خداخندہ زن ، باب ۳(قسط ۱): دو پرانے پاپی

posted in: خود نوشت | 0

میں ڈاینوسار کے قدموں کے نشانات بناتا بناتا کچے راستے پر ننگے پاؤں نانا کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔  ڈاینوسار کے قدموں کے نشان بنانے کی ترکیب یہ تھی کہ میں دونوں پاؤں جوڑ کر پھدکتا پھدکتا چلتا تھا۔  نانا کے گھر میں کھلے پھاٹک سے داخل ہونے کے بجائے رینگتا ہوا باڑھ کے نیچے سے داخل ہوا۔  ظاہر ہے ڈاینوسار  چھوٹے سے پھاٹک سے بھلا کیسے گھس سکتا تھا؟

نانا اس وقت باڑے میں پھیپھڑوں کے بل پر گا رہے تھے:

                     بعد ازمرگ ملیں گے حور و قصور

نانا اپنے فربہ، بوڑھے گھوڑے ’شہزادہ‘ کی چمپی کر رہے تھے، مجھے دیکھتےہی انہوں نے مجھے گلے شہزادہسے لگایا اور اپنی مونچھیں میرے چہرے پر خوب رگڑیں، اس کے بعد مجھے ایک بکس کے اوپر بٹھا دیا۔

’’آپ نے کبھی خدا کو دیکھا ہے؟‘‘  میں نے سوال کیا۔

نانا نے کچھ سوچ کر جواب دیا، ’’تمہارا مطلب بالمشافہ گفتگو سے ہے؟‘‘

’’ہاں آمنے سامنے‘‘

نانا نے بوڑھے شہزادے کے جسم سے گرد جھاڑتے ہوئے کہا،’’خیر جناب! بات تو مضحکہ خیز لگتی ہے مگر خدا سے میری کئی بار گفتگو ہوچکی ہے لیکن یہ زیادہ تر یک طرفہ تھی۔‘‘

’’اس نے جواب نہیں دیا؟‘‘

نانا نے کہنی مارتے ہوئے گھوڑے کو ایک طرف ہونے کا اشارہ کیا اور وہ پچھلی ٹانگوں پر ناچتا ہوا ایک طرف ہو گیا۔  پھر نانا مجھ سے مخاطب ہوئے ، ’’نہیں باآواز بلند تو اس نے کبھی جواب نہیں دیا اور عموماًمیں نے جو کچھ چاہا تھا وہ بھی اس نے مجھے نہیں دیا۔  ویسے اس کی مصلحت مجھے بعد میں معلوم ہوئی۔  بیٹے، ہمارا مالک ایک بینکار کی طرح ہے۔ اس کا اصل کام یہی ہے کہ مجھ جیسے نا اہلوں کی قرض کی درخواستیں رد کرتا رہے۔‘‘

نانا پروٹسٹنٹ تھے، جب کہ ہم کیتھولک۔  خود نانا کا کہنا تھا کہ وہ فقط ایک متلاشی حق ہیں اور کچھ نہیں۔ میں نے ان سے اس کی وجہ معلوم کی۔

’’ ایسا لگتا ہے ہر شخص پہاڑی ندی سے سونا حاصل کرنا چاہتا ہے اور ان کے ہاتھ کیچڑ کے سوا کچھ نہیں لگتا، جبکہ میں اب تک پہاڑ میں اصل کان کی تلاش میں ہوں۔‘‘

’’مطلب؟‘‘

’’ایک نہ ایک دن تمہیں خودہی پتہ چل جائے گا۔‘‘

ابا سے شادی کے وقت ماں کیتھولک ہو گئی تھیں۔  میں نے سنا ہے کہ اس سلسلہ میں نانی بڑی برہم ہوئی تھیں جبکہ نانا نے اس بات کو کوئی اہمیت ہی نہ دی۔

انہوں نے ماں کو صرف اتنا کہا تھاکہ ’’اگر تمہاری چمڑی کے نیچے شفاف دل ہو تو مجھے یقین ہے مذہب کی دکانوں میں ادھر ادھر خریداری کرنے میں خدا کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی‘‘۔

ایک بار میں نے نانا سے پوچھا تھا کہ وہ اب تک تلاش میں کیوں ہیں، اس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر خودان کے والد ساری زندگی چرچ سے دور رہے تو خود ان کے لئے بھی یہ ایسی کوئی بری بات نہیں ہوگی۔  یہ بات مسز کیسی نے بھی سنی اور انتہائی غم و غصہ میں انہوں نے فرمایا کہ نانا کے لئے باغ عدن کے دروازےہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند رہیں گے۔

یہ بات میرے لئے بڑی پریشان کن تھی، اگر نانا ہی وہاں نہ ہوں تو جنت میں جانا میرے لئے بیکار تھا۔  مجھے معلوم تھا کہ اگر آپ اتوار کے دن چرچ نہ جائیں تو یہ گناہ کبیرہ ہے اور آپ اس کی پاداش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ کی آگ میں جلائے جائیں گے۔  نانا کی عمر ستر سے تجاوز کر چکی تھی ۔لہذا میرے حساب سے وہ اب تک تین ہزار سے زائد بار چرچ کا ناغہ کر چکے تھے۔  میں نے انہیں یہ بات بتلائی تو انہوں نے چھوٹا سا ایک قہقہہ لگایا اور کہنے لگے، جتنا گناہگار ہونا انسان کے بس میں ہے اتنا گناہگار وہ ہوچکے ہیں اور اب ان کے بچنے کی ایک ہی صورت ہے وہ اپنے بدترین گناہوں کی معافی مانگیں۔

میں ان کی باتیں سنتا سنتا باہر صحن ان کے پیچھے پیچھے چلاآیا۔

’’نانا آپ تو کافی بوڑھے ہوچکے ہیں اب تو میرے خیال میں آپ کو توبہ کرلینی چاہئے۔‘‘

انہوں نے درانتی کو پتھر سے ہٹایا اور پتھر پر مزید پانی ڈال کر دوبارہ درانتی کو دھار دینے لگے۔

’’بیٹا اب میں بہت بوڑھا ہو گیا ہوں اور میرے لئے اب یہ مناسب نہیں ہوگا کہ میں جاکر فادر ہوگن جیسے شریف نوجوان کو پریشان کروں۔‘‘

’’لیکن مسز کیسی تو کہتی ہیں توبہ کسی بھی عمر میں کی جاسکتی ہے‘‘، میں نے احتجاج کیا۔

نانا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوے کہا،’’ہاں مسز کیسی تو چاہتی ہیں کہ تمام گناہ ان کے باورچی خانہ میں دھوئے جائیں تاکہ وہ بھی اس نظارے کا لطف لے سکیں۔‘‘

نانا نے درانتی کی دھار اپنے انگوٹھے پر پرکھی اور سورج مکھی کے پودوں کے اطراف میں اُگی ہوئی جنگلی گھاس کاٹنے لگے۔ درانتی کے ہاتھ چلاتے چلاتے وہ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے،’’خیر بیٹا تم اپنے بوڑھےنانا کو اس کے سیاہ گناہگار دل کے ساتھ ہی قبر میں جانے دو‘‘،  پھر وہ جیسے کچھ سوچ کر مسکرائے اورکہنے لگے، ’’ویسے آپس کی بات ہے، میں شرط لگا سکتا ہوں کہ خدا اس مسز کیسی کی جانچ پڑتال کچھ زیادہ ہی تفصیل سے کرے گا۔‘‘

مسز کیسی سامنے والی گلی ہی میں رہتی تھیں اور گناہگاروں کی فکر انہیں گھلائے دیتی تھی۔  وہ اکثر اس امیدپر چرچ میں موم بتیاں جلایا کرتیں کہ شاید تمام گناہگار سدھر جائیں۔  نانا کی رائے یہ تھی کہ اگر مسز کیسی ہراس شخص کے لئے جسے وہ پاپی سمجھتی ہیں ایک موم بتی جلائیں تو ہمارا شہر رات کے وقت مینیپولیس سےبھی زیادہ جگمگاتا، جھلملاتا نظر آئےگا۔

یوں تو مسز کیسی تمام گناہگاروں کے لئے ہی پیام اجل تھیں پر پروٹسٹنٹ اور یہودیوں پر تو ان کی خاص نظر عنایت تھی۔ ان کے خیال میں اپنے کفر کی وجہ سے جہنم ہی ان کا ٹھکانہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہماری دوسری جماعت کی ٹیچر مس شوسٹر تبدیل ہو کر جانے لگیں تو میں اور ایلا بہت افسردہ ہوئے۔ ہم ان سے بہت محبت کرتے تھے اور جب ہمیں معلوم ہواکہ وہ یہودی نژاد پروٹسٹنٹ ہیں توہمیں یقین آگیا کہ ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

جس رات وہ بذریعہ بس ہمارے شہر سے جانے لگیں اس رات میں اور ایلا ان کے لئے تین موسمببیاں اور ایک پرانا رسالہ لے کر انہیں الوداع کہنے گئے۔ ہم اس قدر زار وقطار روئے کے ماں کو آخرہمیں وہاں سے گھر لانا پڑا۔  مس شوسٹر بھی اپنی جدائی میں ہمیں اس طرح افسردہ دیکھ کر بڑی متاثر ہوئیں۔

انتہائی محبت سے ہماری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہنے لگیں،’’بچوں تمہارے تحفوں کا بہت بہت شکریہ۔رسالہ میں سفر کے دوران بس میں پڑھوں گی۔‘‘

اب ایلا نے ہچکیاں لے لے کر رونا شروع کیا،’’اوہ! وہ رسالہ تو ہم نے بس میں پڑھنے کے لئے نہیں دیا۔ وہ تو جب آپ کافر ہونے کی پاداش میں دوزخ میں جائیں گی اس وقت پڑھنے کے لئے ہے۔‘‘

خدا کی ذات میں میری بیجا دلچسپی اس وقت اور بھی بے تحاشہ بڑھنے لگی جس وقت سے یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ وہ مجھ جیسے چھوٹے سے لڑکے کے پیچھے اپنا کتنا وقت صرف کرتا ہے۔

’’ولیم خدا تمہارا فلاں کام بالکل پسند نہیں کرے گا‘‘، ماں ہوشیار کرتیں۔’’بستر میں سیب مت کھاؤ ولیم‘‘، خدا دیکھ رہا ہے‘‘وغیرہ وغیرہ۔

یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کے خدا اپنے دوسرے کاموں کے لئے وقت کیسے نکالتا ہے۔ میں نے والد سے پوچھا،انہوں نے فادر ہوگن سے پوچھنے کو کہاکیوں کہ ان کی منطق یہ تھی کہ وہ آخر چرچ کا چندہ کس لئے دیتے ہیں؟ اب فادر ہوگن کو چاہئے کہ وہ اپنی روزی حلال کرے۔  مگر فادر ہوگن نے مجھے والد صاحب کی طرف لوٹا دیا۔کیونکہ ان کے خیال میں والد صاحب ایک شریف اور خوف خدا رکھنے والے شخض تھے۔ فادرہوگن جس بات سے لاعلم تھے وہ یہ تھی کہ والد محترم بذات خود خوف خدا سے متعلق ایک سوالیہ نشان تھے۔

ایک رات پھر میں نے بالکل وہی خواب دیکھا، لیکن اس بار میری عمر اتنی تھی کہ میں اس خواب کو واضح طور پر یاد رکھ سکوں۔ والد صاحب کا خیال تھا کہ یہ چار عدد اچار کے سینڈوچ اور ایک بوتل اسٹرابری پینے کا نتیجہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اس سلسلہ میں کوئی بات سننے سے ہی انکار کردیا۔ ماں نے کہا، ’’بیٹا تم نے جو کچھ دیکھا ہے اسے لکھ ڈالو اور مجھے سناؤ۔‘‘

کسی مشکل یا حساس مسئلہ پر گفتگو کر نے سے پہلے اماں اکثر ہمیں اپنے کمرے میں جاکر سب کچھ تفصیل سے لکھنے کو کہتیں تاکہ ہمارے ذہن میں خیالات واضح ہوجا ئیں اور اس طرح انہیں اپنا کام نمٹانے کے لئے چند گھنٹوں کی مہلت بھی مل جاتی تھی۔ کبھی کبھی وہ کہتیں،’’پورے واقعہ کو نظم کی شکل میں لکھ کر لاؤ تا کہ جب مجھے سنانے لگو تو سننے میں خوب بھلا لگے‘‘۔

ماں ہم بچوں کو والد سے بہتر سمجھتی تھیں۔ والد صاحب کو الوّ بناکر اپنا کام نکالنا آسان تھا۔ ضرورت صرف اس بات کی تھی کہ ان کے صبر کے پیمانے کے لبریز ہو نے کا انتظار کیا جائے۔ اس وقت وہ گرج کر کہتے ،’’ٹھیک ہے، جان چھوڑو!‘‘۔ ماں ہماری چال پہلے ہی سے سمجھ لیتی تھیں اور اتنے پیار سے ’نہیں‘ کہتیں کہ ہمیں سپر انداز ہونا ہی پڑتا۔

لیکن اس واقعہ سے تقریباً دو سال پہلے ماں پر میرے اندھے یقین میں کچھ کمی واقع ہوگئی تھی۔ ہوا یوں کہ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ان کے سر کے پیچھے کی طرف بھی آنکھیں ہیں اور میں ان کی اس بات پر یقین بھی کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ میں جتنی خاموشی سے ہی کیوں نہ باورچی خانہ میں داخل ہوں، ماں جو میری طرف پیٹھ کئے برتن دھورہی ہوتی تھیں، فوراً بول اٹھتیں ’’ولیم،مٹھائی کے مرتبان کوہاتھ مت لگانا!‘‘ یا و ہ سلائی کی مشین پر جھکی ہوئی ہیں اور مشین ایک ہنگامے کے ساتھ چل رہی ہے اور اس دوران میں ایڑیوں  کے بل چلتا ہواگھر سے باہر نکلنے لگوں تب وہ اندر کے کمرے سے آواز دیتیں، ’’بیٹا! ہوم ورک ختم کرنےسے پہلے باہر مت جانا‘‘۔لہذا یہ بات طے شدہ تھی کہ واقعی ان کی کھوپڑی کے پیچھے بھی دو آنکھیں ہیں۔ ایک دن میں نے مکمل اطمینان کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس دن جب وہ دوپہر کو سو رہی تھیں میں نے چپکے سے جاکر ان کے سر کے پچھلے حصے سے بال کاٹ لئے۔ وہاں تو کوئی آنکھ نہیں تھی! لیکن جو آنکھیں ان کی سامنے کی طرف تھیں ان سے انہوں نے مجھے قینچی اور اپنے بال لئے کھڑے دیکھا۔

’’یہ بچہ نارمل نہیں ہے‘‘،انہوں نے والد سے شکایت کی۔

’’راز افشا کرنے کا شکریہ‘‘ انہوں نے طنزیہ جواب دیا۔

آخرکار میں نے پورا خواب لکھا اور ماں کو سنایا۔ میرے شروع کرنے سے پہلے ہی والداٹھ کر کمرے سے باہر تشریف لے گئے۔ آج تک میرے پاس وہ بچکانہ خط میں لکھی ہوئی دستاویز محفوظ ہے جس میں میں نے اس حسین نورانی پیکر کا ذکر کیا ہے،جو میرے لئے ناقابل بیان خوشی اور سکون لے کر خواب میں آیاتھا۔

’’وہ کون تھا ماں؟‘‘

’’شاید تمہاراکوئی دوست۔ تم نے اصل میں اسے دیکھا ہے یاکہ تمہارا خیال تھا کہ تم نے اسے دیکھا ہے؟‘‘

’’میں نے اسے دیکھا ہے!‘‘

’’تم جاگ رہے تھے یا سورہے تھے؟‘‘

’’سورہاتھا۔ورنہ  تومیں خودہی ان سے پوچھ لیتا کہ وہ کون ہیں۔‘‘

’’ان کی صورت کیسی تھی؟‘‘

’’وہ بہت حسین، نورانی اورمہربان تھے اور انہوں نے انگلی کے اشارے سے مجھے  اپنے پاس بلایاتھا۔‘‘

’’اور انہوں نے تم سے کچھ کہا تھا؟‘‘

’’ہاں!میں انتظارکررہاہوں، مجھے تلاش کرو، پطرس کی طرح بنو! مچھلیاں پکڑو!‘‘

(باقی آئندہ)

∞∞∞∞∞

آئندہ: خداخندہ زن،باب ۳ (قسط ۲): گناہ کبیرہ

تحریر: ولیم سیئرس؛ ترجمہ: محمودالحق، ڈھاکہ، بنگلادیش

 مترجم سے رابطہ :<haq.mahmudul2015@gmail.com>

اس مضمون میں ظاہر کردہ خیالات لکھاری کے ذاتی خیالات ہیں۔ ان سے ’افکارِ تازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *