خداخندہ زن،باب۵: کتاب حکمت اور طفل نادان

posted in: خود نوشت | 0

میں نے نانا کی نصیحت پر عمل کیا اورانجیل مقدس کا مطالعہ شروع کردیا۔ تجربے نے مجھ پر   ثابت کردیا کہ ایک نوعمر لڑکے کے لئے یہ ایک بہت   مشکل کام ہے۔ اور جب میں بائبل چھوڑ کر ’چالاک جاسوس نک کارٹر ‘شروع کرنے ہی والا تھا کہ مجھے پتہ چلا کہ لوگوں کو عام طور پر بائبل پڑھنے سے روکا جاتا ہے کیونکہ اس کوسمجھنا صرف پہنچے ہوئے بزرگوں کےہی بس کی بات ہے۔ بس پھرکیا تھا میں نے  اُسی لمحےبائبل کو کسی طرح بھی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں صفحات پر صرف ایک  اچٹتی نگاہ ڈالتا اور صفحہ پلٹتا رہتا  کہ کہیں مجھے خوابوں کے نورانی بزرگ  کا تذکرہ مل جائے۔ والد صاحب کوجب خبرملی کہ میں عہد نامہ عتیق اورجدید دونوں پڑھ رہا ہوں تو وہ گھبراگئے۔

’’اس لڑکے کے لئے میں نے طرح طرح کے خواب دیکھے ہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ مذہبی جنونی بن جائے۔ کم ازکم  عاقل ہونے سے پہلے نہیں،‘‘ انہوں نے ماں سے کہا۔

والدصاحب جب بھی مجھے بائبل پڑھتے دیکھتے، وہ مجھ سے بائبل چھین لیتے۔انہوں نے گھر میں موجود بائبل کے دونوں نسخے چھُپادیئے۔اس وجہ سے مجھے سیپ ہیڈفلپس سے اُن کا بائبل مانگنا پڑا۔ انہیں اپنے کباڑ خانے میں اُس بائبل کوڈھونڈنے میں بڑی دقت پیش آئی۔ اُن کے دادا جان مرحوم کے بعد کسی کو اسکی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی۔

میں نے رات کو بسترپر بائبل پڑھنا شروع کیا۔

والد صاحب کسی طور اس پر راضی نہ تھے۔ ان کا کہناتھاکہ رات کا وقت خدانے بچوں کےسونے کے لئے بنایاہے۔ میں بہ آوازبلند کہتا ’’جی ابا‘‘ اوردل ہی دل میں کہتا’’آپ مجھے پڑھتے ہوئے پکڑ لیں تواوربات ہےورنہ میں آج رات فرعون اوراس کے رتھوں کوبحیرہ احمرمیں ڈبوکر ہی چھوڑونگا‘‘۔ یہیں سے میرے اور والد صاحب کے درمیان عظیم الشان مذہبی مناقشہ شروع ہوا۔میرا خیال ہے اگر سب نے خدا کو اس قدر پُراسرارنہ بنا دیا ہوتاتو شائد میں کبھی انجیل کی باب پیدائش سے آگے نہ بڑھ پاتا۔ لیکن والد صاحب  اس قدر سختی سے مصرتھے کہ میں بائبل  پڑھنا چھوڑدوں کہ مجھے یقین ہو گیاضرور اس میں کوئی اچھی بات لکھی ہوگی۔

وہ میرے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہتے ’اب سونے کا وقت ہوگیا ہے بیٹے‘ اور ہاتھ بڑھا کر بتی بجھا دیتے اور میں اندھیرے میں ہارون اور سونے کے بچھڑے کے ساتھ  رہ جاتا۔ قدرتی بات ہے میرے لئے یہ صورتحال قابل قبول نہ تھی۔ میں پنجوں کے بل بستر سے نکلتا اوردل ہی دل میں کہتا ’پڑھنے کا وقت اباجان‘ اور بتی جلادیتا۔بعد ازاں والدصاحب اپنے کمرے سے سر نکال کر میرے دروازے کے تالے کے سوراخ سے  روشنی آتی دیکھتے اور اپنی سیٹیوں سے دہلادینے والی جہازکے ہارن کی سی آوازلگاتے ’’ولیم‘‘ اور میں ایک ہی جست میں بستر سے نکل کربتی بند کرتا اور واپس بستر پر پہنچ جاتا ’’ابا آپ نے مجھے پکارا؟‘‘

یقیناًً انہوں نے مجھے پکارا تھا اور بہت کچھ کہہ کر پکارا تھا۔ اُس وقت سے میں نے دروازے کے اوپر کمبل ڈالنا شروع کردیا تاکہ چابی کے سوراخ یا دوسری دڑاڑوں سے روشنی باہر نہ جا سکے۔ اس طرح میں نے چارا شاندار ’بن باپ‘ کی راتیں گزاریں۔ ان راتوں میں میں سیدھا نوح اور ان کی کشتی تک جا پہنچا۔  نوح کی کشتی بس کوہ ارارات پر لگا چاہتی تھی  اور اس کے تختیوں کے چٹخنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ یہ  چٹخنے کی آواز باہربرآمدے سےآرہی ہے۔ والد صاحب ایڑیوں کے بل راہداری پار کرکے میرے کمرے کی طرف آرہے تھے۔

مجھے پتہ اس طرح چلا کہ میں نے برآمدے کے فرش پرلگے ہوئے تختوں میں سے ایک کو ڈھیلا کردیا تھا اور والد صاحب کا پاؤں اسی تختے پر پڑا تھا اور چٹخنے کی آواز کا منبع وہیں تھا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور اس آواز نے جادو کا سا کام کیا۔میں گولی کی طرح بستر سے نکلا، کمبل کو دروازے سے ہٹایا، بتی بجھائی اور زائیں سے پھر بستر میں۔پلک جھپکتے ہی یہ سارے مراحل طے ہوگئے۔

والد صاحب نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور انتہائی نرمی سے پکارا ’’ولیم‘‘۔ جواب ندارد۔ انہوں نے دروازہ بند کردیا اور ’پدرانہ‘انداز میں بڑبڑاتے ہوئے واپس ہولئے۔

دوسرے دن میں نے اپنی ریاضی کی کتاب کی جلد اکھاڑی اور اس میں بائبل کو گھسادیا۔ذرا سے زبردستی کرنی پڑی بس، ورنہ حجم دونوں کا تقریباً ایک ہی تھا۔اُس رات جب والد صاحب میرے کمرے میں آئے تو مجھے ریاضی کی کتاب لئے بیٹھے دیکھا جس پر انہیں انتہائی خوشگوار تعجب ہوا۔ انہوں نے مجھے مزید آدھ گھنٹے بتی جلائے رکھنے کی اجازت دے دی۔ ان کا خیال تھا اس طرح میری زندگی میں ایک نیا باب کھلا تھا۔ حقیقتاً ہوا بھی ایسا ہی تھا۔اس رات میں نے ایک نیاباب جو بخت نصرکے بارے میں ہے شروع کیا تھا۔ چند راتوں کے بعد والدصاحب شک میں پڑ گئے کیونکہ اس سے پہلے اسکول کا کام میں نے کبھی اس قدر دل جمعی سے نہیں کیا تھا۔

’’تم  حساب  کے سوال لکھتے کیوں نہیں بیٹے؟‘‘

’’نہیں میں انہیں دل ہی دل میں حل کر لیتا ہوں۔‘‘

اس وقت مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ مجھے تاریخ کی کتاب  کی جلد استعمال کرنی چاہیئے تھی۔ والد صاحب کو پتہ تھا کہ میرا دل  حساب میں بالکل ہی نہیں لگتا۔ وہ بستر کے قریب آگئے۔

’’مجے ریاضی میں تمہاری مدد کرنے دو‘‘ انہوں نے پیش کش کی۔

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے میری ٹانگیں میرے جسم نے الگ کر دی ہوں، میں بالکل بے جان ہو گیا۔ کتاب میں نے کسی طرح بستر کے اندر گھسا دی اور تقریباً چلاتے ہوئے بولا، ’’ نہیں ابا یہ سوال مجھے خود ہی حل کرنے دیجیئے‘‘۔

والد صاحب کو مجھ سے آنکھیں چار کرنے کے لئے بڑی کوشش کرنی پڑی کیونکہ میں ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ ان کی طرف نہ دیکھوں۔جب آنکھیں چار ہوئیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اُن کی نظر سیدھی  میری آنکھوں سے ہوتے ہوئے ، سر سے گزر کر، تکیوں کو چیر کرریاضی کی کتاب کی جلد کے اندر ’دانیال کے شیروں کے کچھار‘ میں دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے اس وقت تو مجھے کچھ نہیں کہا پر ’تمہیں اس کا جلد ہی حساب دینا ہوگا‘ والی  سرد برفیلی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے واپس  اپنے کمرے میں چلے گئے۔

دوسری صبح جب میں  غسل خانہ سے نکلا اس وقت تک میری حسابی بائبل تکئے کی پناگاہ سے غائب ہوچکی تھی۔میں نے دل ہی دل میں کہا ’   کاش میں یہ نہ جانتا کہ یہ کام کس نے کیا ہے‘۔ پر جب میں ناشتہ کرنے بیٹھا تو میں نے دیکھا والد صاحب وہی کتاب پڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کتاب نیچی کی ، میری آنکھوں میں جھانکا اور میراناشتہ غارت کردیا۔

’’حساب کے نصاب میں ہمارے زمانے کے مقابلہ میں کافی تبدیلیاں آگئی ہیں‘‘۔

’’ سچ‘‘؟ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔دل نے کہا شائد ایسا ہی ہوا ہو۔اور میں جو دہشت زدہ ہوں کہ کسی بھی لمحہ آسمان پھٹ پڑے گا وہ شائد میرا وہم ہے۔لیکن آسمان پھٹ ہی پڑا!

’’طویل تقسیم کا یہ مسئلہ ہی لے لو‘‘ انہوں نے کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’یہیں ایزیکیل میں ، باب ۳۸، آیات ۲۱اور۲۲‘‘ وہ بآواز بلند پڑھنے لگے ’’ہرشخص کی تلوار اس کے بھائی کے خلاف اٹھے گی۔۔۔خون اور وبائیں میں ان پر برساؤں گا، بڑے بڑے اولے، آگ اور شعلے‘‘ والد صاحب نے آنکھ اٹھا کر پوچھا ’’کچھ زیادہ ہی خون آشام تو نہیں ہوگیا؟‘‘

’’اوہ یہ تو کچھ بھی نہیں !‘‘ میں نے جوش میں آکر کہا، اگلے باب پر آئیے ،’’ انہیں صرف مردے دفن کرنے ہی میں سات ماہ لگ گئے تھے۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں۔۔۔‘‘

میں نے والد صاحب کی طرف دیکھا اور زندگی میں مجھے کوئی دلچسپی باقی نہ رہی۔ انہوں نے کہا، ’’جرم ایسا تو نہیں کہ استراتیز کرنے والے بیلٹ کی ضرورت ہو، پر سزا کی ضرورت ضرور ہے۔‘‘ انہوں نے اس بارے میں میری رائے طلب کی۔ میں نے کہا کہ بہتر یہی ہوگا کہ ہم سب کچھ بھول کر نئے سرے سے شروع کریں۔وہ راضی ہو گئے۔

پر انہوں نے مجھے سزا دینے کے غرض سے کچھ کام انجام دینے کو کہا مثلاً ہفتہ بھر کے لئے لکڑیاں کاٹنا،کباڑ خانہ صاف کرنا، گیراج کی صفائی، تمام کھڑکیا ں دھونا اور چھت  صاف کرنا۔

’’میری معلومات کے مطابق تمہاری جو رفتار ہے، یہ کام تمہیں ایک ماہ کے لئے مصروف  رکھنےکو کافی ہیں۔‘‘

لیکن مجھے دوسرے ہی دن بیس بال کھیلنا تھا۔ اس لئے میں نے یہ سارے کام ایک دوپہر میں ہی نمٹا دیئے۔والد صاحب دنگ رہ گئے۔انہوں نے ماں سے کہا، ’’اس لڑکے نے آخر کچھ سیکھ ہی لیا۔‘‘  حقیقتاًمیں نے کچھ سیکھاتھا۔یہ سبق میں نے تہ خانہ صاف کرتے ہوئے سیکھاتھا۔ جو میں نے سیکھا تھا وہ یہ تھا کہ میں ایک لمبے تار میں بلب  کا ساکٹ لگا کرتہ خانہ سےاپنے کمرے تک کے جا سکتا ہوں۔اس کا مطلب یہ تھا  کہ جب والد صاحب میرے کمرے کی بتی بجھا دیں تب  میں ہنگامی بتی جلاکر پڑھ سکتاتھا ۔ اس بتی کے دریافت کر لئے جانے کے بارے میں میں کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا۔اس لئے میں نے تار کو پائپ کے ساتھ ساتھ بالکل اپنےبستر تک لے لیا۔ ماں بھی سوچ رہی تھیں کہ شائد میں  سدھر ہی گیا ہوں۔میں نے انہیں والد کو کہتے سنا، ’’بڑی خوشگوار تبدیلی آگئی ہے۔ ولیم روزانہ اپنا بستر خود ہی ٹھیک کرنے لگا ہے۔‘‘روز رات میں اپنے بستر پرچادر کا ایک خیمہ تیار کرلیتا اور بلب کو بالکل چادر اور کمبل کے اندر لے لیتا۔ اس خیمہ کے اندر اب میں دل بھر کے پڑھ سکتا تھا۔والد صاحب اگراب کمرے کے اندر بھی آجاتے تب بھی روشنی نہیں دیکھ سکتے تھے۔اور وہ روز ہی کمرے کے اندر آیا کرتے تھے۔ اس طرح میں نے ناہوم کا سارا باب اور ’آخری دنوں‘ کے بارے میں ساری پیش گوئیاں پڑھ ڈالیں۔   جن میں آجکل کی کاروں کی طرح تیز رفتار گاڑیوں کا ذکر تھا جن میں ہیڈلائٹیں ہوں گی اوران کی آمد و رفت ایسی ہوگی کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہوگا۔ بالکل جس طرح بینڈ والے دن بڑی سڑک پر ہوتا تھا۔ یہ سب کچھ انتہائی سنسنی خیز اور دل دہلا دینے والا تھا۔

ایک رات میں نے عہد نامہ جدید کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔اور پہلے الفاظ جن پر میری نظر پڑی وہ یہ تھے، ’’اور اُس کا چہرہ سورج کی طرح روشن  اور نور کی طرح سفید۔۔۔‘‘

’’یہی تو میرا نورانی شخص ہے!‘‘ میں ایک نعرہ کے ساتھ اپنے خیمہ میں  کھڑا ہوگیا۔ اس عمل میں بجلی کی تار کو ایسا جھٹکا لگا کہ وہ ٹوٹ گیا اور شارٹ سرکٹ نے  گھر کی تمام بتیاں اُڑا دیں۔میں نے جلدی جلدی تار کو چھپا دیا اور نیچے اتر کر والد صاحب کی مددکو پہنچا جو اب تک اس اچنبھے میں تھے کہ آخر ہوا کیا ؟  میرے لئے آئندہ رات تک کے لئے انتظار کر نا مشکل ہو رہا تھا کہ کب میں دوبارہ   پڑھنا شروع کروں  گا۔

اگلی رات میں نے ایک ایک لفظ پر غورکیا۔ جتنا میں پڑھتاگیا اتنا ہی میرا  یقین بڑھتا گیا کہ جن کو میں  خواب میں دیکھا کرتا تھا وہ حضرت مسیح ؑتھے۔  وہ یسوع ؑتھے۔ وہ واپس آگئے ہیں اور کہیں میرا انتظار کر رہے ہیں۔جب میں نے  یہ پڑھا تو میرا اندازہ ایمان میں بدل گیا :

 ’’میں جارہا ہوں پر پھر واپس آؤں گا‘‘

’’تم ابن انسان کو باپ کے جلال میں آتا دیکھو گے‘‘

’’جب وہ روح حقیقت آئے گا تب وہ تمام  سچائیوں کی  جانب تمہاری رہنمائی کرے گا۔‘‘

بچو! یہی اس معاملے کا راز ہے۔

میں سمجھ گیاکہ اگر میں روح حقیقت سے رابطہ قائم کرلوں تو وہ مجھے میرے خواب کی تعبیر بتا سکے گا۔ دوسری ہی صبح میں نے والد صاحب سے پوچھا، ’’روح حقیقت سے کہاں ملاقات ہو سکتی ہے‘‘؟

انہوں نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے کہا، ’’ کچھ عرصہ  میرا خیال تھا کہ روزویلٹ کے یہاں یا ٹافٹ کے پاس، لیکن اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ سارے سیاستدان دریائے مسی سیپی کے کناروں کی طرح تیڑھے ہیں۔لہٰذا حقیقت اگر ان میں سے کسی کے پاس ہے تو وہ  ’وڈرو ولسن‘ ہی ہو سکتا ہے۔‘‘

’’میرا اشارہ بائبل والی روح حقیقت کی طرف تھا‘‘ میں نے وضاحت کی۔

’’ایتھل تم نے مجھے پکارا؟‘‘  والد صاحب اپنی پلیٹ پرصحیح و سالم دو انڈے چھوڑ کر اٹھ گئے۔ یہ انڈے میں نے کھا لئے۔

میں نے انتہائی امن و سکون سے اپنے خیمہ میں مطالعہ جاری رکھا۔ یہ سلسلہ  ایک ہفتہ چلا۔ میں نے بائبل میں اپنے نورانی شخص کی تلاش جاری رکھی۔ پھر اُس عظیم دھماکے والی رات آئی۔ پیر کا دن تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کیونکہ اُس  دن مس پوپن برگ نے کلاس کے بعد تختہ سیاہ پر دوسو بار ’’ آئندہ کبھی اپنی جیبوں میں زندہ مینڈک لے کر اسکول نہیں آؤ ں گا‘‘ لکھوایا تھا۔

میں نے اُسی وقت داؤد اور جالوت کا قصہ شروع کیا تھا۔ کانٹے کا مقابلہ تھا، زبر دست کے ساتھ میری ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ والد صاحب کب خاموشی سے  کمرے میں داخل ہوئے اور میرے بستر کے قریب آکر کھڑے ہوگئے  مجھے خبر ہی نہیں ہوئی۔عموماً جیسے ہی وہ برآمدے  کے ڈھیلے تختہ پر قدم رکھتے ، میں تختہ کے چرچرانے کی آوازسُن کر بتی بجھا دیتا پر اس بار انہوں نے ایک انتہائی  غیر منصفانہ کام کیا۔ وہ یہ کہ انہوں نے اُس تختہ کو دوبارہ ٹھونک دیاتھا۔ اس وجہ سے مجھے خبر تک نہ ہوئی اور وہ  خاموشی سے میرے کمرے میں داخل ہوگئے۔

حضرت داؤد ؑ  کا وار کہیں خالی نہ جائے اس بارے میں اتنا فکر مند تھا کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا  کب والد صاحب  پلنگ پر میرے سرہانے آکر کھڑے ہوگئے۔ دراصل انہوں نے میرے کمرے میں جھانک کر دیکھا تھا اور کمبل کے نیچے پراسرارجگمگاہٹ نے انہیں متفکر کر دیا تھا۔میں نے لا پرواہی برتی تھی۔والد صاحب نے آہستہ سے کمبل کا ایک کونا اٹھا کر اندر جھانکا۔ داؤدؑ بس جالوت پر وار کرنے ہی والے تھے۔ قدرتی بات ہے کہ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ چہرہ اباکا بھی ہو سکتا ہے۔میں نے سوچا بھی نہ کہ اس وقت  کمبل کے اندروہ مجھے دیکھ رہے ہوں گے۔لہٰذاجب انہوں نے کہا ’’اچھا؟‘‘اس وقت بھی میں ان کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ اُن کی آنکھیں ایسی غضب ناک ہورہی تھیں کہ میں ان کو ہی جالوت سمجھ بیٹھا۔میں نے کتاب ہوا میں اچھالی اورساتھ ہی ساتھ خوف و دہشت سے چلّا اٹھا اور داؤدؑ کی طرح رسّہ گھما کراس پر بندھا ہو پتھر جالوت کو دے مارا۔  تار کے سرے پر لگا ہوا ساٹھ پاور کا بلب والد صاب کی آنکھوں کے درمیان جا کرلگا۔

ایک زبردست  دھماکہ ہوا اور والد صاحب ایک چیخ کے ساتھ مجھ پر حملہ آور ہوئے لیکن اس کوشش میں وہ چادر اور کمبلوں سمیت فرش پر آرہے۔

جائے واردات پر سب سے پہلے ایلا پہنچی۔ وہ دھماکے کی آواز سن کر ہی دوڑی چلی آئی تھی اور اب وہ جنونیوں کی طرح ایک دوسرے کے قریب ناچ رہے تھے۔

’’مارڈالا، مار ڈالا! ابا نے ولیم کو گولی مار کے ہلاک کردیا۔‘‘

ماں دوڑتی ہوئی کمرے میں  داخل ہوئیں اور انہوں نے کمرے کی بتی جلائی اور مجھے  ایک کونے میں دیوارسے لگے  خوف سے تھر تھر کانپتے دیکھا۔ والد صاحب اس وقت تک چادروں اور کمبلوں سے نبرد آزما تھے۔ اس کے بعد کے چند لمحات بڑے درد آزما تھے۔ خصوصاً جب ماں نے انہیں چادروں اور کمبلوں سے نکالا اور وہ گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے میری طرف بڑھے۔انہوں نے مجھ پر انہیں جان بوجھ کر اندھا کرنے کا الزام لگایا۔

میں سمجھا تھا آپ جالوت ہیں‘‘

ان کی آنکھیں دیو مالائی ایک آنکھ کے دیو جیسی لگ رہی تھیں۔ ماں نے بہ ہزاردقت انہیں ٹھنڈا کیااور وہ ایلا کی مدد سے اباجان کے بالوں اور بھنووں سے  کانچ کے ذرات چُننے لگیں۔

’’میں صرف بائبل میں ہے کیا وہی جاننا چاہتا تھا‘‘ میں نے ماں کو اپنی حمایت میں کھڑا کرنے کے ارادے سے انہیں ہی مخاطب کرکےکہا۔

’’تو جاؤ فادر ہوگن سے پوچھو‘‘ ابا دھاڑے ’’میں اسی لئے توچرچ کا چندہ دیتا ہوں۔ اُسے حلال کی روزی کمانے دو۔‘‘

’’ایک نہ ایک دن میں ساری دنیا گھوموں گااورلوگوں کو خدا کے بارے میں بتاؤں گا اس لئے اگر میں ابھی سے نہ پڑھوں تو یہ کام کیسے کرسکوں گا۔‘‘

’’اس کے لئے دن کے وقت پڑھا کرو بیٹے‘‘ ماں نے انتہائی پیار سے مشورہ دیا۔ ’’اس طرح تمہاری صحت بھی بنی رہے گی اوربجلی کا بل بھی کم آئے گا۔‘‘

ابا نے ماں سے کہا کہ اگر میں وعدہ کروں کہ صبح ہوتےہی میں اس سفر پر نکل کھڑا ہوں گا تو وہ میرے دنیا کے گرد سفر کا خرچ اسی وقت دینے کوتیار تھے۔ اس کے بعد انہوں نے میرے سینے پر صلیب کا نشان بنوا کرمجھ سے میری آن کا وعدہ لیاکہ میں جب تک میں اُن کی چھت کے زیر سایہ ہوں، اُن کا دیا کھاتا ہوں اور اُن کا بیٹا کہلانا چاہتا ہوں میں کبھی بھی بستر میں جانے کے بعدپڑھنے کے لئے بتی نہیں جلاؤں گا۔ورنہ وہ مجھ سے میرا نیا فٹبال چھین لیں گے۔میں نے ان کی شرائط قبول کرلیں۔

ایلا کو اس سے بڑی مایوسی ہوئی۔ اس  کا خیال تھا کہ ابا مجھے گولی مار دیں گے۔

میرے کمرے سے نکلتے نکلتے ابا نے مزید دو بار مجھ سے وعدہ لیا اور پھرمیرے وعدوں پر اظہار اعتماد کے طورپرانہوں نے بجلی کا تار کھولنا شروع کیا اور تہہ خانے میں سوئچ بورڈ تک کھولتے چلے گئے جہاں انہوں نے سوئچ نکالی اور بورڈ پر بڑا سا تالالگا دیا۔میرے کمرے کی بتی اورباورچی خانہ کی بتی کاتعلق ایک ہی فیوزسے تھا۔ لہٰذارات کوجب ان کی دوستوں کی ٹولی تاش کھیلنے اور سینڈوچ کھانے  کے لئے وارد ہوئی تواباکو پھر تہہ خانے میں جانا پڑا لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ  انہوں نے چابی کھو ڈالی تھی اس لئےسیپ ہیڈ فلپس کے ہاں سے آری عاریتاً لانی پڑی اور تالا کاٹنا پڑا۔یہ کاٹنے کی آواز انتہائی کرخت اورجسم میں کچکچاہٹ پیدا کرنے والی تھی۔کم ازکم اوروں کا یہی خیال تھا۔مجھے کچھ ہوش نہیں  کیونکہ میں بسترپر جانے کے بعدپڑھنے کے لئے بجلی استعمال نہ کرنے کے سلسلہ میں کیا ہوا وعدہ بنھانے میں مصروف تھا۔اس لئے میں نے آری کی آواز نہیں سنی۔میں چادر کے اندر والد صاحب کی ٹارچ لئے بائبل میں اپنے خوابوں کے نورانی پیکر کےبارے میں پڑھ رہا تھا۔

∞∞∞∞∞

آئندہ: خداخندہ زن،باب۶:لُوٹنے والوچلو۔۔۔

تحریر: ولیم سیئرس؛ ترجمہ: محمودالحق، ڈھاکہ، بنگلادیش

اس مضمون میں ظاہر کردہ خیالات ونظریات مصنف کے ذاتی خیالات  ونظریات ہیں۔ ان سے ’افکارِ تازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *