ایران میں ایک بچے کی درخواست

(ایڈیٹرکا نوٹ: فرید کاشانی کاتحریر کردہ درج ذیل خط ایک ایرانی عدالت کے جج کودیا گیا۔ یہ عدالت اُس کی والدہ کی امربہائی میں شرکت کی وجہ سے ایک کیس کی شنوائی کر رہی تھی۔ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ جج نے بچے سے درخواست کی کہ وہ خود یہ خط پڑھ کرعدالت کو سنائے۔ یہ رپورٹ ہم نے واشنگٹن انٹرنیشنل سے نقل کر کے ترجمہ کیاہے اوراس کے لئے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔)

سلام! میرا نام فرید کاشانی ہے۔ میں ایک ۱۲سالہ لڑکا ہوں جو ایک بہائی گھرانے میں پیداہوا تھا۔

اپنی زندگی میں اب تک میں نے بہت سی چیزیں سیکھی ہیں۔ مثلاً مجھے ہمیشہ سچ بولنا چاہیئے، ہمیشہ ہر ایک پرمہربان رہناچاہیئے، ہمیشہ سب کا غم خوار رہنا چاہیئے۔ حتیٰ کہ ان لوگوں پربھی جومجھ پر ظلم ڈھائیں یا میرے بدخواہ ہوں۔ مجھےغلط طریقے سے کسی پر بھی یہ الزام نہیں لگانا چاہیئے کہ وہ مجھ پرظلم ڈھا رہا ہے، مجھے غیبت یا جھوٹی باتیں نہیں کرنی چاہیئے وغیرہ، وغیرہ۔۔۔Farid Kashani

تقریباً ڈھائی برس پہلے جب میں ۱۰برس کاتھا مجھے اپنی زندگی میں اپنے والد کے قرب سے محروم کردیا گیا کیونکہ وہ انہیں گرفتارکرنے آگئے اور انہیں (اپنے دین کی وجہ سے) قید میں ڈال دیا۔ انہیں ۵ سال کی سزاسُنائی گئی۔ میری والدہ سے ان کی شادی سے پہلے بھی (اسی وجہ سے) انہیں ۵ سال قید میں رکھا گیا تھا اور یہ دوسری بارہے۔ گزشتہ ڈھائی سال سے میری والدہ میرے اورمیرے تین بڑے بھائیوں کے لئے باپ اور ماں دونوں تھیں، لیکن اب انہیں بھی سزا ہونے والی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ  کیا وہ انہیں قید کردیں گے اور کتنے عرصہ کے لئے۔ اسی وجہ سے آج کل میں بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچ رہاہوں۔

میں آپ سے کچھ چیزوں کے بارے میں بات کرنا چاہتاہوں: انصاف سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ جولوگ اپنے ملک کے لئے صرف نیک خواہشات رکھتے ہیں اور اس کی بہتری کے لئے انتھک کام کرتے ہیں، اور جن کا واحد مقصد دوسروں سے مہربانی سے پیش آنا اور اُن کی مد کرنا ہے انہیں قید میں ڈال دیا جائے؟

میں سوچتا ہوں جب اُن کے دین یانسل یاجھوٹے الزامات یا زبردستی کی وجہ سے کسی فرد کو قید کیا جائے یا اس پر کوئی دباؤ ڈالا جائے توانصاف چکناچورہوجاتا ہے اورایک ردی کے کاغذ کی طرح  پھاڑکرپھینک دیا جاتا ہے۔

میں مانتا ہوں کہ  سب لوگ چیزوں کے بارے میں ایک ہی طرح سے نہیں سوچتے۔ اس لئےاس خیال کو اگر ایک طرف کر دیا جائے تو بھی ہم سب نسل انسانی کے ارکان ہیں: ’’ہم ایک درخت کے پھل اور ایک شاخ کے پَتّے ہیں۔‘‘

ہم [میراگھرانہ اورمیں] بہائی ہیں۔ اگر آپ لفظ ’’بہائی‘‘ کے بارے میں سوچیں تو دیکھیں گے کہ یہ لفظ بذات خود ایک مثبت معنی رکھتا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ : ’’اے دوست، اپنے دل کے باغ میں محبت کے گلاب کے علاوہ اورکچھ مت بو۔‘‘ ہمیں تعلیم دی جاتی ہے کہ: ’’سچ بولنا سب انسانی خوبیوں کی بنیاد ہے۔‘‘

کیا یہ تعلیمات غلط ہیں؟ کیا یہ تعلیمات اسلامی جمہوریہ ایران کے عقیدے کے خلاف ہے؟ کیا وہ ملک کے نظام اور دفاع کوپامال کرتی ہیں یا خطرے میں ڈالتی ہیں؟ زیادہ اہم یہ کہ کیا یہ ہمارے ملک کا رواج ہے کہ ہمیں اپنے اعتقادات یادین کی وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے؟ کیوں؟ کس لئے؟ ہم نے کونسا گناہ کیا ہے؟

میں اپنی ماں کی وجہ سے یہ باتیں نہیں کہہ رہاہوں۔ بلکہ اس کے بجائے اُس سب لوگوں کے لئے جنہیں ناانصافی  سےاوربے بنیاد طورپراُن کے عقیدے اوردین کی وجہ سے قید کیا گیا ہے۔

میری خواہش ہے کہ وہ تمام لوگ آزاد  کردیئے جائیں جنہیں صرف اپنے عقائد یا دین کی وجہ سے قید میں ڈالا گیا ہے ۔ میں اُن سب کے لئے دعا کرتا ہوں۔

فریدکاشانی

جولوگ  انصاف مانگنےکے لئےاس ۱۲ سالہ بچے کے خط کو متاثرہوئے بغیرپڑھ سکیں گے وہ انتہائی سنگ دل لوگ ہی ہوسکتے ہیں ۔ جبکہ اس کے والد توپہلے ہی قید میں ہیں اوروالدہ عدالت کے فیصلے کی منتظرہیں، اُسے دونوں والدین سے دوری کے خطرے کا سامنا ہے۔ بچے کا دل جانتاہے کہ یہ درست نہیں ہے، اس کے اندازخیال سے ظاہرہے کہ اُس کے والدین اُس کی اس طرح پرورش کررہے تھے کہ وہ سوچے، اور پیارکرے۔ اس سے قطع نظرکہ وہ کہاں پیدا ہوئے ہیں سوالات پوچھنا ہر بچے کی فطرت میں کندہ ہے۔ وہ ذہین اورمتجسس ہوتے ہیں اور بعض اوقات والدین کے لئے یہ بات للکار طلب ہوتی ہے کہ وہ جوابوں کو اس طرح تیار کریں  کہ بچہ دنیا کو جس طرح سے دیکھتا ہے اس کے لئے نقصاندہ   نہ ہو۔

تاہم ایران جیسے  کسی ملک میں جہاں بعض ادیان کی آزادی ممنوع ہے اورآدمی کا عقیدہ اگرریاست کا منظورکردہ نہ ہوتومنع ہے، وہاں والدین ایسا کیونکر کرسکتے ہیں۔ بہائی خداپریقین رکھتے ہیں اوروہ یہ اس حرکیاتی عمل پربھی یقین رکھتے ہیں جودنیا کو ایک مہذب روشن خیالی کی طرف لے جاتاہے۔

امربہائی ایک ایسا دین ہے جو یہ یقین رکھتاہے کہ نوع بشرکو درپیش انتہائی اہم ضرورت معاشرے کے مستقبل، اور زندگی کی فطرت و مقصد کے لئے ایک متحد کنندہ تصورکی تلاش  ہے۔

بہائی ایک بنیادی وحدت کا اعلان کرتے ہیں جو تمام بڑے بڑے ادیان کو ایک ہی لڑی میں پروتی ہے اوراپنے ابتدائی  منبع کی وحدت اوراپنے بنیادی عقائدکے ذریعہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔

آج کے پُرآشوب دورمیں اہم ترین قدروں میں سے ایک خداپریقین ہے، اس کے علاوہ کوئی چیز بھی نہ توہمیں قائم رکھ سکتی ہے نہ ہی امن لا سکتی ہے۔ ہم اپنی جائے پیدائش کے  کلچر اوراپنی نوجوانی کے اثرات کے سانچے  میں ڈھلےہوتےہیں، لیکن ہم اپنی زندگیوں کو کیسے بسر کرتے ہیں اس کا دارومداراس بات پرہوسکتا ہے کہ ہم دنیا کےکس مقام پر رہتے ہیں۔ میں خوش نصیب ہوں کہ میں ایک ایسی قوم میں پیدا کیا گیا ہوں جہاں دینی رواداری موجود ہے۔ میں یہ سمجھنا کیسے شروع کرسکتا ہوں کہ میرے عقائد کی وجہ سے ان لوگوں کی طرح قید کیاجانا یا اذیتوں سے گزارا جانا کیساہوتا ہوگا جومحض اتفاقاً یا یوں کہیں کہ محض قسمت کے چکرسے ایک غیرروادار ملک میں پیدا کئے گئے ہیں؟

ہم دنیا کے ہرکونے پرخدا کے بارے میں ایک مختلف تشریح دیکھتے ہیں، حتیٰ کہ انتہائی راسخ العقیدہ دین میں بھی  الگ الگ تصورات موجود ہیں۔ تاہم متشککین بھی اس حقیقت کو رد نہیں کرسکتے کہ ان تمام الگ الگ تصورات کے اندر بھی خدا کو جاننے کی ایک سخت اورکبھی نہ بجھنے والی پیاس موجودہے۔ خدا کی تلاش کی یہی پیاس تمام ادیان کے درمیان ایک متحد کنندہ قوت بن سکتی ہے۔ یہ قوت ہمیں اُس خوف سے دورہٹا سکتی ہے جو وہ بنیادہے جس پردینی امتیاز کھڑی  ہے،اورمحبت کی جانب بڑھا سکتی ہے جو خدا ہے۔

پس آدمی کاجوبھی عقیدہ ہے اگر وہ اس دنیا کی تمام اچھی اورمتبرک چیزوں کے لئے ایک قوت ہے تویہ باقی رہے گا اوراپنی ختم نہ ہوسکنے والی روشنی میں نوع بشرکی خدمت کرے گا۔ یہ روشنی بالکل اس شعلے کی روشنی کی طرح ہوگی جویہ لڑکا فرید کاشانی اپنے دل میں لئے پھر رہا ہے۔

∞∞∞∞∞

سورس: واشنگٹن انٹرنیشنل ڈاٹ کام
ترجمہ: شمشیرعلی
اس مضمون میں شامل خیالات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں۔ ان سے افکار تازہ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *