل سے فائدہ اٹھا تے ہیں خود کو جابرانہ سماجی ڈھانچوں میں شرکت کر تا پا تے ہیں۔ منظر کے دوسرے کنارے پر انسان کو پوری طرح  معاشرے کی پیداوار کے طور پر دیکھا جا تا ہے، اور کسی تبدیلی کو اس وقت تک ناممکن سمجھا جاتا ہے جب تک سماجی ڈھانچے کو، بنیادی طور پر سیاسی اقتدار کے ذریعہ، بدل نہیں دیا جا تا۔ اب تک ، اکثر، اس نقطہ نظر نے اس خیال کی حمایت کی ہے کہ انجام ذرائع کا جواز پیش کرتا ہے اور یہ نا انصافی اور ظلم کے حالات کی صورت پرمنتج ہواہے۔

زیادہ منصفانہ اورمساویانہ سماجی ڈھانچے کی تعمیر کرنے کی خاطر افراد اور سماجوں کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لئے سماجی ترقی کے ایک ایسے تصور کی ضرورت ہے جو ان انتہاؤں سے بچتا ہو۔ انفرادی اور ڈھانچے  کی  کایا پلٹ کا ایک دوسرے سے قریبی تعلق ہے: فرد کی باطنی زندگی اس مرد یا عورت کے سماجی ماحول کی صور تگری کرتی ہے ، اور وہ ماحول ،اپنی باری میں، آدمی کی روحانی اور نفسیاتی خوشحالی پرایک  گہرا اثرورسوخ ڈالتا ہے۔

 پوری انسانیت کو ایک واحد سماجی جسم نامی میں ملا نے، اورافراد اورمعاشرہ کی کا یا پلٹ کا پیچھا کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر، سیاسی نظام کی تشبیہ ، امپاورمنٹ کا تجزیہ کرنے کے لئے ایک مفید وسیلہ فراہم کرتی ہے۔ اس قسم کے کسی تصور میں ، حصوں اور پورے کا انحصار باہمی، تعاون، باہمیت اور باہمی مدد، کرداروں میں فرق کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ہم آہنگ کرنا، ایسے اداری انتظامات کی ضرورت جو دبانے کی بجائے قابل بناتے ہوں، اور کسی بنیادی عنصر سے بڑھ کرایک اجتماعی مقصد کی موجوگی جیسی خصوصیات مضمر ہیں۔ اس انداز میں دیکھے جائے تو، امپاورمنٹ ایک ایسے نظام پرانحصاراوراس کی مدد دونوں ہی کرتا ہے جس میں متنوع کرداروں میں سے ہر ایک کو پورے کے لئےایک منفرد شراکت کرنے کی خاطرضروری وسائل فراہم کئے جاتے ہیں۔

اوپر کے خیالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، انفرادی اوراجتماعی امپاورمنٹ کوانسانی بہبود اور خوشحالی کے مؤثر ایجنٹس کے طور پرکام کرنےکی خاطر لوگوں کے لئے ضروری  تصور، صلاحیت، اور ارادہ کی توسیع کے طور پر تصورمیں لایا جا سکتا ہے۔

سماجی کایا پلٹ کے حمایتی

سماجی کایاپٹ کے عملوں میں بنیادی کردار کون ہیں؟ تجربہ بتاتا ہے کہ تین کردار انتہائی اہم ہیں: فرد ، معاشرے کے ادارے اور سماج۔ اس روشنی میں، امپاورمنٹ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس میں تخلیقی اور منظم طورپرتعمیری صلاحیتوں کو ظاہر کرنے میں افراد کی مدد کرنا ، ایک ایسے انداز اختیار کو استعمال کرنے میں اداروں کی مدد کرنا کہ جو سب کی ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جائے، اور سماجوں  کو ایک ایسا ماحول فراہم کرنے کے قابل بنانا شامل ہے جس میں ثقافت کی تربیت کی جاتی ہے اور انفرادی ارادہ اور صلاحیتیں ایک اجتماعی اقدام میں مجتمع ہوتاہے۔

ان حمایتیوں کے مابین صلاحیت بڑھانے کے لئے انسانی فطرت کے بارے میں مفروضات کا  دوبارہ ایک تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہو گی۔ ’’ہمیں‘‘ اور ’’انہیں‘‘ کے  تصورات خاص توجہ کے مستحق ہیں۔ مثال کے طور پر، ترقی کے حلقوں میں مکالمہ کی جڑیں اکثر معاشرے کے ’’امپاورڈ‘‘ ارکان کی ’’پس ماندوں‘‘ یا  ’’ محروموں‘‘  کی مدد کرنے کے تصورات میں گڑی ہوتی ہیں۔ سماجی ناہموار یوں کو پاٹنے کا جذبہ  بلا شبہ عظیم ہے، لیکن ہمیں/انہیں کی دو فرعیتیں(dichotomies) صرف موجودہ تقسیموں کو مستقل اورمضبوط ترہی کرتی ہیں۔ ان طریقوں پر احتیاط سے سوچنے کی ضرورت ہے جن سے امپاورمنٹ کی طرف ایک آفاقی اور سانجھی مہم کے طور پر بڑھا جائے نہ کہ کسی ایسی چیز کے جو’’مراعت یافتہ‘‘ (لوگ یا ممالک) ’’ناداروں ‘‘ کو بخشتے ہیں۔

یہ سوال کہ کون امپاورڈ ہے اور کون نہیں اس سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔ تاریخی عملوں نے ایسی عدم مساواتیں پیدا کی ہیں جنہیں مخاطب کیا جانا لازم ہے۔ لیکن یہ بھی لازم ہے کہ ترقی کا فریم ورک ایسا ہو جس میں ہر فرد اورگروپ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ترقی کی گنجائش رکھتا ہے۔ اس روشنی میں،  پسماندہ  لوگ صلاحیت سے عاری نہیں ہیں۔ اورمراعت یافتہ بھی مختار کُل نہیں۔ سب ترقی کرنے کی صلاحیت کے مالک ہیں اورسب کُل کی بہبود کو پیش رفت دینے کی ایک ذمہ داری رکھتے ہیں۔

با لآ خر، اگرچہ امپاورمنٹ کسی ایسے شخص یا کسی ایسی چیز کی دلا لت کرتا ہے جس میں طاقت ودیعت  کی گئی ہے، دکھائی دیتا ہے کہ اقوام متحدہ میں ترقی پر مباحث میں طاقت کے سماجی حرکیات کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ طاقت کی حرکیات کے ایک جائزہ کو ان مباحث میں ضم کرنا مشکل ثابت ہوا ہے یہ صورتحال    رسائی کے نئے اور متبادل طریقوں کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کس طرح طاقت کو کسی ایسی چیز کی طرح تصور میں لا جا سکتا ہے جو ایک صفر۔رقم جنس  (a zero-sum commodity یعنی کوئی ایسی چیز جس میں ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان ہو)  سے ہٹ کر کچھ اور ہو؟ کنٹرول اور تسلط کے ساتھ اس کے تعلق کو کس طرح آدمی کی صلاحیت اور اہلیت سے بدلاجا سکتا ہے؟ اسے  ایک وسیلہ کے حاصل یا کم ہونے کی بجائے تمام سماجی تعلقات اور اداروں کے ایک اٹوٹ حصے کے طور پر کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان خطوط پر چھان بین، امپاورمنٹ کے ذرائع اور مقاصد میں بہت زیادہ بصیرت فراہم کرے گی۔

سماجی کایا پلٹ کے لئے بنیادی شرائط

چونکہ جن کو فیصلہ سازی کی میز پر کوئی نشست میسر نہیں ان کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے فیصلوں میں ان کی کوئی آواز نہیں ہوتی،  معاشرے کے ڈھانچوں اور نظاموں میں شرکت سماجی کایا پلٹ کے لئے ایک  ضروری بنیادی شرط ہے۔  تاہم اسے سجاوٹ سے بڑھ کر کوئی چیز ہونے کی خاطر، بنیادی اور تخلیقی شرکت لازم ہے۔ لوگوں کے لئے یہ کافی نہیں کہ وہ محض پراجیکٹوں کے فائدہ لینے والے ہوں، اگرچہ بعض فیصلوں میں ان کی ایک آواز بھی کیوں نہ ہوں۔ انہیں فیصلہ سازی کے عملوں میں اس سے بہت زیادہ شامل ہونا ہی ہو گا: مسائل کی شناخت کرنے میں، حل اورانداز رسائی وضع کرنے میں، فوائد سے لطف اندوز ہونے میں، اورجائزہ کے لئے  معیار طے کرنے میں۔

تاہم شرکت  کو امپاورمنٹ کے مساوی نہیں کیا جا سکتا یعنی ایک ناقص نظام میں حصہ لینا محض  نا ا انصافی کے موجود  پیٹرنس کو  دوام بخشتا ہے ۔ اجتماعی بھلائی کو پیش رفت دینے کے لئے ،  فرد  میں موجودہ سماجی ڈھانچوں کی قوتوں اور کمزوریوں کا اندازہ لگانے کی صلاحیت اور  اس کے درمیان انتخاب کرنے کی آزادی دونوں  ہی ہونی لازم ہے کہ وہ ان ڈھانچوں میں شرکت کرنا چاہتا ہے جو ان کی اصلاح کے لئے کام کر رہے ہیں، یا نئے ڈھانچے تعمیر کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔

ایک خوشحال اورمنصفانہ معاشرے کی تخلیق کے لئے دنیا کی قوموں اور سماجی اداروں کی صلاحیت سازی کو علم میں ایک  وسیع اضافہ کی ضرورت ہو گی ۔ اس کا  قدرتی نتیجہ وہ راستے ہوں گے جو مقامی سطح پر علم کی  تخلیق، استعمال اور  پھیلانے کی سہل کاری کریں۔ کہیں اور سامنے لائے گئے ’’حل‘‘ کو بغیر چون و چرا اختیار کرنے کی بجائے ، علم کو پیدا کرنے، اسے استعمال کرنے اور پھیلانے کے لئے مقامی صلاحیت کو مضبوط کرنے پرزور دینا ، عمل اور فکروتدبر کے ایک جاری پرا سیس کی مدد کر سکتا ہے، ایک ایسا پرا سیس جوکسی سماج کے موجودہ علم کی بنیاد کے احترام کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اپنی اس اہلیت پر سماج کے اعتماد کو بڑھاتا ہو کہ وہ حلوں کے وضع کرنے، مکمل کرنے اور جائزہ لینے کے قابل ہے، اور مقامی علم کو وسعت دینے اور منظم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ نتیجہ سکھلائی کا ایک منظم اور مربوط عمل ہے جو سماجی  کوششوں کے ایک وسیع ترحلقہ کا بتدریج احاطہ کرے گا۔

بالآخر،  نا انصافی کی اصل وجوہات کو شناخت کرنے کی قابلیت آبادیوں  کے لئے سماجی کایا پلٹ کے ایجنٹس بننے کے لئے انتہائی اہم ہو گی۔ ان فوائد سے قطع نظر جن سے کوئی آبادی لطف اندوز ہو تی ہو، اگر یہ سماجی نا انصافی اور  عدم مساوات کے  پھیلانے والی قوتوں کو جاننے کے  قابل  نہیں ہے تو یہ انہیں درست کرنے سے قاصر رہے گی۔ اگر امپاورمنٹ کو سماجی کایا پلٹ کی طرف رہنمائی کرنی ہے تو اس میں آدمی  کے سماجی حقیقت کی صورت گری کرنے والی قوتوں کو پہچاننے کی قابلیت کو استعمال کرنا،  اس حقیقت کی پیش کردہ للکاروں اور امکانات کی شناخت کرنا، اور معاشرے کی بہبود کے لئے اقدامات کی تشخیص کر نا شامل کرنا ہی ہو گا۔

بہت سارے سوالات باقی ہیں جن کا جواب دیاجانا ہے۔ ہم امپاورمنٹ کی ضمانت کیسے دے سکتے ہیں؟ ہم فرد، سماج، اور سماجی اداروں کی سطح پرامپاورمنٹ کو کیسے تصور میں لاسکتے ہیں؟ ہم اس بات کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ لوگوں اور سماجوں کو خود اپنی ترقی کے اہم کردار بننے میں مدد کرنا ’’ہمیں‘‘ اور ’’انکے‘‘   یا ’’ترقی یافتہ‘‘ اور ’’ترقی پذیر‘‘  کے خیالات کو تقویت نہیں پہنچا تا ہے؟  اس طرح کی کوششیں کس طرح انحصار پیدا کرنے کی بجائے تصور، اہلیت، اور ارادے کو مضبوط کرتی ہیں؟ سماجی کایا پلٹ کی طرف کسی ایسی چیز کی طرح  نہیں جسے ’’مراعت یافتہ‘‘ (لوگ یا ممالک) ’’غریبوں‘‘ کے فائدے کے لئے چلا تے ہوں بلکہ ایک آفاقی اور سانجھی مہم کے طور پر کیسےبڑھا جائے؟ ہم اس قوت کو کیسے اظہار بخش سکتے ہیں جو محبت، علم، یکجہتی، سچائی، اور حکمت سے آتی ہے؟ ہم  سماج کی تمام سطحوں پر انسانی تعلقات میں باہمی امپاورمنٹ کے لئے کوشش کیسے کر سکتے ہیں؟

ترجمہ: شمشیر علی

سورس: بہائی انٹرنیشل کمیونٹی(www.bic.org)
اس مضمون میں ظاہر کئے گئے خیالات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں۔ افکار تازہ یا کسی اور بہائی ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *