قیدی اور سلاطین ۔ قسط ۱

posted in: تاریخ | 0

قیدی اور سلاطین دور جدید کے عظیم ترین رازکی کہانی سناتی ہے۔ ۱۸۶۸تا۱۸۷۳ایک ترکی شہر زندان کی قید تنہائی سے ایک قیدی نے اس زمانے کے باشاہوں اورشہنشاہوں کے نام خطوط کا ایک سلسلہ تحریر کیا جنہوں نے حیرت ناک درصحت کے ساتھ تاریخ جدید کی راہ کی نشاندہی کی: قوموں کے زوال، بادشاہوں کی تنزلی، ریاست اسرائیل کا قیام اور جوہری آلودگی سب کا ذکر کیا۔ یہ قیدی حضرت بہأاللہ تھے جواس دوریا کسی بھی دورکے سب سے زیادہ نمایاں ہستی ہیں۔ اس مٹھی بھرحیت انگیز خطوط کے پیھے کیا راز تھا؟ اس قیدی کے علم کا منبع کیا تھا؟ اوریہ خطوط بیسویں صدی میں ہمارے مستقبل کے بارے میں کیا کہتے تھےَ؟ بہأاللہ ایک ایرانی نام ہے۔ یہ بہت ممکن ہے آپ کے ببچے اسے اپنے نام کی طرح ہی جانیں گے۔ یہ ہمارے وقت کی ایک اہم ترین کہانی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باب ۱

حصہ ۱۔ قاتل

قیصر ولیم اول کی وردی بذات خود ایک شان تھی۔  اس کی شاہی سواری  جب برلن کے درختوں کی قطاردار شاہراہ سے شان و تمکنت کے ساتھ گزر رہی تھی تو اس کی چمکدار خود ایک دوسرے آفتاب کی مانند چمک رہا تھا۔ بادشاہ دل ہی دل میں مسکرایا۔ کہاں تھا کوئی اورتاجدارجو اس کا مقابلہ کرسکتا؟ اس نے اپنے انتقام کی پیاس سے بڑھ کر فرانس کو ذلیل کیا تھا۔ وہ متحدہ جرمن ریاستوں پرایک شہنشاہ کے طور پر حکمرانی کرنے والا پہلا پروشیائی بادشاہ بن چکا تھا۔ جی ہاں، اس کے خوش ہونے کی وجہ موجود تھی۔ اچانک ہی  ایک بندوق کے دھماکے سے پُرسکون منظر میں کھلبلی مچ گئی!  ایک گولی قیصر کی آہنی ٹوپی کو چیرتے ہوئے اس میں داخل ہوگئی تھی اور وہ خطرناک طور پر زخمی حالت میں اپنی بگھی کی نشست پر پیچھے دھنس گیاتھا۔ بے اختیار  برلن کی سڑکوں  پر خوف کی لہر دوڑ گئی۔

’’قاتل! قاتل!‘‘

ولیم اول صحتیاب ہوگیا۔  تاہم جس گولی نے قریب قریب اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا، وہ  یورپ اور مشرق دونوں میں اس کے ساتھی فرمانرواؤں کے لئے آفت کی ایک علامت ثابت ہوئی۔ بعد والوں میں بیشتر ولیم جیسے خوش نصیب نہیں تھے۔

بہت دور رومانوی قسطنطنیہ میں ایک دوسرا بادشاہ  فخریہ اندازمیں تخت شاہی پر براجمان تھا۔ وہ بھی اپنے آپ سے خوش تھا اور موت کے اس جال سے بالکل بے خبرتھا جو سلاطین ارض کے گرد بُنا جارہا تھا۔

سلطان عبدالعزیز، وسیع و عریض سلطنت عثمانیہ کا حکمران تھا۔ اس نے خود کو جاسوسوں کی ایک حفاظتی نیٹ ورک سے گھیررکھا تھا۔ وہ ہر اُس  چیز کے بارے میں رپورٹ کیا کرتے تھے جس سے تخت وتاج کے خلاف مخالفت کی رتّی برابربھی شک ابھرتی تھی۔ تاہم سلطان کے دشمن بھی اتنے ہی باریک بین تھے۔ اچانک، بغیر کسی وارننگ کے، محل کی روشیں تیز قدموں کی چاپوں سےجاگ ااٹھیں

’’انقلاب!‘‘

بادشاہ کےچہرے کا رنگ فق پڑ گیا۔ مدد کے لئے عبدالعزیز کی چیخ و پکار راہداری میں گونج رہی تھی، کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔ چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ بغاوت کے قائدین نے اسے سخطی سے پکڑا اور اس کے اپنے ہی محل کے اندرقید کردیا۔ وہاں اسی انجام نے اسے جالیا جو دنیا کے بادشاہوں کا پیچھا کر رہا تھا ۔ ایک صبح سویرے’’قاتل‘‘ سامنے آیا۔ قسطنطنیہ کی سڑکوں پر خوف کی ایک لہردوڑگئی

‘‘!قاتل ’’

ایک تیسرا بادشاہ اسی انجام کے لئے نشان زد کیا جاچکا تھا۔ الکزنڈر دوّم نیکولاوِچ،  تمام روسوں کا زار، خود سے خوش نہیں تھا۔ وہ اپنی زندگی کو ہمیشہ خطروں میں گھرا دیکھتا تھا۔ اس کے دروازے کےباہرگارڈ گشت کررہے ہوتے تھے تاہم وہ بھی شک سے باہر نہیں تھے اورمسلسل تبدیل کئے جاتے رہتے تھے۔ کھانے کی ہرڈِش کوپہلے نوکرچکھا کرتے۔ ہررات زارکے سونے سے قبل شاہی خوابگاہ کی تلاشی لی جاتی تھی۔  بادشاہ کے خوف سے مغلوب رہنے کی کہانیاں اس کی رعایہ میں گردش کرتی رہتی تھی۔ الکزینڈر نے  سڑکوں پرکھلے بندوں گزرنے کے ذیعہ اس طرح کی نقصاندہ افواہوں کو رد کر نے کی کوشش کی۔ اپنے دل میں وہ اس قسم کے اسفار سے خوف کھاتا تھا اور ان دیکھے دشمن پر نظر رکھتے ہوئےمستقل طورپرچوکنارہتا تھا۔ آخروہ اٹل دن آہی گیا۔ مجمع میں ایک خوفناک حرکت ہوئی اور شاہی سواری کے راستے میں اچانک ایک بم پھٹا۔ گارڈز نے مفروضہ قاتل کوجکڑلیا،اورالکزینڈراس قیدی سے پوچھ گچھ کرنے کی خاطر اپنی سواری سے اترا۔ اس سے پہلے کہ وہ  اپنی حفاظت کر سکتا، قاتل کےساتھی نے ایک اور بم پھینک دیا جو زار کی قدموں میں پھٹا۔ حیران مجمع گھبراہٹ میں بھاگ گیا۔ جان لیوا طور پرزخمی الکزنڈردوّم کو محل تک پہنچایا گیا۔ سہ پہر سے پہلے ہی وہ گزرچکا تھا۔ سینٹ پیٹرزبرگ کے ایک کنارے سےدوسرےکنارے تک یہ خبردوڑگئی

‘‘!قاتل’’
ایک دوسرے براعظم میں،ایک چوتھا بادشاہ،اسی بھنورمیں پھنس چکا تھا۔ ناصرالدین شاہ، بادشاہِ ایران، اپنی عظیم جوبلی کے جشن کے موقع پرخوش خوش نمازاداکرنے گیا۔ شاہ نے اس عظیم جشن کے ہر مرحلہ کی منصوبہ بندی خود بڑےاحتیاط سے کی تھی۔ یہ جشن اس کے نام کو روشن کرنے کے لئے تھی اور تاریخ میں اس کی ابدی یادگارہوتی۔ اچانک، بغیروارننگ، جب باشاہ نمازپڑھ رہا تھا، مقدص روضہ میں ایک پستول چلنے کی آواز بازگشت کرنے لگی۔ تلاوت رُک گئی۔ برلن، سینٹ پیٹرس برگ اور قسطنطنیہ کا المیہ اب تہران میں دہرایا گیا تھا۔ ایک اوربادشاہ مردہ پڑا تھا۔ شاہی پارٹی کے درمیان خوف کی چیج نکل پڑی۔ قاصد اِدھر اُدھر بھاگے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ وزیراعظم جو شاہ کے ہمراہ تھا،واقعات کی غیرمتوقع موڑسے گھبرا گیا۔ ’’کم ازکم جب تک جشن ختم نہیں ہوجاتی،اس خبر کو چھپانا ہی ہوگا،‘‘ اس نے حکم دیا۔ ’’ کسی کو بھنک تک نہیں پڑنی چاہئے!‘‘ شاہ کے جسم کو خفیہ طورپراس کی سواری تک لے جایا گیا۔ وزیراعظم بادشاہ کی پشت پربیٹھ گیا۔ وہ مردہ وزن کو سہارہ دئے ہوئےتھا۔ اس نے شاہ کے جسم کو سیدھا پکڑ رکھا تھا۔ موت کی خاموشی میں منجمد، اپنے چاروں طرف کی رنگ رلیوں سے بے پرواہ  سب ایرانیوں کےبادشاہ کو اپنے عظیم جوبلی کے موقع پر اپنے محل تک واپس پہنچایا گیا۔

ایک چوتھا بادشاہم،ایک دوسرے براعظم میں ، اسی بھنور میں پھنس چکا تھا۔ ناصرالدین شاہ، بادشاہِ ایران، اپنی عظیم جوبلی کے جشن کے موقع پر خوشی خوشی نماز ادا کر نے گیا۔ شاہ نے اس عظیم جشن کے ہر مرحلہ کی منصوبہ بندی بڑےاحتیاط سے کی تھی۔  یہ جشن اس کے نام کو روشن کرنے کے لئے تھی اور تاریخ میں اس کی ابدی یادگارہوتی۔ اچانک، بغیر وارننگ، جب باشاہ نمازپڑھ رہا تھا، مقدص روضہ میں ایک پستول چلنے کی آواز بازگشت کرنے لگی۔ تلاوت رُک گئی۔ برلن، سینٹ پیٹرس برگ اور قسطنطنیہ کا المیہ اب تہران میں دہرایا گیا تھا۔ ایک اور بادشاہ مردہ پڑا تھا۔ شاہی پارٹی کے درمیان خوف کی چیج نکل پڑی۔ قاصد اِدھر اُدھر بھاگے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔   وزیر اعظم جو شاہ کے ہمراہ تھاواقعات کی غیر متوقع موڑ سے گھبرا گیا۔ ’’کم ازکم جب تک جشن ختم نہیں ہوجاتی، اس خبر کو چھپانا ہی ہوگا،‘‘ اس نے حکم دیا۔ ’’ کسی کو بھنک تک نہیں لگنی چاہئے!‘‘   شاہ کے جسم کو خفیہ طور پر اس کی سواری تک لے جایا گیا۔   وزیر اعظم  بادشاہ کی عقب میں بیٹھ گیا۔ وہ مردہ وزن کو سہارہ دیا ہوا تھا۔ اس نے شاہ کے جسم کو سیدھا پکڑ رکھا تھا۔ موت کی خاموشی میں منجمد،اپنے چاروں طرف کی رنگ رلیوں سے بے پرواہ سب ایرانیوں کےبادشاہ کو اپنے عظیم جوبلی کے موقع پر اپنے محل تک واپس پہنچایا گیا۔

جشن کے الاؤ آسمان کو روشن کر رہے تھے۔ ہرطرف جھنڈے لہرا رہے تھے۔
شہنائیاں بج رہی تھیں،  جھانجر کھنکھنا رہے تھے، مجمع تالیاں بجا رہا تھا؛ سب ناصرالدین شاہ کی طاقت اورشان وشوکت کا اعلان کر رہے تھے جس نے خود کو ’’شہنشاہ‘‘ قراردیا تھا۔ جوں جوں  گاڑی اپنے بےآوازپہیوں پرسڑکوں پر دوڑ تی جارہی تھی پُرمسرت جشن کا بینڈ زور زور سے   نغمات بکھیرتا جا رہا تھا۔ جوں ہی محل کے دروازے کے اندر ہوئے، شاہ کے دہشت زدہ وزیروں نے یہ خوفناک الفاظ پھیلادیا

’’!قاتل!قاتل‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: ویلیم سیئرز

ترجمہ:شمشیرعلی

اعلان: اس مضمون میں ظاہرکردہ خیالات کا تعلق مصنف سے ہے۔

کسی بھی بہائی ارادے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔