خدا خندہ زن، باب ۴: بعد از مرگ ملیں گے حور و قصور

posted in: خود نوشت | 2

دوسری صبح جب میں ناشتہ کر کے اٹھنے لگاتو والد صاحب نے  مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا: ’’کہاں چلے؟‘‘             ’’نانا کے یہاں‘‘۔’’اطمینان سے گھر بیٹھیں، آج آپ کہیں تشریف نہیں لے جارہے‘‘ ،انہوں نے بڑی کرختگی سے جواب دیا۔

 ’’لیکن نانا نے کہا تھا وہ بھیڑیں لائیں گے اورمجھے بچھڑوں کو گود میں لینے دیں گے!‘‘

’’کوئی ضرورت نہیں جانے کی، یہ میرا حتمی فیصلہ ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’کیوں؟ اس لئے کہ میں کہہ رہا ہوں۔‘‘

نانا سےمیری اُس پورے ہفتے  ملاقات نہیں ہوئی۔ لیکن ا س کے لئے  میں ہی ذمہ دار تھا۔ آخر ابا،اماں کو اس گفتگو کے بارے میں بتانے کی کیا ضرورت تھی جوسیلاب  زدگان کی مددکرکے آتے ہوئے  میرے اور نانا کے درمیان ہوئی تھی۔ہوا یہ تھا کہ واپسی پر راستے میں میں  نے سات چرچ گنے تھے اور نانا سے پوچھ بیٹھا تھا کہ آخرخدا ہر اتوار کو بیک وقت اتنے سارے چرچز میں کیسے آتا ہے۔

’’بالکل سیدھی سی بات ہے کہ خدا ہوا کی طرح ہے اوروہ ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود رہ سکتا ہے۔تم یہاں بگھی میں بیٹھے اسے سانس کے ذریعے اپنے جسم میں داخل کر رہے ہواور بگھی کے پیچھے دوڑتے ہوئے کتے اسے سانس کے ذرعے اپنے جسم سے نکال رہے ہیں۔‘‘

’’نانا کیا خدا کسی چرچ کودوسرے سے زیادہ پیار کرتا ہے اور زیادہ دیر تک وہاں رہتاہے؟‘‘

نانانے کچھ دیر سوچا پھر کہنے لگے، ’’میں نہیں سمجھتا کہ خدا کو کسی کی طرفداری کی پڑی ہے۔دیکھو بیٹے ہمارے تمہارے لئے ان پھولوں کے رنگ مختلف ہیں لیکن خدا کی نظر میں یہ سب پھول ہیں اورجب تک یہ ٹھیک طرح سے بڑھتے اور خوبصورت ہوتے رہیں وہ ان معاملات میں اپنی ٹانگ نہیں اڑائے گا نہ ہی شکایت کرے گایا نہ کسی کے خلاف کسی کی حمایت۔ خدا عظیم ہے ۔ یہ تو اس کی مخلوق ہے جو اسے چھوٹا بنانا چاہتی ہے۔‘‘

میں نے نانا کا یہ خیال بھی انہیں بتایا کہ خدا بہت ہی مہربان اور پیار کرنے والا ہے اور جب تک وہ خداسے اور اس کی مخلوق سے محبت کرے ،خداکو اس بات کی ذرابھی پرواہ نہیں کہ کوئی شخص کس چرچ میں جاتا ہے۔

والد صاحب کی آنکھیں سرد ہوگئیں، ’’تمہارے نانا آخرکس خدا کی باتیں تمہیں بتا تے ہیں!‘‘

’’وہ چرچ کے خدا کی طرح  دورافتادہ اوربھیانک  نہیں ہے‘‘ میں نے سمجھایا۔ ’’میں نے نانا کو خدا سے باتیں کرتے بھی کئی  بار دیکھا ہے۔ صبح سویرے جب نانا باہر آتے ہیں تو وہ خداسے مخاطب ہوکرکہتے ہیں ’صبح بخیر! ساری رات آپ نے میرے گھوڑوں کی دیکھ بھال کی اس پر میں آپ کا شکر گزارہوں جناب! اب آپ قیلولہ کرنا چاہیں تو ضرور کریں۔ باقی سارے دن ان کی دیکھ بھال کرنا میری ذمہ داری ہے۔‘ ‘‘

اُس رات مجھے بغیرکھانے کے اپنے کمرے میں بھیج دیا گیا۔ والد صاحب کا خیال تھا کہ نانا مجھ پر غلط اثرات مرتب کر رہے تھے  ۔اسی وجہ سے ایک ہفتے کے لئے  اُن سے ملنے پر پابندی  عائدکردی گئی۔ شام کے وقت جب سب مصروف ہوتے تب میں اپنی خوابگاہ کی کھڑکی سے نکل کر شیڈ کی چھت پر رینگتا ہوامیپل  کے درخت کے ذریعے نیچے اترتا۔ ماں نے مجھ سے دعدہ لےلیا تھا کہ میں نانا سے نہیں ملوں گا نہ ہی ان سے باتیں کروں گالیکن انہوں نے اس بارے میں توکچھ نہیں کہا تھا کہ میں نانا کے باڑے کے آس پاس تک بھی نہیں جا سکتا اور انہیں دیکھ بھی نہیں سکتا۔ میں باڑ کے اس طرف کھڑا نانا کوگھوڑوں کو پانی پلاتے دیکھتا۔ جب وہ بوڑھے شہزادے کو لےکر جاتے تو وہ مجھ سے اتنا قریب ہوتا کہ میں اسے چھو سکتاتھا۔ شہزادہ  ہنہناتا اور اپنی تھوتھنی میری طرف بڑھا دیتا۔ نانا کی آنکھیں مجھ سے چار ہوتیں مگر نانا جھٹکے سے شہزادے کو اپنی طرف کھینچ لیتے۔

’’چلو، آگے بڑھو‘‘ وہ شہزادے کو حکم دیتے، ’’جاکر پانی پیو۔ گھاس کی اِن  گٹھیوں کے پیچھے کوئی نہیں ہے۔‘‘

اس طرح مجھے پتہ چلا کہ میری طرح ناناکے لئے بھی مجھ سے باتیں نہ کرنے کے احکامات تھے۔ گھوڑے جب اچھی طرح سیراب ہو جاتے تو نانا انہیں دوبارہ اصطبل میں لے جاتے اور میں مسّی سیپی کے پُل کے نیچے بیٹھا دیر تک دریا کی لہریں دیکھتا رہتا۔ حتیٰ کہ سورج غروب ہو جاتا۔ میری نظروں کے سامنے سے سوانس کارخانے کے لئے کاٹے ہوئےدرخت دریا میں بہتے ہوئے جاتے۔ میں تصور کی آنکھوں سے ان کٹے ہوئے درختوں کو بڑے بڑے جہازوں کی روپ میں دیکھتا۔ نانا ان میں سب سے بڑے جہاز کے کپتان ہوتے اور میں ان کا فرسٹ مین۔ ہم ایک خفیہ خزانے کی تلاش میں نیو اورلینز کی طرف رواں دواں ہوتے۔ سورج ایک عظیم الشان چمکتے ہوئے کدّد کی طرح ہو جاتا اور اپنی سرخی سے دریا کو بالکل اورنج جوس بنا دیتا۔

میں نے پل پربگھی کی آواز سُنی۔ یہ یقیناً نانا اور شہزادہ تھے۔ میں نے ماں سے کیا ہوا وعدہ بنھایا اوران کے آنے سے پہلے ہی سرک کرپُل کے نیچے چھُپ گیا۔ نانا نے اپنی بگھی ٹھیک میرے اوپر روکی۔

’’کوئی ہے؟‘‘  وہ پکارے۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ’’ چچ چچ، چلو شہزادے‘‘ اور پھر میں نے بگھی کے چلے جانے کی کھڑکھڑاہٹ سُنی۔

دوسری صبح میں نانا کی بگھی کی آوازسُن  کردوڑتا ہواکھڑکی پر گیا۔ میں نے انہیں اپنی طرف ہاتھ ہلاتے دیکھ کر خود بھی ہاتھ ہلا دیا۔ وہ بھورے رنگ کے گھوڑوں کی ایک  نئی جوڑی پر سوار تھے اور ظاہر تھاکہ مجھے دکھانا چاہتے تھے  کہ وہ کتنے خوبصورت ہیں۔اُس رات میں نے ماں سے کاغذ پنسل لے کرنانا کو خط لکھنے کا ارادہ کیا۔کچھ سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کیا لکھوں۔ خیر میں نے لکھنا شروع  کیا، ’’پیارے نانا کاش میں آپ کے گھر جاکر کھیل سکتا۔۔۔۔۔‘‘

اتنا لکھ کر ہی میں سو گیا ۔ ماں جب  میرابسترٹھیک کرنے آئیں تو میری آنکھ کھلی اور میں نے انہیں اپنا خط پڑھتے دیکھا۔ اُن کے آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں سوتا بنا رہا۔ ماں بلا وجہ  دیر تک بستر ٹھیک کرتی رہیں۔ انہوں نے بہت زور سے مجھے بھینچا اور پیار کیا۔ جاتے وقت وہ میرا خط اپنے ساتھ لے گئیں۔ ان کے جاتے ہی میں چھلانگ لگا کر بستر سے اترااوراپنی آنکھیں روشندان پر لگادیں۔  میں نے انہیں اپنا خط والد کو دیتے ہوئے دیکھا۔ وہ ٹیلیفون کی طرف گئے ،میں نے انہیں نمبرگھماتے دیکھا، مجھے پتہ تھا کہ وہ نانا کوہی فون کر رہے ہیں۔ میں بستر پر لوٹ آیا۔ مجھ میں اب ذرا بھی دیر کھڑے رہنے کی سکت نہیں رہی تھی اور میں بستر پر لیٹتے ہی سوگیا۔

دوسری صبح ماں نے مجھے مطلع کیا کہ اب  میں دوبارہ نانا کے یہاں جا سکتا ہوں۔   کسی نے نانا کو بھی بتا دیا تھا کہ وہ بھی مجھ سے مل سکتے ہیں کیونکہ جیسے ہی میں صدر دروازے سے نکلا تو دیکھا کہ نانا  اپنی بگھی میں شہزادہ اور ملکۂ حُسن  دونوں کو جوتے ہماری طرف آرہے  ہیں۔ ان کے قدموں سے ایسا لگتا تھا جیسے بگولے اُٹھ رہے ہوں۔

’’اوہو!‘‘ نانا نے ضرورت سے  کچھ زیادہ ہی زور سے نعرہ لگایا اور میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے، ’’مجھے ٹمارک کے دلدل کے پاس ایک بیمارگھوڑی کو دیکھنے جانا ہے، تمہیں فرصت ہو تو چلو۔‘‘

’’میرا خیال ہے کہ جایا جا سکتا ہے‘‘ میں نے کہا۔

میں بگھی پر چڑھ گیا اور نانا نے لگام مجھے تھما دی۔

’’چلو شہزادے، چلوملکہ‘‘ میں نے ہانک لگائی۔

نانا نے میرے گھٹنوں پر ہاتھ مارا، اپنی مونچھوں  سے میرا چہرا اچھی طرح رگڑا اور پھر قہقہے لگانے لگے۔

’’ بیٹے ایسا ہے کہ ہم دونوں خدا کے بارے میں جتنا چاہیں باتیں کرسکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ چرچ کوان معاملات سے باہر رکھا جائے۔‘‘

پُرانا، متروک شولائن ریلوے اسٹیشن پار ہوجانے کے بعد نانا نے  دوبارہ کہنا شروع کیا، ’’میرے خیال میں بہتر ہوگا کہ ’کتاب حکمت‘ تم خود ہی پڑھو۔ دیکھو تمہاری عقل میں کیا آتا ہے‘‘ انہوں نے مجھے بھینچ لیا۔ ’’لیکن سوال کرنا بند مت کرنا، سُنا تم نے؟ورنہ تمہارا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوگا‘‘۔

نانا نے مجھے بگھی روکنے کو کہا۔ وہ تقریباًً رینگے ہوئے بگھی سے اترے اور اپنی لاٹھی پر پھدکتے ہوئے انہوں نے دوڑ کرسڑک پار کی اورباڑ کی تاروں کے بیچ سے سامنے باغ میں داخل ہوگئے۔ اپنی نظروں سے اوجھل ہونے کے اسٹرا بیریکچھ  بعد میں سوچ ہی رہا تھا کہ ان کی تلاش میں جاؤں  کہ وہ دوبارہ بگھی کی طرف آتے دکھائی دیئے۔اُن کا ہیٹ ان کے ہاتھوں میں تھا اورہیٹ میں مُنہ میں پانی بھر لانے والی بڑی بڑی سُرخ اسٹرابیریاں تھیں۔ ہم نے دریا کے کنارے سڑک پر جاتے ہوئے خوب مزے لے لے کر اسٹرا بیریاں اُڑائیں۔ نانا انہیں کھاکھا کر گٹھلیاں ملکہ کی پیٹھ پرتھوکتے تو اُس کی کھال اس طرح تھرتھراتی جیسے مکھیاں بیٹھنے  پرتھرتھراتی تھی۔ایک بار تو تنگ آکر ملکہ نے اس طرح اپنی دُم گھمائی کہ نانا بال بال بچے۔ انہوں نے بلند آواز سے ہنستے ہوئے  بیریوں سے بھرا ہوا ہیٹ میرے حوالے کر دیا۔

سام گریگر کے لونڈے برسوں  سے میرے کھیتوں سے تربوز چُرا رہے ہیں اس لئے  ان کے کھیت سے چند بیریاں لینے  میں حق بجانب ہوں۔‘‘

پھر نانا نے مجھے ایک کہانی سُنائی۔ ایک دفع کا ذکر ہے ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔ وہ اپنے تمام کنبہ اور دوستوں سمیت ایک  تاریک وادی میں کھو گیا تھا۔ ایک روز اتفاق سے اسے ایک مشعل مل گیا۔ جب اُس نے مشعل  کو اونچااٹھایا تو تاریک وادی میں سب نے اس مشعل کو دیکھا اوردوڑتے ہوئے اُس طرف آنے لگے۔اس مشعل کی مدد سے لڑکے نے تاریک وادی سے روشنی کی طرف لوگوں کی رہنمائی  شروع کی۔ پہلے پہل کئی سو لوگ، پھر ہزاروں اور ایک وقت  لاکھوں لوگ اس کے پیچھے چلنے لگے۔ لڑکا جب بھی پلٹ کر دیکھتا اپنے پیچھے پہلے سے زیادہ لوگوں کودیکھتا اور جتنے لوگ اسے نظر آتے وہ اتنا ہی اپنے  آپ اور اپنے اس شاندار کارنامے پر فخرمحسوس کرتا۔وہ بار بار  مُڑ کے دیکھنے لگا کہ تاریکی سے نجات دلانے میں وہ کتنوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔اُس کا دل غرور سے بھر گیا کہ کتنے لوگ اسے رہنمامان رہے ہیں ۔ اچانک اس نے ٹھوکر کھائی اورمشعل اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ مشعل کے گرتے ہی اس کے پیچھے آنے والوں میں سے ایک نے  لپک کر مشعل   اٹھا لیا اورلاکھوں لوگ اس لڑکے کو  روندتے ہوئے خاک پر پڑا چھوڑ کرروشنی کی طرف چلے گئے۔وہ تو لڑکے کی رہنمائی میں نہیں بلکہ مشعل کے پیچھے  پیچھےآرہے تھے اوربغیر مشعل کی روشنی کے وہ خودہی اندھیرے میں اکیلا رہ گیا۔

’’دنیا اسی طرح کی ہے بیٹے‘‘، نانا بولے۔ ’’یہ دنیا ایک تاریک وادی ہے۔ اس میں اگر کبھی تمہیں ایک روشن مشعل مل جائے تو کبھی اسے ہاتھ سے جانے نہ دینا، کبھی ٹھوکر نہ کھانا اور ہمیشہ یاد رکھنا کہ بغیر روشنی کے خود تمہارا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا۔ہم سب غباروں کی طرح ہیں اور ہم میں جو روح روشن ہے وہ اس غبارے کی ہوا کی طرح ہے، جب تک یہ غبارہ ہوا سے خالی ہے اس کی کوئی قیمت نہیں‘‘۔

جب ہم دریا پار کرکے ٹمارک روڈ پر آئے تو جم پیٹسن کے  کھیتوں سے دوکتے دوڑتے ہوئے آئے اور گھوڑوں پر بھونکنے لگے۔ نانا اُن کتوں کی طرف جھکے اور اُنہیں کی طرح بھونکے۔ اس پر کتے ایسے بوکھلائے کہ بیچ سڑک  پرہی رُک گئے اور پھرپلٹے اور دُم دبا کر بھاگ  کھڑے ہوئے۔

ننھی چڑیوں کا ایک جھنڈعین  راستے پر اٹکھیلیاں کررہاتھا۔وہ ہمارے بگھی کو دیکھ کر گھنے درختوں میں جا چھپا۔  ہولسٹین گایوں کا ایک ریوڑانتہائی اطمینان سے دریا  کنارے پانی پی رہا تھا اور بڑا سا نارنجی سورج ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ راستے کی نرم مٹی پر پڑتے ہوئے گھوڑوں کے کھروں کی آواز اورزین کی جھنکار کی سنگت میں نانا گا رہے تھے:

بعد از مرگ ملیں گے حورو قصور

∞∞∞∞∞

آئندہ: خداخندہ زن،باب۵: کتاب حکمت اور طفل نادان

تحریر: ولیم سیئرس؛ ترجمہ: محمودالحق، ڈھاکہ، بنگلادیش

اس مضمون میں ظاہر کردہ خیالات لکھاری کے ذاتی خیالات ہیں۔ ان سے ’افکارِ تازہ‘ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

2 Responses

  1. Mahmudul Haq

    Eagerly looking forward to comments on my attempt at translating William Sears’ God Loves Laughter

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *