خداخندہ زن، باب ۲ :حقیقت انسان یا سارس کہانی
ویلیم سیئرس کی کتاب ’’خدا خندہ زن‘‘کا دوسرا باب حقیقت انسان یا سارس کہانی جس میں ایک چھوٹا لڑکا اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب کی تلاش میں ہے۔
جہان تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
ویلیم سیئرس کی کتاب ’’خدا خندہ زن‘‘کا دوسرا باب حقیقت انسان یا سارس کہانی جس میں ایک چھوٹا لڑکا اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب کی تلاش میں ہے۔
’’اے ایک زمیں کے باشندو‘‘ ایک پردرد نظم ہے جس میں شاعر اس دھرتی کے لوگوں سے مل جل کے رہنے کی اپیل کرتاہے۔
میں ایک جھلّی میں لپٹا پیدا ہوا تھا۔ اس واقعہ کے سلسلہ میں میرے آئیرش نژاد والد صاحب کافی بڑہانکا کرتے تھے۔ ویسے میرے چچا ڈفّی اس بارے میں زیادہ فصاحت سے فرمایا کرتے تھے کہ ’’یسوع، مریم اورجہنم کے تمام فرشتوں کی قسم! لمڈا پُڑیا میں لپٹا آیا ہے۔‘‘ دائی نے سب سے پہلے والد صاحب کو خبر دی کہ ان کے یہاں ایک لپٹا لپٹایا جینیس پیداہوا ہے۔
اگرچہ دنیا کے لوگوں پرجنگ وجدل کے نقصانات اب بالکل عیاں ہیں لیکن پھربھی اس کے بہترین ذہنی، انسانی اور مالی وسائل جنگ و جدل کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ شاعر اس نظم میں سمجھانے کی سعی کرتا ہے کہ ایٹم بم بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
یہ ایک غریب لڑکےکی قہقہوں بھری کہانی ہے۔ وہ وسط مغرب میں پیداہوا اورآگے چل کرامریکہ کے بہترین ٹی وی ستاروں میں سے ایک بنا۔ لیکن لڑکپن میں اس نے ایک خواب دیکھا تھاجو اسے برسوں پریشان کرتارہا اوربالآخراس نےاُسےپوری دنیا میں مشہورکیا۔ اس نے تیں برّاعظموں میں اپنا گھر بنایا اور اورایک بہت ہی مقبول ومحبوب عالمی سیاح بنا۔
’’پھولوں،جھاڑیوں اوردرختوں سے بھرے ہوئےایک خوبصورت باغ کو دیکھو۔ ہرپھول ایک الگ دلکشی،ایک خاص حُسن،خوداپنی خوشگوارخوشبواورخوبصورت رنگ رکھتاہے۔ درخت بھی قدوکاٹھ،بڑھوتری اورپتوں کے لحاذکتنے الگ الگ ہیں اوروہ کتنے مختلف پھل دیتے ہیں!لیکن یہ سب پھول،جھاڑیاں اوردرخت ایک ہی زمین سے پھوٹتےہیں، ان پروہی سورج چمکتاہےاوروہی بادل برستے ہیں۔انسانیت کے ساتھ بھی ایساہی ہے۔‘‘
گذشتہ دو صدی تک سائنس نے اپنی توجہ عالم فطرت میں جہد بقاء پر مر کوز کی ہے ، اور بہت سے سائنسدانوں نے آخر کار پست تر عالم فطرت کے اصولوں کو انسانی زندگی کے لئے اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے نتیجے میں اب ہم دشمنی، مقابلہ اور تنازعہ کو ضروریات زندگی میں شمار کرنے لگے ہیں یعنی نسل انسانی کی ایک پیدائشی اور ذاتی خصوصیت۔
حالانکہ حصولِ علم کسی ملک میں رہنے والے ہر ایک فردکا حق ہے اور بعض افراد کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم کرنا غیر قانونی ہے تاہم اب 35سال سے زیادہ ہو چکا ہے کہ بہت سے خواہشمند بہائی جوانوں کو اس ملک (ایران) کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے ۔
تخفیف اسلحہ کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پہلے خصوصی سیشن کے موقع پر مندوبین کو بہائی انٹر نیشنل کمیونٹی کی طرف سے پیش کیا گیا بیان : یکم جون ۱۹۸۲ء ، نیویارک
بہائی انسانی ارتقاءکےعمل کو ایک ایسا عمل دیکھتے ہیں جو انواع ، لوگوں اور قوموں کے درمیان بین العمل ، اتحاد اورہم آہنگی پر زیادہ سے زیادہ زوردیتا ہے ۔