خدا کے وجود کو ثابت کرنا

posted in: روحانیت | 0

۔۔۔دھرتی کے تمام ذرّات اعلان کرتے ہیں کہ واحدویکتااور عزیزو ودودخداکے سواکوئی معبودنہیں۔‘‘

(حضرت بہاء اللہ،خطابات ربّ الجنود، صفحہ۲۶)

جب میری استدلال پسند، لااِدری(agnostic) دوست اور میں خداکے وجودکےبارے میں گفتگوکرتے تھے تووہ آخرمیں عموماً اس سوال پرگفتگوکوسمیٹاکرتی تھی: ’’لیکن آپ واقعی کیسے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ خدا موجودہے؟‘‘

’’ایک بینیڈکٹن راہب نے ہزارسال پہلے اسے ثابت کیا تھا‘‘ میں نے کہا۔ ’’وہ علم الوجود کاایک شاگرد تھا جوجوکچھ بھی موجودہے اوروجودرکھتاہے اس کاعلم ہے۔ دیکھیں اس نے کیا کہاہے۔‘‘

اَنسلم آف کینٹ بری
اَنسلم آف کینٹ بری
۱۰۷۸میں کینٹ بری کے اَنسلم نے اپنے ایک مضمون Proslogion  (خدا کے وجود کے بارے میں مکالمہ) میں سب سے پہلے خدا کے ہونے کے بارے میں یہ دلیل پیش کی:
  • انسان ایک وجود کے بارے میں سوچ سکتاہے ’’جس سے عظیم تر کوئی تصور میں نہ لایا جاسکے‘‘
  • یہ وجود نوع بشر کے ذہنوں میں موجودہے
  • اگربزرگ تریں امکانی وجود ذہن میں موجود ہے تولازم ہے کہ وہ حقیقت میں بھی موجودہو

ڈیکارٹ نے أنسلم کی مسحورکن اورکافی بلندتخیل اور وجودیاتی بحث کو یہ کہتے ہوئے وسعت بخشاکہ خداموجود ہے کیونکہ ہم ایک اعلیٰ ترین وجود کامل کےبارےمیں ایک ’’صاف اورنمایاں‘‘ تصوررکھتے ہیں۔

افسانوی اوربااثراسلامی فلسفی موسٰی سدرہ اپنے اہم فلسفیانہ کتاب ’’الاسفارالاربع‘‘ (چاراسفار) میں اسی قسم کی ایک دلیل پیش کرتاہے جسے اس نے ’’نیکوں کی دلیل‘‘کا نام دیا ہے:

  • ایک وجود موجودہے؛ اور ہم اس سے بڑھ کر کامل وجودکا تصور نہیں کرسکتے
  • تعریف کے لحاظسے خداکاملیت کاپتلاہے
  • وجودایک ہے یعنی کوئی مابعدالطبیعیات کثرت وجود موجودنہیں
  • وجود کی کاملیت کے درجات ہیں
  • کاملیت کے پیمانے کی ایک انتہائی حدکا ہونا لازم ہے یعنی بزرگ ترین شدت کاایک نقطہ
  • وہ بزرگ ترین شدت ہی اپنی تعریف کے لحاذسے خداہے
  • ایک وجودِ اعلیٰ کی موجودگی کے بارےمیں وہ تمام وجودیاتی دلائل عظمت اورکاملیت کے ایک لطیف نقطہ کے گرد گھومتے ہیں۔

ہم انسان ناقص مخلوق ہیں۔ ہم نے کائنات کو پیدانہیں کیا۔ اس  وسیع کائنات کی وسعت میں ہم تومحض ایک چھوٹے سےسیارے پر رہتے ہیں۔ ہم اُن تمام کتابوں،فلموں اور کھیلوں کے باوجود، جن میں وجودکی اس قدرخودمختار حالت کاخیال پیش کیا جاتا ہے،کوئی سُپرمین اورسُپرپاور نہیں ۔ہم نسبتاً کمزوراوربے اختیار افراد ہیں۔ وہ حقیقت ہماری تصریح کرتی ہے اور ہمارے لئے خالق کے تصورکوایک حدتک سمجھ پاناممکن بناتی ہےجوایک روح اعظم،ایک وجودِمطلَق ہے۔ بہائی تعلیمات بتاتی ہیں کہ زندگی کا یہ بنیادی دوہراپن یعنی کمزوری اورطاقت، انحصاراورآزادی،ضعف اورقوت وغیرہ وغیرہ یہ آشکار کرتا ہے کہ کاملیت کے پیمانے کی آخری حدکاایک نقطہ ہوتاہےجسے خدا کہا جاتاہے:

’’خداکی ہستی کےدلائل میں سے ایک دلیل اورثبوت یہ حقیقت ہے کہ انسان نے خود کوپیدا نہیں کیا، بلکہ اس کاپیداکرنےوالااوربنانے والااس کے علاوہ کوئی اورہے۔ یہ بھی صحیح اور ناقابل اعتراض ہے کہ انسان کا خالق خودانسان ہی جیسا نہیں،کیونکہ ایک ناتواں مخلوق دوسری ہستی پیدا نہیں کر سکتی۔ اورایک فعال خالق کے لئےلازم ہےکہ اپنی دستکاری پیداکرنے کی خاطر وہ سب انتہائی کامل صفات کامالک ہو۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ دستکاری تو کامل ہو اوردستکارعیب دار؟ کیایہ ہوسکتاہے کہ تصویر توایک شاہکارہو اوراس کا خالق ہونے کے باوجودمصوراپنے فن میں ناقص ہو؟ جی نہیں:تصویرتومصورجیسی نہیں ہوسکتی  ورنہ اُس نے خودکوبنالیاہوتا۔ تصویرخواہ کتنی ہی مکمل ہوتوبھی مصور کے مقابلے میں یہ بالکل نامکمل ہے۔

پس عارضی دنیا نقائص کی کان ہےاورخداکمال کا سرچشمہ۔ عارضی دنیا کے نقائص ہی خداکے کمالات کی گواہی دیتے ہیں۔ مثلاًجب تم انسان پر نظرڈالتےہوتو دیکھتے ہو کہ وہ کمزورہے اورمخلوق کی یہ کمزوری ہی اُس ذات کی قدرت پردلیل ہے جوابدی و قدیر ہے؛ کیونکہ اگرقدرت نہ ہوتی توکمزوری کے بارے میں سوچنا ہی محال تھا۔۔۔ قدرت کے بغیرکمزوری کا سوچاہی نہیں جاسکتاتھا۔ یہ کمزوری ظاہرکرتی ہے کہ دنیا میں ایک قدرت بھی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ یہ پوری عارضی دنیاایک ضابطہ اورایک قانون کے تحت ہے جس کی یہ ہرگزنافرمانی نہیں کرسکتی۔ حتیٰ کہ انسان بھی موت، نیند اور دوسرے حالات کی اطاعت پرمجبورہے یعنی بعض امورمیں وہ محکوم ہے اور یہ محکومیت ہی ایک حاکم کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔

جب تک اس عارضی دنیاکی ذاتی صفت تابعداری ہے،اورجب تک یہ تابعداری اس کے بنیادی لوازمات میں سے ایک ہے، ایک خودمختار کا ہونا لازم ہے جو اپنی اصلیت میں تمام چیزوں سے آزادہے۔

سبحان اللہ! چھوٹی سے چھوٹی چیزکے ظاہری حلیہ میں تبدیلی ایک خالق کی موجودگی ثابت کرتی ہے: توکیا اس وسیع، لاانتہا کائنات نےخودہی خودکوپیداکرلیاہےاورعناصرکے باہمی بین العمل سے جودمیں آگیاہے؟ ظاہرہےکہ ایسا قیاس کرناکتناغلط ہے!‘‘

[حضرت عبدالبہاء،مفاوضات (ابھی نظرثانی شدہ اشاعت)صفحات۶۷انگریزی]

 

∞∞∞∞∞

اس سلسے کا آئندہ مضمون: مخلوق بذات خود خالق کی ایک دلیل ہے
تحریر: ڈیوڈلیگنس، ترجمہ: شمشیرعلی
سورس: BahaiTeachings.org
اس مضمون میں شامل خیالات ونظریات لکھاری کے ذاتی خیالات ونظریات ہیں۔ ان سے ’افکارتازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *