۔۔۔یہ واضح ہےکہ نیچر(طبیعت) اپنےجوہرمیں خدا کے قبضۂ قدرت میں ہے،اور اُسی پائندہ اور قادرمطلق خدا نے نیچرکومثالی قوانین اورمنظم کرنے والے اصولوں کےطابع کررکھاہےاوراِس پرحاکم ہے۔
(حضرت عبدالبہاء، مفاوضات حضرت عبدالبہاء،صفحہ:۱۱نظرثانی شدہ ترجمہ)
اب سب سے بڑاقابل تصورسوال یہی اٹھتاہے کہ کیاخداہےبھی؟
بہائی تعلیمات جواب دیتی ہیں ’’ جی ہاں‘‘۔
لیکن وہ محض ہاں یا نامیں سادہ جا جواب نہیں دیتیں۔ بلکہ ایک پیداکرنے والے کے بارے میں اور خداپرایمان کے بارے میں تمام بہائی تحریروں میں پیش کردہ مرکزی بہائی عقیدہ استدلای، سائنسی اورفلسفیانہ وجوہات بھی بیان کرتا ہے۔مضامین کے اس سلسلے میں ہم اُن بنیادی بہائی عقائد پر ایک نظر ڈالیں گے،خداکے وجود یا عدم وجود کے بارے میں کثرت سے استعمال کئے جانے والےغیرمذہبی فلسفیانہ اورسائنسی تشریحوں کےساتھ ان کاموازنہ کریں گے، اورپھرآپ کوتشویق کریں گےکہ اپنےلئے خودکوئی نتیجہ اخذ کریں۔
مضامیں کےاس سلسلے کے لکھنےکاجذبہ مجھےمفاوضات نامی ایک شانداربہائی کتاب سے ملا۔ مفاوضات کوئی سوسال سے زیادہ عرصہ قبل لکھی گئی تھی۔ ایک امریکی بہائی لورا کلیفورڈ بارنی نےمذہبی عقائد، روحانیت، اخلاقیات اورسماجی مسائل پرخودکودرپیش گہرے سوالات کاایک سلسلہ حضرت عبدالبہاء سے پوچھاتھا۔ مفاواضات انہی سوالات کے جواب پرمبنی ہے۔ حضرت عبدالبہاء نے بذات خود اس کتاب کےلئےنوٹس پرنظرثانی کی۔ اس کےبعدمسزبارنی نےان تقاریرکواکٹھاکیااورپھر ترجمہ کرکے ۱۹۰۸میں شائع کروایا۔ مارچ ۲۰۱۵میں عالمی بہائی مرکزنےاس اہم کتاب کاایک ازسرنوترجمہ شائع کیا۔ امربہائی کے ولی حضرت شوقی آفندی اس کتاب کے بارے میں فرماتےہیں کہ اس(کتاب)میں ہم ’’اُن تمام پیچیدہ سوالات کےجواب کاسُراغ(پاسکتے ہیں)جوعلم حقیقی کی تلاش میں آدمی کے ذہن کوبے چین کرتے ہیں۔‘‘
مضامین کا یہ سلسلہ خداکےوجودکےبارے میں پیچیدہ سوالات کی تفتیش میں کچھ حدتک مفاوضات کے اسی نئے ترجمہ پرانحصارکرے گا۔
لیکن پہلے ایک اعلان بریت: بہائی،عقیدہ تبدیل کرانے (proselytizing) سےگریزکرتےہیں یعنی دوسروں کے نظریات تبدیل کرکے اپنی طرزسوچ کےمطابق کرنا یا دینی حقیقت کی کسی ایک تفسیر پر اصرارکرنا۔ خداپرآپ کا ایمان صرف آپ کی اپنی ملکیت ہے، اورکوئی بھی آپ پرنہ تویہ شرط لگاسکتاہے اورنہ ہی یہ مطالبہ کرسکتاہے کہ جس طرح وہ ایمان رکھتاہے آپ بھی رکھیں۔ بنیادی بہائی اصول آزادانہ تلاش حقیقت کامطلب ہے کہ آپ جس چیزکوسچاسمجھتے اس پر یقین رکھنے کاحق،ذمہ داری اورآزادی رکھتے ہیں۔ چونکہ امربہائی میں کوئی مولوی، پادری یاپروہیت یااسی قسم کا کوئی فرد نہیں ہوتاجوادیان کاماہرہونے کا دعویٰ کرے اس لئے ان صفحات پر ظاہرکئے گئے سب خیالات کی طرح ہی مضامین کے اس سلسلےمیں ظاہرکردہ خیالات اور تصورات بھی بہائی ظہورکی بےانتہاوسعت اورگہرائی کے بارے میں میری عاجزانہ اورمحدوسمجھ کے مطابق ہے۔ پس اگرآپ اعلیٰ ترین ہستی کے بارے میں اس مسحورکُن اوراہم ترین سوال میں دلچسپی رکھتےہیں توآپ مفاوضات(Some Answered Questions) کی ایک انگریزی میں نظرثانی شدہ ترجمہ ( www.bahaibookstore.com ) سے حاصل کرکےپڑھ سکتے ہیں۔ اردوترجمہ کے لئے رجوع کریں (bahai.pk)سے۔
اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے چلیں وحدانیتی خداپریقین کی تاریخ پرایک نظرڈالتے ہیں۔
انسان قدیم کانسی کے زمانےاورابتدائی لوہے کے زمانے غرض کہ تاریخ کے ہردورمیں ہی واحد خداپریقین رکھتاآیاہےیاکم ازکم یہی وہ پہلازمانہ ہے جس کےبارےمیں ہم جانتےہیں۔ ابتدائی طورپروحدانیتی عقائدوسیع طورپرالگ الگ مقامات اورتہذیبوں سے آئے مثلاًقدیم مصرمیں،ویدک بھارت میں ہندومت کی پہلی چند صدیوں میں اورابتدائی یونانی فلسفہ میں ابھرنے والے عقائدی نظام میں سے۔ خداکےواحدہونے پر وہ یقین جاری اورزندہ رہا۔ بیشترسائنسی رائےشماریوں اورآبادیانہ مطالعوں نے یہ نتیجہ اخذکیاہے کہ آج دھرتی پرلوگوں کی بہت بڑی اکثریت یعنی کم ازکم ہماری تین چوتھائی اب بھی وحدانیتی عقیدے پریقین رکھتی ہے۔
فلسفی اورمذہبی تاریخ دان یہ خیال کیاکرتے تھے کہ انسانی مذہبی عقائد نےمُظاہرپرستی سے کثرت پرستی اورپھروحدانیت پرستی تک بتدریج ارتقاء کیا ہے۔ لیکن موجودہ دورمیں دیسی عقائدی نظاموں کی ایک بہترسمجھ کے ذریعہ اوریہ ماننے کے ذریعے کہ بیشترادیان نے کم ازکم اپنی اصل شکلوں میں ایک وحدانیتی خالق کا تصورسکھایاہے اس نظریہ کے بیشترحصےکوڈھادیاگیاہے۔
دوسری طرف لامذہبیت کی تاریخ بہت زیادہ چھوٹی ہے۔ اگرچہ چند چھوٹے چھوٹے قبل ازتاریخ اورقبل ازخواندگی معاشروں کے بارے میں معلوم نہیں کہ آیا وہ خداکاکوئی تصوررکھتے تھے لیکن بہت بڑی تعداد کے معاملے میں ایسانہیں ہے۔ درحقیقت لامذہبیت کی اصطلاح سولھویں صدی سے قبل تک پیداہی نہیں ہوئی تھی اورسترہویں صدی کے اواخرسے پہلے یعنی صنعتی انقلاب کی شروعات تک وسیع پیمانے پر مستعمل نہیں تھی۔ لامذہبیت انیسویں صدی میں مشہورہوئی جب بعض فلسفیوں نے اس خیال کی اس وجہ سے تائید کی کہ ہماری پانچ حِسیں خداکے وجود کو ثابت نہیں کرسکتی تھیں۔ یہ خیال جسے تصدیقیت(verificationism) کہاجاتاہے بیسویں صدی کے اوائل میں پھیلا اورپھر اس وقت منتشرہونے لگاجب سائنس نے حتمی طور پر یہ ثابت کردیا کہ حِسیں کسی چیزکوجانچنے کےبہت زیادہ درست پیمانے نہیں ہیں۔ جوں جوں بتدریج تصدیقیت کا خیال مٹنے لگا مابعدالطبیعیات اورقدرتی الہیات میں نئی زندگی ابھرنے لگی۔
قدرتی الہیات خدائی وحی کوپکارےبغیرخداکے وجودکوثابت کرنے کی جستجوکرتی ہے۔ بہائیوں کےلئے جوسائنس اوردین کےاتفاق پریقین رکھتے ہیں اعلیٰ ترین ہستی کے بارے میں سوچنے کایہ منطقی طریقہ نمایان اہمیت رکھتاہے۔ درحقیقت مفاوضات میں حضرت عبدالبہاء نے اس طریقے کویہ کہتے ہوئےبہت زیادہ استعمال کیا ہے کہ ’’ہم یہاں جو دلائل اورمباحث پیش کرتے ہیں وہ روایتی نہیں بلکہ منطقی مباحث ہیں۔‘‘
مضامیں کےاس مختصرسلسلے،خداکے بارے میں چند سوالات کے جواب ،میں جوں جوں ہم ان عقلی،منطقی اورتجزیاتی دلائل کی سیرکرتے جائیں جو بہائی تعلیمات ایک پیارکرنے والے خالق کے موجودہونے کے بارے میں پیش کرتی ہیں بمہربانی ہماری ہمراہی کریں۔
Leave a Reply