خداکے وجود کے بارےمیں اخلاقی بحث

posted in: دین | 0

ایک دن میں نے اسٹورسے کچھ چیزیں خریدیں اورپانچ سو روپئے کے ایک نوٹ کے ذریعے ادائیگی کی۔ کیشیئرنے مجھے کچھ رقم واپس کیا اور میں نے جلدی میں گنے بغیر اسےاپنی جیب میں رکھ لیا۔ میں نے اس کاشکریہ اداکیا لیکن جب میں اپنی کار تک پہنچا تو مجھے احساس ہوا کہ اس نے بقایا کی صورت میں مجھے بہت زیادہ رقم دے دی ہے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس نے غلطی سے پانچ سوروپیوں کے نوٹ کی بجائے ہزارکانوٹ سمجھ لیا تھا۔

کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہواہے؟ آپ نے کیا کیا تھا؟

جب کبھی ایسا ہوتا ہے تو شایدہم سب ہی پہلےتواس غیرمتوقع مال غنیمت کو رکھ لینے کے بارے میں سوچتےہیں۔ لیکن پھر عموماًہماراباطنی اخلاقی احساس مداخلت کرتاہے اورہم خودسےسوال کرتےہیں ’’اگراس کیشیئرکو تھوڑی دیرمیں احساس ہوجائے کہ اس کے رجسٹر کےحساب سے اس کے پاس موجود رقم کم پڑ رہی ہے اور اسےاپنی جیب سے اسے پوری کرنی پڑے تو کیا ہو؟ اور اگراس کامالک اسپر چوری کا الزام لگائےتو؟ اگراس وجہ سے وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے تو؟‘‘

اس طرح کی صورتحال میں اس قسم کی باطنی اخلاقی سوچ تقریباً سب میں پیداہوتی ہے۔ فلاسفہ اورعلماء صدیوں سے یہ جانتے آئے ہیں کی دوسری مخلوقات کے برعکس نارمل لوگوں کی سرشت میں بظاہرایک احساس یا شعورموجودہے یا یوں کہیں کہ ایک باطنی اخلاقی سمت نما۔ وہ احساس اکثرہمیں خود اپنےبہترین مفادات کو نظراندازدینے کاعندیہ دیتا ہے اوربے غرضی سے اور اخلاقی طورپردوسروں کے مفادات کے لئے کام کرنے کی طرف پکارتاہے۔ صرف انسانوں کے لئے جوروحانی سرورمخصوص ہے اس کی وجہ سے بہت سے فلاسفہ نےیہ نتیجہ اخذکیاہےکہ ہمارے شعورکی حقیقت ایک عظیم تر اخلاقی قانون کی موجودگی ظاہر کرتی ہے اورلہٰذہ ایک بالاتر قانون سازکی طرف بھی۔

خداکی موجودگی کے لئےیہ خیال اور فلسفیانہ دلیل سب سے پہلےعظیم فلسفی ایمےنوئل کینٹ نےپیش کیااوراُس نے لکھاکہ انسانیت کاہدف غائی مکمل خوشی کا حصول ہے جو نیکیوں سےملتی ہے۔ کینٹ نے اسے امرمطلق، ایک اخلاقی

ایمی نوئل کینٹ
ایمے نوئل کینٹ

اورنیک زندگی کی خدمت میں ہماری استدلالی قوتوں کاآخری حکم قراردیا ہے۔اُس نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ چونکہ یہ اخلاقی شعور انسانوں میں عمومی طور پرموجودہے ایک بعد کی زندگی کا وجود بھی لازم ہے اورپس خدا کابھی موجود ہونا لازم ہے۔ کینٹ کی منطق کا راستہ کچھ یوں آگے بڑھتاہے:

  • انسان فطری اخلاقی میلانات رکھتے ہیں
  • اخلاقیات صرف اخلاقی اچھائی کےایک اعلیٰ تر منبع سے آسکتی ہے
  • پس خدا موجود ہے

کینٹ کی اخلاقی آفاقیت کا مساوات، انصاف اورانسانی حقوق سےمتعلق ہمارے جدیدانسان دوستی، سیاسی، سماجی اورقانونی تصورات پربڑاگہرااثرمرتب ہواہے۔ دوسرے فلاسفہ نے کینٹ کی استدلال کی پیروی اورتوسیع کی ہے یہ نتیجہ اخذکرتےہوئے کہ انسانی ضمیرکی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ معروضی اخلاقی سچائیاںموجودہیں اوریہ کہ اُن سچائیوں کا آخری منبع لازماً خداکو ہوناچاہیئے۔

کئی جدیدفلاسفہ نےاسی خیال کوکچھ مختلف اندازمیں پیش کیا ہےیعنی ہمارا ضمیراورہماری اخلاقیات ہمیں جوکچھ بھی کرنےپرمجبورکرتےہیں اس کاممکن ہونالازم ہے اورخوشی اوراخلاقی نیکی کی کامل اچھائی کا حصول صرف اسی وقت ممکن ہوتاہے جب ایک فطری اخلاقی نظام موجودہو۔

بہائی تعلیمات میں ایک اعلیٰ ترین ہستی کی موجودگی کے بارے میں بہت سی مختلف جگہوں پرآپ کویہ منطقی اخلاقی استدلال ملے گی۔ بہائی پیغام کا بڑادباؤیازوراس بات پرہے کہ حقیقت بنیادی طورپراپنی نوعیت میں روحانی ہے۔ یہ فرد کوایک روحانی وجود اورایک ’’منطقی روح‘‘ کے طورپردیکھتاہے جس میں پیدائشی، جبلی خداداد اخلاقی اور ذہنی استعدادموجودہے:

’’اگرہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ عظیم ترین انسانی پیشرفت مادی خوبیوں میں ہوئی ہے۔ تہذیب اس ترقی کی علامت اورشہادت ہے۔ مادی تہذیب پوری دنیا میں واقعی شانداربلندیوں اورمستعدی کے درجات تک پہنچ چکی ہےیعنی کہاجاسکتاہے کہ انسان کی بیرونی قوتیں اورخوبیاں بہت زیادہ ترقی کرچکی ہیں لیکن باطنی اور مثالی خوبیاں اسی تناسب سے  مؤخر اورنظراندارکی جاتی رہی ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں اب یہ ہمارے لئے سخت کوشش کرنے اورباطنی قوتوں کی پیشرفت اورترقی پرزور دینے کاوقت ہے۔ یعنی ہمیں عالم اخلاقیات کی خدمت کے لئے قیام کرنا ہی ہوگا،کیونکہ انسانی اخلاق ترتیب نو کی حاجتمند ہے۔ ہمیں عالم دانشوریت کی خدمت گزاری بھی کرناہی ہوگا تاکہ انسانوں نے اذہان قوی اورتیزفہم ہوسکیں،اپنی بالادستی حاصل کرنے میں انسانی دانش کی مددکریں تاکہ مثالی خوبیا ں ظاہرہو سکیں۔ اس سے قبل کہ اس سمت میں کوئی قدم اٹھائی جاتی ہے ہمیں عقل کے نقطہ نگاہ سے معبودکوثابت کرنا ہی ہوگا تاکہ استدلال پسندوں کے لئے کوئی شک یااعتراض باقی نہ رہ سکے۔ اس کے بعد ہمیں خدا کی سخاوت کو ثابت کرنا ہی ہوگا یعنی یہ کہ خدائی سخاوت نوع بشر کو گھیرے ہوئے ہےاور یہ ماورائی ہے۔ مزید برآں ہمیں دکھاناہی ہوگا کہ انسان کی روح لافانی ہے یعنی یہ کہ یہ انتشار ناپذیرہے، یہ کہ یہ نوع بشرکی خوبیوں پر محیط ہے۔

۔۔۔ لوگ معبود کے بارے میں باتیں کرتے ہیں لیکن خداکے بارے میں ان کے خیالات اور عقائد درحقیقت توہم پرستانہ ہیں۔ معبود شمس حقیقت کی درخشانی ہے، روحانی خوبیوں کامظہراورمثالی قوت۔ معبود کے عقلی شواہدکی اساس مشاہدہ اورفیصلہ کن استدلال پرمشتمل گواہی پرہے،منطقی طورپرحقیقت الٰہی کوثابت کرنے پر،کرم کی درخشانی پر، روح کے فیض اورلافانیت پر۔درحقیقت یہی الوہیت کاسائنس ہے۔ الوہیت وہ نہیں جوکلیساکے ضابطہ عقائداورخطبات میں پیش کئے جاتے ہیں۔ عام طورپرجب لفظ الوہیت کا ذکرکیاجاتاہے تو یہ  سامعین کے ذہنوں میں بعض فارمولوں اورعقائدکے ساتھ مربوط کیا جاتاہے ۔ حالانکہ بنیادی طورپر اس کامطلب حکمت خداکاعلم ہے، شمس حقیقت کی درخشانی،حقیقت اورخدائی فسلفہ کا اظہارہے۔‘‘

(حضرت عبدالبہاء، دی پروملگیشن آف یونیورسل پیس،صفحات ۳۲۵تا۳۲۶)

پس میں نے اس زائدبقایہ رقم کا کیاکیا؟ میں نے اپنے ضمیرکو ٹٹولا اور پھراسے اسٹور میں کیشیئرکو لوٹانے پہنچ گیا۔ اس نے میری طرف احسانمندنظروں سے دیکھا،اپنےکاؤنٹر سے باہرنکلی اورمجھےگلےسےلگالیا۔

∞∞∞∞∞

اس سلسے کا آئندہ مضمون: خداکے وجود کو ثابت کرنا

تحریر: ڈیوڈلیگنس، ترجمہ: شمشیرعلی

سورس: BahaiTeachings.org

اس مضمون میں شامل خیالات ونظریات لکھاری کے ذاتی خیالات ونظریات ہیں۔ ان سے ’افکارتازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *