یوم اقوام متحدہ  پر دنیا نیلی کر دی گئی

اے دنیا کے بادشاہوں کے گروہ! متحد ہو جاؤ۔کیونکہ اس کے ذریعے تمہارے درمیان نااتفاقی کا طوفان تھم جائے گااور تمہاری قومیں سکون پائیں گی۔

(حضرت بہاءاللہ، گلیننگزفرام دی رائیٹنگزآف بہاءاللہ، صفحہ ۲۵۴)

اس ماہ ۲۴ تاریخ کوپوری دنیا میں نمایاں عمارات، پُل، مجسمے اور پہاڑ جادوئی انداز میں نیلے رنگ میں نہا گئے۔ نیلی روشنی میں منور وہ تاریخی مناظر ہمیں اس بات کی یاد دلاتے تھے کہ عالمی شہریوں کو امن، ترقی اور سب انسانوں کے حقوق کے لئے متحد ہونا ہی ہوگا۔

 کیوں؟ اس لئے کہ اُس روز یومِ اقوام متحدہ تھا جب ہر جگہ اقوام متحدہ کی ۷۰ویں سالگرہ منائی جارہی تھی:

’’قومی پرچم دنیا بھرکے ہرملک میں فخر اور حُب الوطنی کی ایک علامت ہے۔ لیکن صرف ایک پرچم ایسا ہے جو ہم سب کا ہے۔

جب میں زمانۂ جنگ کے کوریا میں پرورش پارہا تھا تو اقوام متحدہ کا وہ نیلا پرچم  میرے لئے امید کا نشان تھا۔

 اپنے قیام کی سات دہائیوں بعد، اقوام متحدہ اب بھی نوع بشر کے لئے چراغِ راہ ہے۔

اقوام متحدہ  ہر روز بھوکوں کو کھلاتا ہے اور اپنے گھر سے نکالے گئے لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اقوام متحدہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگاتا ہے جو بصورتِ دیگرقابل تحفظ بیماریوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ بلاتمیز کسی نسل، مذہب،قومیت ، صنف اورجنسی رُخ کے سب کے لئے انسانی حقوق کا دفاع کرتا ہے۔

ہمارے امن کے رکھوالے تنازعہ کے محاذ کے سامنے کھڑے ہیں؛ ہمارے ثالث جنگجوؤں کو امن کی میزپر لاتے ہیں؛ ہمارے امدادی کارکن زندگی بچانے والی مدد پہنچانے کے لئے جرأت کے ساتھ ناقابل اعتبار ماحول میں کام کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ سات بلین لوگوں پرمشتمل پورے انسانی گھرانے کے لئے کام کرتا ہے اور اس دھرتی کا خیال رکھتا ہے جو ہمارا ایک اورصرف ایک گھر ہے۔

اوریہ اقوام متحدہ کے متنوع اور قابل اسٹاف ہیں جو اس کے منشور میں جان ڈالنے میں مدد کرتے ہیں۔

۷۰ویں سالگرہ ان کی لگن کو تسلیم کرنے کا موقع ہے – اور ان بہت سوں کو تعظیم پیش کرنے کادن ہے جنہوں نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے آخری قربانی دے دی۔

دنیا کو بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے اور اجتماعی بین الاقوامی اقدام کے حدود دردناک طورپر واضح ہیں۔ تاہم آج کی للکاروں کا مقابلہ کوئی بھی  ملک یا ادارہ اکیلے نہیں کرسکتا۔

لازم ہے کہ اقوام متحدہ کے منشورکے ابدی اقدارہمارے راہنما رہیں۔ ہماری سانجھی ذمہ داری ’’ہم لوگوں‘‘ کی خدمت کے لئے ’’اپنی قوتوں کومتحد‘‘ کرنا ہے۔

اس سالگرہ کو منانے کے لئے، دنیابھر کے پہاڑ وں اور عمارتوں پریواین بلیوکاچراغاں کیا جارہاہے۔ جب ہم اس سنگ میل سالگرہ پر ایک چراغ روشن کریں تو آئیں ہم ایک بہتر اور روشن تر مستقبل کے لئے اپنے وعدے کی تجدید کریں۔ ‘‘

(بان کی مون، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل)

اقوام متحدہ اور اس کے رکن قومیں ہرسال اگست کے۲۴ویں روزکو یوم اقوام متحدہ کے طور پر مناتی ہیں۔ اس سال اقوام متحدہ کی ساتویں دہائی کے اختتام کودنیا بھر میں بہائیوں نے اقوام متحدہ کے مسلسل وجود(ongoing existence)کا جشن منایا اوراس کے قیام کے مقصد  یعنی عالمگیراتحاد کومزید ترقی دینے اوراس کے حصول کے لئے اپنا کام جاری رکھا۔  بہائی تعلیمات ہر ایک کو تاکیدکرتی ہیں کہ وہ ایک متحد دنیا کے آخری ہدف کے حصول کی  جدوجہد کرے:

’’حضرت بہاءاللہ کا تصور کردہ وحدت نسل انسانی کا مطلب ایک عالمی دولت مشترکہ کا قیام ہے جس میں سب قومیں، نسلیں،مذاہب اور طبقات قریبی اور مستقل طور پر متحدہوں اور جس میں اس کے  رُکن ممالک کی خودمختاری اور اُن افرادکی ذاتی آزادی اوراقدام کو قطعی اورمکمل طور پر تحفظ فراہم کی جائے جن سے ملکر وہ (ممالک) بنے ہیں۔‘‘

[حضرت شوقی آفندی، دی ولڈ آرڈر آف بہاءاللہ،صفحہ ۲۰۳

(منقول از کتاب ـاقوام کو دعوت فکر،دوسری اشاعت ۱۹۹۸، صفحہ۹۱ترجمہ نظر ثانی شدہ)]

وہ نیلا رنگ جواقوام متحدہ کے مشن کی علامت ہے، جو اس کے پرچم کا رنگ اور اس کے امن کے رکھوالوں کی ٹوپیوں کی زینت ہے اور ۲۴ اکتوبرکونیویارک میں اس کا آئیکونک ہیڈکوارٹرس جس رنگ میں منور کیاگیا تھا وہ اُس آسمان کی  علامت ہے جو ہم سب کاسانجھا ہے۔  یہ عظیم الشان نیلے اقوام متحدہ کی عمارتگگن کی نمائندگی کرتا ہے جو’’خدا کی (وہ) لامحدود نیلی چھتری‘‘ ہے جس نے دھرتی کو گھیررکھا ہے اور ہم سب  کو ایک ہی فضا میں نظردوڑانے اور ایک ہی ہوا میں سانس لینے کی اجازت دیتی ہے:

’’وحدت عالم انسانی کے اصول کا اعلان عام کیاجانا ،اسے سمجھاجانا اوراس پرعمل کیاجانالازم ہے، تاکہ تمام قوموں اور مذہبوں کو طویل عرصہ سے بھُولی ہوئی یہ حقیقت ایک بارپھر سے یاد آجائے کہ وہ سب بنیادی انسانیت یعنی آدم کی اولاد ہیں اورایک زمیں کے باشندے۔  کیا وہ سب ایک ہوا میں سانس نہیں لے رہے؟ کیا اُن پر ایک ہی سورج نہیں چمک رہا؟ کیا وہ ایک ہی ریوڑ کی بھیڑیں نہیں ؟ کیا خدا آفاقی چرواہا نہیں؟ کیا وہ سب پر مہربان نہیں؟

آؤ ہم مشرق و مغرب، شمال و جنوب۔ یورپین اور امریکن، انگلش اور جرمن،ایرانی اورفرانسیسی کے وہمی خیالات ترک کردیں۔

لامحدود کائنات کی تخلیق پر غور کرو۔ ہماری دھرتی چھوٹے سے چھوٹے سیاروں میں سے ایک ہے۔ وہ عظیم الشان اجسام جو سامنے ناقابل پیمائش خلا میں چکّرلگا رہے ہیں، خدا کی وہ نیلی چھتری، ہماری اس چھوٹی سی دھرتی سے کئی گُنا زیادہ بڑے ہیں۔ ہماری آنکھوں کو یہ کرۂ زمین کشادہ  دکھائی دیتی ہے؛ لیکن جب ہم اس پر ملکوتی آنکھوں سے نظرڈالتے ہیں تو یہ گھٹ کرخُرد ترین ایٹم ہوجاتی ہے۔ یہ سب سے چھوٹا  سیارہ تقسیم کے قابل نہیں۔ کیا یہ ایک گھر، ایک آبائی زمین نہیں؟ کیا پوری انسانیت ایک نسل نہیں؟

(حضرت عبدالبہاء ، ڈیوائن فلاسفی، صفحہ ۱۷۷ )

∞∞∞∞∞

 

تحریر: ڈیوڈ لیگنس، تصرف  وترجمہ: شمشیر علی

بشکریہ: بہائی ٹیچنگس

اس مضمون میں شامل خیالات ونظریات مضمون نگارکے ذاتی خیالات ونظریات ہیں۔ ان سے ’افکارتازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *