خدا خندہ زن: ایک آپ بیتی

posted in: خود نوشت | 1

یہ ایک غریب لڑکےکی قہقہوں بھری کہانی ہے۔ وہ وسط مغرب میں پیداہوا اورآگے چل کرامریکہ کے بہترین ٹی وی ستاروں میں سے ایک بنا۔ لیکن لڑکپن میں اس نے ایک خواب دیکھا تھا جواسے برسوں imageپریشان کرتارہا اوربالآخراس نےاُسےپوری دنیا میں مشہورکیا۔ اس نے تین برّاعظموں میں اپنا گھر بنایا اورایک بہت ہی مقبول ومحبوب عالمی سیاح بنا۔

ان پُرمزاح واقعات کی تہہ میں، جنہیں پڑھتے ہوئےآدمی بعض اوقات بے اختیارزورزورسےقہقہے لگانے لگتا ہے ،ایک سنجیدہ  اوربقول خودمصنف کے ’’ایک سچی‘‘داستان ہے۔ کتاب کی پیش لفظ میں مصنف لکھتا ہے:

’’اس کہانی کے تمام واقعات حقیقت پر مبنی ہیں۔ یہ واقعات حقیقی افراد سے متعلق ہیں۔ اگر آپ کو کسی کردار میں اپنے کسی دوست کی مماثلت نظر آئے تو سمجھئے کہ وہ حقیقتاً آپ کا دوست ہی ہے۔

اس کہانی کا پس منظر کو ئی فرضی دنیا نہیں، اگرچہ کہ میں نے مختلف ٹی وی اور ریڈیو اسٹشنوں کو جہاں میں نے کام کیا ہے آپس میں گڈ مڈ کر دیا ہے۔  صرف چند نام تبدیل کردئے گئے ہیں وہ بھی اس غرض سےکہ گناہگاروں کے عیوب پر پردہ پڑا رہے اور باغ شدّاد میں میرے ساتھ پسینہ بہانے والے چند باغبانوں پر کوئ حرف نہ آئے۔

اس داستان میں چند معمولی قسم کی تبدیلیاں میں نے مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر کی ہیں۔

اولاً: میری خواہش ہے کہ میں بدستور ٹی وی اور ریڈیو سے منسلک رہوں۔

ثانیاً:  مجھے بھی اپنی جان پیاری ہے۔

ثالثا ً: میں کتاب کے نتیجہ میں ہونے والی کمائی میں سے وکیلوں کو حصہ نہیں دینا چاہتا۔

میں نے دنیا کے گرد بارہ چکر لگائے ہیں اور اس کرہ ارضی کے ہر گوشہ میں بسنے والے انسانوں کو انتہائی دلچسپ پایاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کی تصنیف  میرے لئےانتہائی مسرت کا باعث ہو ئی۔ ہر چند کہ اس کی تصنیف کے دوران مجھے نہ صلہ کی خواہش تھی نہ ستائش کی تمنا، مگر یہ دونوں چیزیں اگر آپ دینا چاہیں تو میں بسروچشم قبول کرونگا۔ میرے لئےاس کتاب کی تصنیف کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ کیوں؟ یہ آپ اس کتاب کو ختم کرنے سے پہلے ہی سمجھ لیں گے۔‘‘

William Bernard Sears
ولیم برنارڈ سیئرز

ولیم برنارڈ سیئرز(William Bernard Sears)(مارچ۲۸، ۱۹۱۱ تا مارچ۲۵، ۱۹۹۲)ایک لکھاری اورمقبول ٹی وی وریڈیوشخصیت تھے۔ ۱۹۵۰میں آپ نے دین کی خدمت کرنے کےغرض سےٹی وی کی شہرت کو خیرباد کہدیا اور ساری زندگی امربہائی کی ترویج میں مصروف رہے۔ زندگی کے آخری ۳۵سال آپ نے ایادی امراللہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جووہ اعلٰی ترین عہدہ تھا جس پرآپ متعین کئے جا سکتے تھے۔ آپ نے متعددکتابیں لکھی ہیں جن میں سے کئی آپ کےصعود کے بعد بھی شائع ہوئیں۔ کتاب ’گاڈ لوز لافٹر‘ بھی آپ کی تصانیف میں سےایک ہے۔

کوئی دس برس اُھرکی بات ہے۔ میں بنگلہ دیش کے سفرپر تھا۔ راجشاہی میں میری ملاقات جناب محمودالحق سے ہوئی۔ اُس وقت وہ وہاں سرکاری افسران اورکالجوں اوریونیورسٹی کے طلبا کی انگریزی بول چال سدھاراکرتے اور بنگلہ زبان میں ایک مجلہ ’’نوبودیبوش‘‘ کی ادارت کیاکرتے تھے ۔ساتھ ہی آپ نارتھ بنگلہ دیش میں کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے کاموں میں بھی مصروف تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ولیَم سیئرز کی کتاب God Loves Laughterکا اردومیں ترجمہ کیاہے۔ پوچھا،’’ بنگلہ دیش میں اس کی کیا افادیت؟ ‘‘ جواب ملا:’’ خود اپنے لئے کیا ہے لیکن اگر کبھی کہیں شائع بھی ہوگئی توخوشی ہوگی۔ ‘‘ازراہ کرم انہوں نے مسودے کی ایک کاپی مجھے عنایت کی کہ دیکھیں پاکستان میں چھپ سکتی ہے کہ نہیں۔ میری ناہلی کہ میں نے اسے اس طرح محفوظ کر لیا کہ اب تک نہیں ملا۔ خداتومجھ پر ضرور’’خندہ زن‘‘ ہوگاہی لیکن جب برادرم محمود اس کنفیشن کو پڑھیں گے تو نہ جانے ۔۔۔ بہرحال مجھے خوشی ہے کہ اب ’افکارِتازہ ‘کے صفحات پر یہ کہانی قسط وار شائع کی جائے گی۔

ہمارے قارئین  یہ جانناچاہیں گے کہ یہ محمودصاحب ہیں کو ن جو بنگلہ دیش میں رہتے ہوئے اردوسے اس قدر ارادت رکھتے ہیں! تو سنئے: محمودالحق ریاست جوناگڑھ سے کراچی آبسنے والے ایک  بنگالی گھرانے کے چشم وچراغ ہیں جوکر اچی میں ہی پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش اُس

Mahmudul Haq
محمود الحق

شہر کے پاکستان چوک اوربزنس روڈ کے کثیرلسانی اور کثیرثقافی سماجی ماحول میں ہوئی اور۱۹۷۱کے بعد بنگلہ دیش جابسے۔  اپنے ہیرو ولیم سیئرز کی طرح ہی خدا کے متعلق چندسوالات انہیں بچپن سے ہی پریشان کرتے رہے تھے: کیا خدا قادرمطلق اورسب سے بڑھ کرقوی ہے؟ اگرہے تو آخردنیا میں  اس کے اختیارکو نظراندازکیوں کردیاجاتاہے؟ عام سالگابندھاجواب کہ، ’وہ تو قادرمطلق ہے لیکن ہم انسان ہی اس کے احکام پابندی نہیں کرتے‘،انہیں قطعاًمطمئن نہ کرپاتاتھا۔  وہ آہستہ آہستہ دین سے دورہوتے چلے گئے اورمارکسزم کے گہرے مطالعے میں مصروف ہوگئے۔

وہ خود کہتے ہیں کہ ،’’یقین کی طرف میری واپسی بڑی ڈرامائی تھی اورمیں اب اسے بیان کرنے میں جھجک محسوس کرتا ہوں کیونکہ یہ بڑی حد تک’جذباتی ڈرامہ‘سنائی دیتا ہے۔‘‘

آج کل وہ ڈھاکہ میں مقیم ہیں اور’اولیول‘ کے اسٹوڈنٹس کو انگریزی اور بنگلہ زبانیں پڑھاتے اور نوجوانوں کے  لئے سرگرمیاں منظم کرتے ہیں۔ ان سے اس ای میل پتے پررابطہ کیاجاسکتاہے  <haq.mahmudul2015@gmail.com>

آخرمیں یہ نوٹ کہ نام God Loves Laughterکاترجمہ کافی چیلنجنگ تھا۔مترجم نے خود ’’خدا خندہ زن‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ تاہم اگرہمارے قارئین میں سے کوئی کوئی اور ترجمہ تجویز کرنا چاہے توہم مشکور ہوں گے اوراس پرضرور غور کریں گے۔ واضح رہے کہ انگریزی میں یہ کتاب  George Ronald Publishers Ltd نے شائع کی اور وہی اس کے کاپی رائیٹ کے مالک ہیں۔ جارج رونالڈ پبلشرز لمیٹد، لندن نے اس ترجمہ اوراسے یہاں شائع کرنے کی اجازت ہمیں دی ہے جس کے لئے ہم تہہ دل سے ان کے مشکورہیں۔

تحریر:  ایڈیٹر، افکارِتارہ

آئندہ:  رستم ابن رستم پیدا ہوا

مضمون میں ظاہر کردہ خیالات مصنف کےذاتی خیالات ہیں۔ ان سے افکارتازہ یا کسی بہائی ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

  1. Mahmudul Haq

    my email id is please correct it. Thanks.
    Mahmudul Haq

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *