جہاں جہاں ہیں آدمی وہ خاندان ہے مرا
یہ نظم شاعر کے اس عقیدے کو بیان کرتی ہے کہ یہ پوری دھرتی اس کا گھر اورنوع بشر اس کا خاندان ہے اور وہ اس دنیا میں جہان بھی جائے سب اس کے گھرانے کے لوگ ہیں اس لئے اسے کسی کا کوئی خوف نہیں۔
جہان تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہ نظم شاعر کے اس عقیدے کو بیان کرتی ہے کہ یہ پوری دھرتی اس کا گھر اورنوع بشر اس کا خاندان ہے اور وہ اس دنیا میں جہان بھی جائے سب اس کے گھرانے کے لوگ ہیں اس لئے اسے کسی کا کوئی خوف نہیں۔
دست نام مرئی نے دھرتی کی طنابیں کھینچ لیں
فاصلہ قلبِ بشر میں اب کہاں رہ جائے گا
’’اے ایک زمیں کے باشندو‘‘ ایک پردرد نظم ہے جس میں شاعر اس دھرتی کے لوگوں سے مل جل کے رہنے کی اپیل کرتاہے۔
اگرچہ دنیا کے لوگوں پرجنگ وجدل کے نقصانات اب بالکل عیاں ہیں لیکن پھربھی اس کے بہترین ذہنی، انسانی اور مالی وسائل جنگ و جدل کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ شاعر اس نظم میں سمجھانے کی سعی کرتا ہے کہ ایٹم بم بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
مجھے پنچھی بن میں گاتے ہیں
جھرنے طنبور بجائے ہیں
مجھے مانجھی پاس بٹھاتے ہیں
میں نغمہ ہوں اِک وحدت کا
میں گیت ہوں پیار محبت کا